آج – 30؍جنوری 1927
اردو کے ممتاز شاعر، فلم ساز اور ہدایت کار” سرورؔ بارہ بنکوی صاحب “ کا یومِ ولادت…
سرورؔ بارہ بنکوی اصل نام سعید الرحمن تھا۔ وہ 30؍جنوری 1927ء کو بارہ بنکی (یو پی۔بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد پہلے کراچی اور پھر ڈھاکہ میں سکونت اختیار کی۔جہاں انہوں نے فلم تنہا کے مکالمے لکھ کر اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا اور پھرچندا، تلاش، ناچ گھر، کاجل ، بہانہ، ملن، نواب سراج الدولہ، تم میرے ہو، آخری اسٹیشن،چاند اور چاندنی، احساس، سونے ندیا جاگے پانی اور کئی دیگر فلموں کے نغمات لکھے جو بہت مقبول ہوئے اسی دوران انہوں نے تین فلمیں آخری اسٹیشن، تم میرے ہو اور آشنا پروڈیوس اور ڈائریکٹ بھی کیں۔
آخری دنوں میں وہ بنگلہ دیش کے اشتراک سے ایک فلم ’’کیمپ 333‘‘ بنانا چاہتے تھے۔ وہ اسی سلسلے میں ڈھاکا گئے ہوئے تھے کہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث 3؍اپریل 1980ء کو ڈھاکہ میں وفات پاگئے۔ ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا جہاں وہ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
سروربارہ بنکوی کے دو شعری مجموعے سنگِ آفتاب اور سوزگیتی کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
ممتاز شاعر سرورؔ بارہ بنکوی کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین…
نہ کسی کو فکرِ منزل نہ کہیں سراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ
یہی لوگ ہیں ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
کبھی ڈال کر نقابیں کبھی اوڑھ کر لبادہ
میرے روز و شب یہی ہیں کہ مجھی تک آ رہی ہیں
تیرے حسن کی ضیائیں کبھی کم کبھی زیادہ
سرِ انجمن تغافل کا صلہ بھی دے گئی ہے
وہ نگہ جو درحقیقت تھی نگاہ سے زیادہ
ہو برائے شامِ ہجراں لبِ ناز سے فروزاں
کوئی ایک شمعِ پیماں کوئی اک چراغِ وعدہ
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
تو عروس شامِ خیال بھی تو جمال روئے سحر بھی ہے
یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے
یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں
وہی مرا جادۂ جستجو وہی ان کی راہ گزر بھی ہے
نہ ہو مضمحل مرے ہم سفر تجھے شاید اس کی نہیں خبر
انہیں ظلمتوں ہی کے دوش پر ابھی کاروانِ سحر بھی ہے
ہمہ کشمکش مری زندگی کبھی آ کے دیکھ یہ بے بسی
تری یاد وجہ سکوں سہی وہی راز دیدۂ تر بھی ہے
ترے قرب نے جو بڑھا دئے کبھی مٹ سکے نہ وہ فاصلے
وہی پاؤں ہیں وہی آبلے وہی اپنا ذوقِ سفر بھی ہے
بہ ہزار دانش و آگہی مری مصلحت ہے ابھی یہی
میں سرورؔ رہرو شب سہی مری دسترس میں سحر بھی ہے
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
اے جنوں کچھ تو کھلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوار یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں
پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب
میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں
جشنِ فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے
حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں
دم بخود ہوں اب سرِ مقتل یہ منظر دیکھ کر
میں کہ خود مقتول ہوں لیکن صفِ قاتل میں ہوں
اک زمانہ ہو گیا بچھڑے ہوئے جس سے سرورؔ
آج اسی کے سامنے ہوں اور بھری محفل میں ہوں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
سرورؔ بارہ بنکوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ