آج – ٣٠؍ اگست ١٩٤٠
ممتاز ترین مابعد کلاسیکی شاعروں میں شامل، حضرت داغؔ کے شاگرد اور معروف شاعر” احسنؔ مارہروی صاحب “ کا یومِ وفات…
سیّد علی احسن نام، احسنؔ تخلص، ’’شاہ میاں‘‘ عرف۔ ۹؍نومبر ۱۸۷۶ء کو مارہرہ ضلع ایٹہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۵ء میں داغؔ کے شاگرد ہوئے۔ ۱۹۲۱ء میں علی گڑھ میں اردو کے لکچرر کے عہدے پر تقرر ہوا۔ ۱۹۲۳ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ وفات ۳۰؍اگست ۱۹۴۰ء پٹنہ ، جہاں ان کے بیٹے انعام احسن حریف بہ سلسلۂ ملازمت مقیم تھے۔ تدفین مارہرہ۔ ’’جلوۂ داغ‘‘ یعنی حیات داغ ’’انشائے داغ‘‘ یعنی مکتوبات داغ، ’’تاریخ نثر اردو‘‘، ’’یادگار داغ‘‘ یعنی داغ کا آخری دیوان، ’’تحفہ احسن‘‘، ’’احسن الانتخاب‘‘ ، ’’فصیح اللغات‘‘ ان کی یادگار ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز شاعر احسنؔ مارہروی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
کسی معشوق کا عاشق سے خفا ہو جانا
روح کا جسم سے گویا ہے جدا ہو جانا
—
مجھے خبر نہیں غم کیا ہے اور خوشی کیا ہے
یہ زندگی کی ہے صورت تو زندگی کیا ہے
—
ہمارا انتخاب اچھا نہیں اے دل تو پھر تو ہی
خیال یار سے بہتر کوئی مہمان پیدا کر
—
روک لے اے ضبط جو آنسو کہ چشمِ تر میں ہے
کچھ نہیں بگڑا ابھی تک گھر کی دولت گھر میں ہے
—
کسی کو بھیج کے خط ہائے یہ کیسا عذاب آیا
کہ ہر اک پوچھتا ہے نامہ بر آیا جواب آیا
—
تمام عمر اسی رنج میں تمام ہوئی
کبھی یہ تم نے نہ پوچھا تری خوشی کیا ہے
—
موت ہی آپ کے بیمار کی قسمت میں نہ تھی
ورنہ کب زہر کا ممکن تھا دوا ہو جانا
—
یہ صدمہ جیتے جی دل سے ہمارے جا نہیں سکتا
انہیں وہ بھولے بیٹھے ہیں جو ان پر مرنے والے ہیں
—
ایک دل ہے ایک حسرت ایک ہم ہیں ایک تم
اتنے غم کم ہیں جو کوئی اور غم پیدا کریں
—
ہے وہ جب دل میں تو کیسی جستجو
ڈھونڈنے والوں کی غفلت دیکھنا
—
تنگ آ گیا ہوں وسعت مفہومِ عشق سے
نکلا جو حرف منہ سے وہ افسانہ ہو گیا
احسنؔ مارہروی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ