آج – 11؍فروری 1927
بیباک شاعری کے لیے مشہور شاعر ”باقؔر مہدی“ کا یومِ ولادت…
نام باقر مہدی اور تخلص، باقؔر تھا ۔ ١١؍فروری ١٩٢٧ء کو ردولی ،ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جعفر مہدی اردو مرثیے کے نامور شاعر تھے۔ ایم اے(معاشیات) لکھنؤ یونیورسٹی سے 1952ء میں کیا۔ ایم اے (انگریزی ادب) بمبئی یونیورسٹی سے 1967ء میں کیا۔ 1975ء میں بمبئی سے رسالہ اظہار جاری کیا۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
شہر آرزو، کالے کاغذ کی نظمیں، ٹوٹے شیشے کی آخری نظم (شعری مجموعے)، نیم رخ (خاکے)، آگہی وبے باکی، تنقیدی کش مکش (تنقیدی مجموعے) شعری آگہی تنقیدی کشمکش پر یوپی اور مہاراشٹر اردو اکادمیوں نے انعامات سے نوازا۔
باقؔر مہدی ٢٣؍ستمبر ٢٠٠٦ء کو ممبئی میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:200
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
معروف شاعر باقؔر مہدی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
چاہا بہت کہ عشق کی پھر ابتدا نہ ہو
رسوائیوں کی اپنی کہیں انتہا نہ ہو
—
حسرتیں زیست کا سرمایہ بنی جاتی ہیں
سینۂ عشق پہ وہ مشق جفا آج بھی ہے
—
فاصلے ایسےکہ اک عمرمیں طےہو نہ سکیں
قربتیں ایسی کہ خود مجھ میں جنم ہےاس کا
—
نغمہ بنا کے مجھ کو فضا میں اڑا دیا
اب میں کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں تری صدا
—
مجھے دشمن سےاپنےعشق سا ہے
میں تنہا آدمی کی دوستی ہوں
—
جانے کیوں ان سے ملتے رہتے ہیں
خوش وہ کیا ہوں گےجب خفا ہی نہیں
—
حسرتیں زیست کا سرمایہ بنی جاتی ہیں
سینۂ عشق پہ وہ مشق جفا آج بھی ہے
—
ہم ملیں یا نہ ملیں پھر بھی کبھی خوابوں میں
مسکراتی ہوئی آئیں گی ہماری باتیں
—
بہت ذی فہم ہیں دنیا کو لیکن کم سمجھتے ہیں!
عجب قصہ ہے سب کچھ جان کر مبہم سمجھتے ہیں
—
کبھی توبھول گئے پی کےنام تک ان کا
کبھی وہ یاد جو آئےتو پھر پیا نہ گیا
—
اس طرح کچھ بدل گئی ہے زمیں
ہم کو اب خوفِ آسماں نہ رہا
—
سیلابِ زندگی کےسہارےبڑھےچلو
ساحل پہ رہنےوالوں کا نام ونشاں نہیں
—
میرے صنم کدے میں کئی اور بت بھی ہیں
اک میری زندگی کے تمہیں راز داں نہیں
—
یہ سوچ کرتری محفل سےہم چلےآئے
کہ ایک بار تو بڑھ جائےحوصلہ دل کا
—
قافلے خودسنبھل سنبھل کے بڑھے
جب کوئی میرِ کارواں نہ رہا
—
یہ کس جگہ پہ قدم رک گئے ہیں کیا کہیے
کہ منزلوں کےنشاں تک مٹا کے بیٹھے ہیں
—
اس شہرمیں ہےکون ہمارا ترے سوا
یہ کیاکہ تو بھی اپنا کبھی ہمنوا نہ ہو
—
جو زمانے کا ہم زباں نہ رہا
وہ کہیں بھی تو کامراں نہ رہا
—
چلے تو جاتے ہو روٹھے ہوئے مگرسن لو
ہر ایک موڑ پہ کوئی تمہیں صدا دے گا
—
آئینہ کیا کس کو دکھاتا گلی گلی حیرت بکتی تھی
نقاروں کاشور تھا ہر سو سچےسب اور جھوٹا میں
—
اشک میرے ہیں مگر دیدۂ نم ہے اس کا
یہ جو ہونٹوں پہ تبسم ہے کرم ہے اس کا
—
دامنِ صبر کے ہرتار سےاٹھتا ہے دھواں
اور ہر زخم پہ ہنگامہ اٹھا آج بھی ہے
—
چراغِ حسرت و ارماں بجھا کے بیٹھے ہیں
ہر ایک طرح سے خود کو جلا کے بیٹھے ہیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
باقؔر مہدی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ