آج – ٢٦؍جولائی ١٩٢٨،( ولادت)
آج – ٢٦؍جولائی ١٩٨٠،( وفات)
اردو کے مایہ ناز جاسوسی ناول نگار، طنز و مزاح نگار اور معروف شاعر” ابن صفیؔ صاحب “ کا یومِ ولادت؍ وفات…
ابن صفیؔ ، ٢٦؍جولائی ١٩٢٨ء کو قصبہ نارہ ضلع الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور اسرار ناروی تخلص اختیارکیا۔ ١٩٤٨ء میں انہوں نے طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔
١٩٥٢ء میں انہوں نے جاسوسی دنیا کے نام سے جاسوسی ناولوں کا ایک سلسلہ تحریر کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ تھا جو ١٩٥٢ء میں ادارہ نکہت ، الٰہ آباد کے اہتمام میں شائع ہوا۔ اگست ١٩٥٢ء میں ابن صفی ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں سے ’’عمران سیریز‘‘ کے نام سے ایک اور سلسلہ شروع کیا جس کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ اکتوبر ١٩٥٥ء میں کراچی سے اور دسمبر ١٩٥٥ء میں الٰہ آباد سے شائع ہوا۔ ابن صفی نے اس سلسلے کے مجموعی طور پر ١٢٠ ناول تحریر کئے۔ اس سلسلے کا آخری ناول ’’آخری آدمی‘‘ تھا جو ابن صفی کی وفات کے بعد ١١ اکتوبر ١٩٨٠ء کو شائع ہوا۔
اکتوبر ١٩٥٧ء میں انہوں نے عمران سیریز کے ساتھ ساتھ جاسوسی دنیا کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ اس سلسلہ کا پاکستان سے شائع ہونے والا پہلا ناول ’’ٹھنڈی آگ‘‘ تھا۔
١٩٦٠ء سے ١٩٦٣ء کے دوران ابن صفی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے تین سال تک ان کا کوئی ناول شائع نہیں ہوا البتہ اس دوران ان کے نام سے ملتے جلتے قلمی ناموں سے جاسوسی ناولوں کا ایک سیلاب بازار میں آگیا۔ ١٩٦٣ء میں ابن صفی کی صحت یابی کے بعد ان کا ناول ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ شائع ہوا تو ابن صفی کے مداحوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ناشر کو ایک ہفتے کے اندر اندر اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جو اردو فکشن کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ابن صفی کے ناول ’’بیباکوں کی تلاش‘‘ پر ایک فلم ’’دھماکہ‘‘ بھی بن چکی ہے مگر یہ فلم کامیاب نہیں ہوسکی۔
٢٦؍جولائی ١٩٨٠ء کو اپنی٥٢ ویں سالگرہ کے دن ابن صفیؔ دنیا سے رخصت ہوگئے ۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اردو ادب میں ابن صفی کا جو مقام ہے وہ بہت ہی کم لکھنے والوں کو ملتی ہے۔
بقول ابن صفی کے لوگ میرے ناول خود تو چھپ چھپ کر پڑھتے ہیں لیکن انہی تحریروں کو ادب کے حوالے سے زہر کا درجہ دیتے ہیں!
ابن صفی اپنے بارے میں کہتے ہیں کے طنز و مزاح میرا فن نہیں بلکہ کمزوری ہے – اور کمزوری اس لیے کہ میں صاحب اقتدار نہیں ہوں – صاحب اقتدار ہوتا تو میرے ہاتھ میں قلم کی بجائے ڈنڈا نظر آتا اور میں طنز کرنے یا مذاق اڑانے کی بجائے ہڈیاں توڑ تا دکھائی دیتا –
( الحمدللہ کہ میری یہ کمزوری قوم کی عافیت بن گئی اور قوم بلا سے "واہ واہ" نہ کرے اسے "ہائے ہائے" تو نہیں کرنی پڑے گی۔
زمانہ طالب علمی کے زمانے میں شاعری کی ابتدا بھی کی ان کی پہلی نظم "آخری التجا" اپنے کالج کے ایک مشاعرے سنائی جو بہت پسند کی گئی –
جاسوسی دنیا کے علاوہ طنز و مزاح کے میدان میں بھی ابن صفی کا شمار اردو کے معتبر ادیبوں میں ھوتا ہے – طنز و مزاح بھرپور تحریروں میں ۔ رسالوں کے اسرار، میری سوانح عمری، اختلاج نامہ، وغیرہ شامل ہے ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
⬅ مقبول شاعر ابن صفی صاحب کے یومِ ولادت؍ وفات پر منتخب کلام بطورِ خراجِ عقیدت… ➡
راہِ طالب میں کون کسی کا اپنے بھی بیگانے ہیں
چاند سے مکھڑے رشکِ غزالاں سب جانے پہچانے ہیں
تنہائی ہی تنہائی ہے کیسے کہیں کیسے سمجھائیں
چشم و لب و رخسار کی تہہ میں روحوں کے ویرانے ہیں
آف یہ تلاشِ حسن و حقیقت کس جاٹھہریں جائیں کہاں صحنِ چمن میں پھول کھلے ہیں صحرا میں دیوانے ہیں
ہم کو سہارے کیا راس آئیں اپنا سہارا ہیں ہم آپ
خود ہی صحرا خود ہی دوانے شمع نفس پروانے ہیں
اپنے وجود کی مستی ہے ہم رندوں کے احوالِ نہ پوچھ
قدم قدم پہ چھیڑ خرد سے نفس نفس میخانے ہیں
بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں
┄┅─══════════─┅┄
مرے لبوں پر یہ مسکراہٹ
مگر جو سینے میں درد سا ہے
کوئی شکایت نہیں کسی سے
کہ شوق اپنا بھی نارسا ہے
ابھی سے کیوں شام ہورہی ہے
ابھی تو جینے کا حوصلہ ہے
تشنگی کس مقام پر لائی!!
اب تو دریا بھی ہوگیا ہے سراب
ہم پہ صدیوں کی پیاس طاری ہے
قطرے قطرہ کا ہو رہا ہے حساب
┄┅─══════════─┅┄
ﺑﮍﮮ ﻏﻀﺐ ﮐﺎ ﮨﮯ ﯾﺎﺭﻭ ﺑﮍﮮ ﻋﺬﺍﺏ ﮐﺎ ﺯﺧﻢ
ﺍﮔﺮ ﺷﺒﺎﺏ ﮨﯽ ﭨﮭﮩﺮﺍ ﻣﺮﮮ ﺷﺒﺎﺏ ﮐﺎ ﺯﺧﻢ
ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﻧﮧ ﭘﮭﭧ ﭘﮍﺗﺎ
ﻣﮕﺮ ﮨﺮﺍ ﮨﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺗﺮﮮ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﺯﺧﻢ
ﺯﻣﯿﮟ ﮐﯽ ﮐﻮﮐﮫ ﮨﯽ ﺯﺧﻤﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﻭﮞ ﺳﮯ
ﮨﮯ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﯿﻨﮯ ﭘﮧ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﮐﺎ ﺯﺧﻢ
ﻣﯿﮟ ﺳﻨﮕﺴﺎﺭ ﺟﻮ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﺘﺎ
ﮐﮭﭩﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﮔﻼﺏ ﮐﺎ ﺯﺧﻢ
ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﯽ ﺍﺳﺮﺍﺭؔ
ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻤﺮ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﮎ ﺷﺒﺎﺏ ﮐﺎ ﺯﺧﻢ
ابن صفیؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ