(ڈاکٹر اسلم فرخی پر ان کے بیٹے آصف فرخی کا مضمون)
جس یونیورسٹی میں، مَیں پڑھاتا ہوں وہاں کے ایک استاد نے مجھ سے دریافت کیا کہ میں اردو کی کس لُغت کو حوالے کی کتاب کے طور پر زیادہ استعمال کرتا ہوں۔
میرے منھ سے بے ساختہ نکلا، ’’ابّو!‘‘
میرے رفیق کار میرے والد کے علمی و ادبی حوالوں سے کسی قدر واقف تھے۔ وہ مرعوب ہو کر کہنے لگے، مجھے نہیں معلوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے کوئی لُغت بھی ترتیب دی ہے۔ اس کا کیا نام ہے؟
پھر مجھے بتانا پڑا کہ وہ لُغت دراصل خود ہیں۔ لُغت کی ورق گردانی کون کرے؟ مجھے یہ آسان معلوم ہوتا تھا کہ کسی لفظ کے معنی یا تلفّظ پر اشتباہ ہے، یا کسی شعر پر ذہن اٹک گیا، کوئی ادھورا مصرع یاد آرہا ہے یا کسی شعر کا محض ایک مصرع۔ ابّو سے پوچھ لیا۔ وہ بتا دیتے۔ اور اگر کہیں اٹکتے تو جب تک پوری طرح معلوم نہ کر لیتے، بے چین رہتے۔ پھر تلاش کرکے جواب حاصل کر لیتے تو بتا دیتے اور سکون کا سانس لیتے گویا یہ مسئلہ انہیں ہی تنگ کررہا تھا۔ بہت عرصے تک انہوں نے کسی بھی لغت سے بے نیاز رکھا۔ ہنس کر کہتے کتابیں دیکھتے دیکھتے ہم خود کتاب ہوگئے ہیں۔
سینکڑوں لوگ ان کے پاس صرف اسی مقصد کے لیے آتے یا ٹیلی فون کرتے۔ صاحب، فلاں لفظ۔۔۔۔ فلاں شعر کا پہلا مصرعہ۔۔۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے جن سے کوئی جان پہچان بھی نہ ہوتی۔ ابّو نے اپنی معلومات دوسروں تک پہنچانے میں کبھی بُخل سے کام نہیں لیا۔
ان کا علم حاضر اور حافظہ غیرمعمولی تھا۔ شعر تو شعر، انہیں نثر کی عبارتیں یاد تھیں۔ آزاد کے تو خیر مدّاح تھے، فسانۂ عجائب کے ٹکڑے aslam farrukhiروانی کے ساتھ دُہرا دیتے اور کیا مجال کہ کوئی لفظ اِدھر سے اُدھر ہوجائے۔
ان کی بینائی رفتہ رفتہ ساتھ چھوڑتی جارہی تھی اور پڑھنا ان کے لیے مشکل ہوتا جارہا تھا۔ ایک چھوڑ دو اخبار روزانہ کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کرنے والا شخص مجبور ہوگیا کہ صرف موٹی موٹی سُرخیوں پر اکتفا کر لے۔ ڈاکٹر نے تجویز کیا کہ محدّب شیشے کی مدد سے کام چلائیں مگر وہ اس طریقے سے ایڈجسٹ نہ کرپائے۔ کتاب پڑھنا کم ہوا تو وقت گزاری کا مسئلہ بھی بڑھ گیا۔ لیکن حافظہ مدد کو آیا۔ کتاب سے فاصلہ بڑھا تھا، ادب سے تو نہیں۔ انہوں نے یہ طریقہ وضع کر لیا کہ صبح اٹھ کر طے کر لیتے کہ آج کس شاعر کو پڑھنا ہے، پھر دن بھر اس کے اشعار حافظے کی مدد سے دُہرائے جاتے، زیر لب ان کا جیسے ورد کیے جاتے۔ ایک دن مجھ سے کہا، آج آتش کو پڑھ رہا ہوں۔ آتش کو دل ہی دل میں دُہرائے جاتے۔ یوں بھی آتش ان کے پسندیدہ شاعروں میں سے ایک ٹہرے۔ ان کو شکوہ تھا کہ اردو نقادوں نے آتش و ناسخ کے سلسلے کے شاعروں کے ساتھ انصاف نہیں کیا، یہاں تک کہ مجلس ترقّی ادب نے بھی رند، صبا اور وزیر کے دیوان نہیں شائع کیے۔
ایک بار میں نے کہا کہ ماضی کے بعض شاعروں کی شخصیات بہت مسحور کرتی ہیں، ہزاروں سوالوں کو جنم دیتی ہیں۔ مجھے کسی ایک شاعر سے ملاقات کا موقع مل جائے تو میرا انتخاب آرتھر راں بو (Arthur Rimbaud) ہوگا۔ پھر ان سے پوچھا، آپ کس سے ملاقات کرنا پسند کریں گے؟
آتش، ان کا جواب تھا۔
یوں ان کی پسند ناپسند بہت واضح ہوتی اور دوٹوک۔
انگریزی کے جاسوسی اور سراغ رسانی ناول بہت شوق سے اور کثرت سے پڑھتے تھے۔ مگر قائل چند ہی ناموں کے تھے۔ شرلاک ہومز کےaslam farrukhi قصّے تو نہ جانے کتنی بار پڑھ چکے تھے۔ پھر بھی مجھ سے کہتے، ایک جلد والا نسخہ بڑے ٹائپ میں مل جائے تو میرے لیے دیکھتے رہنا۔ ایک زمانے میں ارل اسٹینلے گارڈز کے ناول پڑھتے تھے، خاص طور پر پیری میسن والے سلسلے کے۔ پھر ایک وقت آیا کہ ان کی تمام تر توّجہ فرانسیسی ادیب Georges Simenon جارجز سیمینوں پر مُنعطف ہوگئی۔ اس کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے اور جمع کرتے جاتے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ سیمینوں صرف جرائم نہیں بلکہ انسانی نفسیات پر اپنے ناولوں کی بنیاد رکھتا ہے۔
نوعمری میں انہوں نے تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمے کثرت سے پڑھے تھے اور رینالڈز کے سینکڑوں ناول جو اردو میں دستیاب تھے۔ کتنی ہی کتابوں کے نام وہ گنوایا کرتے تھے۔ ادبی مرتبے کے لحاظ سے قدرے بہتر، رائڈر ہیگرڈ بھی ان کے پسندیدہ لکھنے والوں کی فہرست کا ایک اہم نام تھا۔ اس کے ناول کنگ سولومنز مائنز بلکہ اس سے بھی بڑھ کر شی اور رٹرن آف شی کو نہ جانے کتنی دفعہ پڑھ چکےتھے۔ شی کا اردو ترجمہ عذرا اور عذرا کی واپسی ان کو بہت پسند تھا، ایک مرتبہ میں پرانی کتابوں میں سے اس کا صاف ستھرا ایڈیشن لے آیا تھا تو بہت خوش ہوئے تھے۔ ہیگرڈ سے دل چسپی اتنی بڑھی کہ اس کی نہ جانے کون کون سی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ خاص طور پر ’دی مون آف ازرائیل ‘ کا نام لیا کرتے تھے۔
موجودہ زمانے کے جاسوسی ناول یا تھرلرز کی طرف انہوں نے کوئی خاص توّجہ نہیں دی۔ ایک آدھ کتاب مجھ سے لے لی تو پڑھے بغیر ٹال گئے۔ لیکن اس سے پہلے اپنے شوق سے جو کتابیں پڑھ چکے تھے، وہ ان کے حافظے پر جیسے مُرتسم تھیں۔ اپنے خیالوں میں ان کو نہ جانے کتنی مرتبہ دہراتے رہتے۔
کتابیں جمع کرنے کا شوق وقت کے ساتھ کم ہوگیا۔ کتابیں بانٹنے لگے۔ نئی آنے والی کتابیں باقاعدگی سے بیدل لائبریری بھجوا دیا کرتے، جہاں 0کے منتظمین نے ان کی دی ہوئی کتابوں کی الگ الماری بنوادی۔
تازہ ادبی رجحانات اور نئی کتابوں سے ازحد دل چسپی تھی۔ یہاں تک کہ بہت عرصے تک ایک مقبول عام رسالے میں نئی کتابوں پر تبصرے کرتے رہے، کیوں کہ اس طرح کتابوں سے واقفیت بڑھتی تھی۔ ان کا شوق اور تجسّس آخر تک زندہ و بیدار رہا۔
ان کے مزاج میں متانت اور سنجیدگی تھی۔ مگر ایسا بالکل نہیں کہ چیزوں کے لُطف نہ لیتے ہوں ہلّڑ بازی یا پھکّڑ پن ان کے مزاج سے بہت دور تھے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ زاہد خشک ہوں۔ دوستوں اور بے تکلّف ساتھیوں کی محفل میں خوب ہنستے بولتے۔ فقرے بازی سے ذرا نہ چوکتے اور اس کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ دوستوں کی محفل ہوتی تو ہزار داستاں کی طرح چہکتے۔
ان کے بے تکلّف دوستوں میں معروف شاعر احمد فراز بھی شامل تھے۔ دونوں نے تقریباً ایک ہی ساتھ ریڈیو پاکستان، کراچی میں قدم رکھا تھا۔ فراز صاحب ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جو ان کو ’’اسلم‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ضیاء الحق دور میں طویل جلاوطنی کے بعد فراز صاحب اسلام آباد میں مقیم تھے اور جب بھی میری ان سے ملاقات ہوتی وہ اپنے دوست کی خیرت پوچھا کرتے۔ دن کیسے گزارتے ہیں، شاعری کرتے ہیں؟ وہ مجھ سے پوچھتے۔ ایک مرتبہ میں نے بتایا کہ فرض نمازوں کے علاوہ چاشت، اشراق اور تہجّد کی نمازوں میں بھی ناغہ نہیں ہونے دیتے۔
ان سے کہو نمازیں کم پڑھا کریں، فراز صاحب نے مجھ سے کہا۔ میں نے جواب دیا کہ یہ بات میں نہیں کہہ سکتا۔ ایسی بات آپ ہی کرسکتے ہیں۔ چناں چہ طے پایا کہ اگلی بار فراز صاحب کراچی آئیں گے تو میں دونوں دوستوں کی ملاقات کروائوں گا۔
اس کے بعد جب فراز صاحب کراچی آئے تو میرے ساتھ ابّو سے ملنے کے لیے بھی آئے۔ اسلم، سُنا ہے تم نمازیں بہت پڑھنے لگے ہو۔ اس کو01 کم کرو، فراز صاحب نے چھوٹتے ہی ان سے کہا۔
میں نے سنا ہے تم شراب بہت پینے لتے ہو۔ اس کو کم کرو۔ ابّو نے فوراً جواب دیا۔
اس پر دونوں میں طے پایا کہ وہ شراب کم کردیں گے بشرط کہ ابّو نمازیں کم کردیں۔ معاہدہ طے پاگیا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا کہ کمرے کے باہر چلے جائو کیوں کہ اب نثر میں گفتگو ہوگی۔
ہشاش بشاش اور خوش باش فراز صاحب اس ملاقات کے بعد جانے لگے تو ابّو نے آہستہ سے مجھ سے کہا، میں نماز کم نہیں کرسکتا لیکن اس کی وجہ سے اس کی شراب کم ہو جائے تو اچھا ہے۔
فراز صاحب کو رُخصت کرنے باہر آیا تو گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے انہوں نے بھی قدرے آہستگی سے کہا، شراب تو کم کیا ہوگی، ان کی نمازیں کم ہو جائیں تو اچھا ہے۔
دونوں اپنی اپنی جگہ خوش اور مطمئن۔ ابّو اس کو اپنی کامیابی سمجھ کر بہت خوش تھے۔ میں نے ان کو بتایا کہ عمل درآمد کے لیے فراز صاحب کے بھی ویسے ہی ارادے ہیں جیسے آپ کے۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے، مجھے خوب اندازہ ہے۔ میں ہر نماز میں اس کے لیے دعا کروں گا۔ چناں چہ فراز صاحب کا نام انہوں نے دوستوں، واقف کاروں کی اس فہرست میں شامل کر لیا جن کے لیے ہر نماز میں دعا کرتے تھے۔
یہ فہرست پہلے ہی طویل تھی، مگر وہ دعا کے بہت قائل تھے۔ میں جتنی بار بھی ان کے پاس آتا، وہاں سے اٹھ کر اس وقت تک جا نہیں سکتا تھا جب تک کہ وہ حفاظت کی دعا پڑھ کر پھونک نہ دیں۔ اب تم جا سکتے ہو، زیرلب دعا پڑھنے کے بعد وہ مجھ سے کہتے۔ ان کا یہ معمول اس وقت تک قائم رہا جب تک زندگی کی آخری گھڑیوں میں ہوش و حواس پوری طرح قائم تھے۔ آخری مرتبہ کی دعا کے بعد میں وہیں رہ گیا، وہ خود اٹھ کر چلے گئے، جہاں سے کوئی واپسی نہیں آیا۔ وہ پہلے چلے گئے تو کیا ہوا۔
ان کی دعائوں کا حصار مرتے دم تک ٹوٹ نہیں سکے گا۔
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=1005878026194151&set=p.1005878026194151&type=1&theater