آج – یکم ستمبر ١٩٨٣
پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں نمایاں۔ اینٹی غزل رجحان اور جدیدیت مخالف روپے کے لئے مشہور شاعر” سلیمؔ احمد صاحب “ کا یومِ وفات…
نام سلیم احمد اور تخلص سلیمؔ تھا۔ یکم دسمبر۱۹۲۷ء کو بارہ بنکی کے ایک قصبے کھیولی میں پیدا ہوئے۔میرٹھ میں حسن عسکری سے ملاقات ہوئی اور ان کے نظریات کا انھوں نے گہرا اثر قبول کیا۔ نومبر۱۹۴۷ء میں پاکستان آگئے۔وفاقی حکومت کی وزارت اطلاعات میں بطور مشیر ریڈیو اور ٹی وی مامور رہے۔ریڈیو اور ٹی وی کے لیے متعدد ڈرامے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔فلموں کی کہانیاں، مکالمے اورسکرین پلے لکھے۔یہ شاعر ،ڈراما نگارکے علاوہ ایک اچھے نقاد تھے۔ یہ ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ سلیم احمد یکم ستمبر۱۹۸۳ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں :
'اکائی‘، چراغ نیم شب‘، ’مشرق‘، ’ادبی اقدار‘، ’بیاض‘، ’ادھوری جدیدیت‘، ’اقبال ایک شاعر‘، ’محمد حسن عسکری۔آدمی یا انسان‘، ’غالب کون‘، ’اسلامی نظام۔ مسائل اور تجزیے‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:214
*پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز شاعر سلیم احمد کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
نکل گئے ہیں جو بادل برسنے والے تھے
یہ شہر آب کو ترسے گا چشمِ تر کے بغیر
—
اس ایک چہرے میں آباد تھے کئی چہرے
اس ایک شخص میں کس کس کو دیکھتا تھا میں
—
گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو
پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے
—
اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے
تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے
—
سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو
بات جو دل سے نکلتی ہے بری لگتی ہے
—
منزل کا پتا ہے نہ کسی راہ گزر کا
بس ایک تھکن ہے کہ جو حاصل ہے سفر کا
—
مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہیں ہم
یوں نہ ملنے کا نکالا ہے بہانہ کیسا
—
نہ جانے شعر میں کس درد کا حوالہ تھا
کہ جو بھی لفظ تھا وہ دل دکھانے والا تھا
—
وہ بے خودی تھی محبت کی بے رخی تو نہ تھی
پہ اس کو ترک تعلق کو اک بہانہ ہوا
—
نہیں رہا میں ترے راستے کا پتھر بھی
وہ دن بھی تھے ترے احساس میں خدا تھا میں
—
گھر میں کچھ کم ہے یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیمؔ
یہ بھی کھلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے
—
رسمِ جہاں نہ چھوٹ سکی ترکِ عشق سے
جب مل گئے تو پرسشِ حالات ہو گئی
—
برا لگا مرے ساقی کو ذکر تشنہ لبی
کہ یہ سوال مری بزم میں کہاں سے اٹھا
—
قربِ بدن سے کم نہ ہوئے دل کے فاصلے
اک عمر کٹ گئی کسی نا آشنا کے ساتھ
—
آنسوؤں سے تو ہے خالی درد سے عاری ہوں میں
تیری آنکھیں کانچ کی ہیں میرا دل پتھر کا ہے
—
ان کو جلوت کی ہوس محفل میں تنہا کر گئی
جو کبھی ہوتے تھے اپنی ذات سے اک انجمن
—
وہ مرے دل کی روشنی وہ مرے داغ لے گئی
ایسی چلی ہوائے شام سارے چراغ لے گئی
سلیمؔ احمد
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ