آج – ١٨؍ اگست ١٩٨٥
دکن کے نامی گرامی شعرا میں شمار، روایتی اور جدید شاعری کے لیے معروف شاعر” شاذؔ تمکنت صاحب “ کا یومِ وفات…
نام سیّد مصلح الدین ، ڈاکٹر۔ ۲۱؍جنوری ۱۹۳۳ء کو حیدرآباد، دکن میں پیدا ہوئے۔ مخدوم محی الدین پر مقالہ لکھ کرڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۸؍اگست ۱۹۸۵ء کو حیدرآباد، دکن میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’نیم خواب ‘، ’ورق انتخاب‘، ’تراشیدہ‘، ’بیاضِ شام‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:273
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر شاذؔ تمکنت کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
ان سے ملتے تھے تو سب کہتے تھے کیوں ملتے ہو
اب یہی لوگ نہ ملنے کا سبب پوچھتے ہیں
—
مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے
—
کبھی زیادہ کبھی کم رہا ہے آنکھوں میں
لہو کا سلسلئہ پیہم رہا ہے آنکھوں میں
—
زندگی ہم سے ترے ناز اٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی فقط رسمِ ادا کرتے تھے
—
ایک رات آپ نے امید پہ کیا رکھا ہے
آج تک ہم نے چراغوں کو جلا رکھا ہے
—
شب و روز جیسے ٹھہر گئے کوئی ناز ہے نہ نیاز ہے
ترے ہجر میں یہ پتا چلا مری عمر کتنی دراز ہے
—
کتابِ حسن ہے تو مل کھلی کتاب کی طرح
یہی کتاب تو مر مر کے میں نے ازبر کی
—
اس کا ہونا بھی بھری بزم میں ہے وجہ سکوں
کچھ نہ بولے بھی تو وہ میرا طرف دار لگے
—
سخنِ راز نشاط و غم کا پردہ ہو ہی جاتا ہے
غزل کہہ لیں تو جی کا بوجھ ہلکا ہو ہی جاتا ہے
—
چراغ رکھ کے سرِ شام دل کے زینے پر
مجھے خبر نہیں ہوتی سدھارتا ہے کوئی
—
کسی کا کوئی ٹھکانہ ہے کوئی ٹھور بھی ہے
یہ زندگی ہے کہیں اس کا اور چھور بھی ہے
—
حیات راس نہ آئے اجل بہانہ کرے
ترے بغیر بھی جینا پڑے خدا نہ کرے
—
ذرا سی بات تھی بات آ گئی جدائی تک
ہنسی نے چھوڑ دیا لا کے جگ ہنسائی تک
—
مرے نصیب نے جب مجھ سے انتقام لیا
کہاں کہاں تری یادوں نے ہاتھ تھام لیا
—
بڑے خلوص سے دامن پسارتا ہے کوئی
خدا کو جیسے زمیں پر اتارتا ہے کوئی
—
جن زخموں پر تھا ناز ہمیں وہ زخم بھی بھرتے جاتے ہیں
سانسیں ہیں کہ گھٹتی جاتی ہیں دن ہیں کہ گزرتے جاتے ہیں
—
اے جنوں دشت میں دیوار کہاں سے لاؤں
میں تماشا سہی بازار کہاں سے لاؤں
—
عذابِ ہجر بھی ہے راحتِ وصال کے ساتھ
ملی تو ہیں مجھے خوشیاں مگر ملال کے ساتھ
—
میری وحشت کا ترے شہر میں چرچا ہوگا
اب مجھے دیکھ کے شاید تجھے دھوکا ہوگا
—
مانا کہ میرے ظرف سے بڑھ کر مجھے نہ دو
شبنم ہی مانگتا ہوں سمندر مجھے نہ دو
—
ہوسِ جلوہ نہیں ذوقِ تماشا بھی نہیں
کسی چہرے پہ ترے چہرے کا دھوکا بھی نہیں
—
نہ محفل ایسی ہوتی ہے نہ خلوت ایسی ہوتی ہے
مرے معبود کیا جینے کی صورت ایسی ہوتی ہے
—
شبِ وعدہ کہہ گئی ہے شبِ غم دراز رکھنا
اسے میں بھی راز رکھوں اسے تم بھی راز رکھنا
—
بنا حسنِ تکلم حسنِ ظن آہستہ آہستہ
بہر صورت کھلا اک کم سخن آہستہ آہستہ
—
جس طرف جاؤں ادھر عالمِ تنہائی ہے
جتنا چاہا تھا تجھے اتنی سزا پائی ہے
—
بھنور کی چیخ بلاتی رہی مگر اے شاذؔ
اندھیری رات تھی موجوں کا نقش پا نہ ملا
شاذؔ تمکنت
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ