آج – ٨؍جون؍ ١٩٤٣
سماجی اور سیاسی طنز کی حامل شاعری کے لئے معروف پاکستانی شاعر” پروفیسر پیر زادہ قاسم صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام پیرزادہ قاسم صدیقی، پروفیسر ،ڈاکٹر۔ ۸؍جون ۱۹۴۳ء کو دہلی کے ایک علمی وادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔انھوں نے ڈی جے سائنس کالج سے انٹر اور جامعہ کراچی سے بی ایس سی(آنرز) کے بعد ایم ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد نیو کیسل یونیورسٹی برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد درس وتدریس کا پیشہ اختیار کیا اور جامعہ کراچی میں بحیثیت لکچرر مقرر ہوئے۔ دوران ملازمت وہ جامعہ کراچی کے پرو وائس چانسلر اور رجسٹرار رکن سنڈیکیٹ، مشیر امور طلبہ اور دیگر اہم کمیٹیوں کے رکن رہے۔ پیرزادہ قاسم اردو یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر مقرر ہوئے تھے، لیکن چند ماہ بعد وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر کردیے گئے۔ پیرزادہ قاسم۱۹۶۰ء سے شعر کہہ رہے ہیں۔ انھوں نے تمام صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے، مگر غزل ان کا خاص میدان ہے۔ ۱۹۹۶ء میں دبئی میں جشن پیرزادہ قاسم بڑی شان وشوکت سے منایا گیا۔ ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں :
’تند ہوا کے جشن میں ‘‘، ’’شعلے پہ زبان‘‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:369
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر پیر زادہ قاسم کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
تمہیں جفا سے نہ یوں باز آنا چاہیئے تھا
ابھی کچھ اور مرا دل دکھانا چاہیئے تھا
—
دل اگر کچھ مانگ لینے کی اجازت مانگتا
یہ محبت زاد تجدیدِ محبت مانگتا
—
اس کی خواہش ہے کہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں
بے حسی وقت کی آواز بنا دی جائے
—
شہر طلب کرے اگر تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
—
سب مری روشنئ جاں حرفِ سخن میں ڈھل گئی
اور میں جیسے رہ گیا ایک دیا بجھا ہوا
—
زندگی کے دامن میں رنگ و نور و نکہت کیا
خواب ہی تو دیکھا ہے خواب کی حقیقت کیا
—
اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرم اسیری کی سزا دی جائے
—
سفر کی انتہا تک ایک تازہ آس باقی ہے
کہ میں یہ موڑ کاٹوں اس طرف سے تو نکل آئے
—
غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
—
قدم اٹھے بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
غضب ہے راہ کا اتنا بھی مختصر ہونا
—
ان کی وجہ شہرت تو تلخِ گفتگو ہی تھی
کیوں بدل لیا لہجہ دل دکھانے والوں نے
—
چراغ ہوں کب سے جل رہا ہوں، مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے
جو بجھ گیا تو سحر نما ہوں، مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے
—
ﺟﺲ ﻃﺮﻑ ﻧﻈﺮ ﮐﯿﺠﮯ ﻭﺣﺸﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﮞ ﮨﮯ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﺗﮏ ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ ﮨﮯ
—
ﺷﻌﻮﺭِ ﻋﺼﺮ ﮈﮬﻮﻧﮉﮬﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ
ﻣﮕﻦ ﮨﻮﮞ ﻋﮩﺪِ ﺭﻓﺘﮕﺎﮞ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ
—
ﺗﻌﺒﯿﺮ ﻧﻈﺮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ
ﺍﺏ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺑﺸﺎﺭﺕ ﻧﮧ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ
—
بے ﺩﻟﯽ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﺩﻟﯽ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﻏﻢ ﺳﮯ ﺟﻠﺘﮯ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ
—
ﺍﺏ ﺻﻠﮧ ﺣﺴﻦِ ﻋﻤﻞ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﻼ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﯿﮯ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺗﮭﮯ ﮨﻢ ﺳﻮ ﺷﻌﻠﮯ ﮐﯽ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﮯ
—
ﺳﺎﻧﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﻠﺘﺎ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﭘﮧ ﺭﻭﻧﮯ ﺳﮯ
ﺣﺒﺲ ﺟﺎﮞ ﻧﮧ ﮐﻢ ﮨﻮﮔﺎ ﺑﮯ ﻟﺒﺎﺱ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ
پیرزادہ قاسم
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ