آج – ۲۳؍جولائی ۱۹۷۹
اپنے غیر روایتی خیالات کے معروف، شاد عظیم آبادی، یگانہ چنگیزی کے بعد بہار کے ممتاز ترین شعراء میں شمار اور قبل از جدید شاعر” علاّمہ جمیلؔ مظہری صاحب “ کا یومِ وفات…
نام سیّد کاظم علی، جمیلؔ تخلص ۔ ۲؍ستمبر ۱۹۰۴ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ وطن حسن پورہ ضلع سارن (بہار) تھا۔ کلکتہ یونیورسٹی سے ۱۹۳۱ء میں فارسی میں ایم اے کیا اور روزنانہ ’عصرِ جدید‘ کلکتہ میں کالم لکھ کر ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ وحشت کلکتوی سے تلمذ حاصل تھا۔ ۱۹۴۶ء میں صوبہ بہار کے افسر اطلاعات کے عہدے پر مامور ہوئے۔۱۹۵۰ء میں پٹنہ یونیورسٹی میں اردو اور فارسی کے پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سیاست میں حصہ لینے پر ۱۹۴۲ء میں جیل گئے۔ اپنی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند سے ’’غالب ادبی ایوارڈ‘‘ حاصل کیا۔
۲۳؍جولائی ۱۹۷۹ء کو انتقال کرگئے۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’عرفان جمیل‘، ’فکرِ جمیل‘، ’نقشِ جمیل‘، ’وجدانِ جمیل‘۔ نظم ،غزل، گیت ،رباعیات، قطعات اور مراثی میں طبع آزمائی کی۔ شادؔ عظیم آبادی اور یگانہؔ چنگیزی کے بعد بہار کے ممتاز ترین شعرا میں جمیلؔ مظہری کا شمار ہوتا ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:377
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر جمیلؔ مظہری کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
بہت مشکل ہے پاسِ لذت دردِ جگر کرنا
کسی سے عشق کرنا اور وہ بھی عمر بھر کرنا
—
مری بندگی تجھے دے سکے گی بجائے معنی و لفظ کیا
ہے مرے شعور کی جھولیوں میں سوائے معنی و لفظ کیا
—
کسی کا خون سہی اک نکھار دے تو دیا
خزاں کو تم نے لباس بہار دے تو دیا
—
بقدرِ پیمانۂ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریبِ پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
—
تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں
یہاں نہ کوئی ہے اپنا نہ ہم کسی کے ہیں
—
میں کیا بتاؤں کہ تو کیا ہے اور کیا ہوں میں
ہجومِ لفظ و معانی میں کھو گیا ہوں میں
—
زخمِ دل تو کیا دو گے داغِ سجدہ ہی دے دو
اب تمہاری چوکھٹ سے مظہریؔ کہاں جائے
—
یہاں جو بھی تھا تنہا تھا یہاں جو بھی ہے تنہا ہے
یہ دنیا ہے یہ دنیا ہے اسی کا نام دنیا ہے
—
کچھ بھی نہیں ہے عالمِ ذرات سے آگے
اک عالم ہو عالمِ اصوات سے آگے
—
جمیلؔ حیرت میں ہے زمانہ مرے تغزل کی مفلسی پر
نہ جذبۂ اجتبائے رضوی نہ کیف پرویزؔ شاہدی کا
جمیلؔ مظہری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ