زلزلہ قشر الارض سے توانائی کے اچانک اخراج کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے زلزلیاتی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ توانائی اکثر آتشفشانی لاوئے کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۔اس توانائی (آتشفشانی لاوے) کے قوت اخراج سے قشر الارض کی ساختمانی پلیٹوں میں حرکت پذیری پیدا ہوتی ہے۔ لہذا اپنے دوران حرکت یہ پلٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں جس کی وجہ سے سطح زمین کے اوپر جھٹکے (tremours) پیدا ہوتے ہیں۔اور زلزلے رونما ہوتے ہیں۔زلزلوں کی پیمائش ایک پیمانے پرکی جاتی ہے جسے ریکٹراسکیل کہا جاتا ہے۔
زلزلے کیوں آتے ہیں؟
دنیا کی تاریخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے۔ ان میں سے بعض قدرتی آفتوں نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصّے کو دیکھتے ہی دیکھتے صفہحہ ہستی سے مٹاکر رکھ دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ حادثات اور قدرتی آفات میں زلزلے سے بڑھ کر کوئی دہشت ناک نہیں، اس لیے کہ یہ کسی پیشگی اطلاع کے بغیر ایک دم نازل ہوتا ہے، یوں ذہنی طور پر اس کا سامنا کرنے کی تیاری کا کسی کو بھی وقت نہیں ملتا۔ یوں بھی انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات دیگر قدرتی آفات مثلاً سیلاب، طوفان، وبائی بیماریوں اور جنگوں وغیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں، زلزلوں کی ہلاکت خیزی بھی جنگوں اور وبائی امراض سے کہیں زیادہ ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شدید حزن و ملال، پڑمردگی، خوف اور ڈراؤنے خواب مسلط رہتے ہیں۔ معلوم تاریخ کے مطالعے کے بعد ایک اندازہ لگایا گیا ہے اب تک آنے والے زلزلے آٹھ کروڑ انسانوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔ مالی نقصانات کا تو شاید کوئی حساب ہی نہیں کیا جاسکتا۔ آٹھ اکتوبر کی صبح 8 بج کر 50 منٹ پر جو قیامت خیز زلزلہ آیا، اس نے جہاں آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان اور صوبہ سرحد کے ہزارہ ڈویڑن میں تباہی پھیلائی وہیں پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد بھی اس ہلاکت آفریں زلزلے کی زد میں آگیا۔ زلزلے کے ابتدائی جھٹکے اس قدر شدید اور خوفناک تھے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام لوگ گھروں، دفترو ں اور کاروباری مراکز سے خوفزدہ ہوکر سڑکوں پر آگئے اور پھر کئی گھنٹوں تک سڑکوں پر ہی رہے۔ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ آتش فشاں پہاڑ کیوں پھٹتے ہیں؟ اور دنیا کے کچھ حصّوں میں اس قسم کے واقعات زیادہ کیوں رونما ہوتے ہیں؟ ان جیسے بہت سے سوالات 8 اکتوبر کے بعد اکثر لوگوں کے ذہنوں میں شدوّمد سے گردش کر رہے ہیں!
صدیوں پہلے لوگ زلزلے کے بارے میں عجیب وغریب رائے رکھتے تھے، مثلاً عیسائی پادریوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لیے اجتماعی سزا اور تنبیہ ہوتے ہیں بعض قدیم اقوام سمجھتی تھیں مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیوہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں، زلزلے پیدا کرتے ہیں قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویلِالقامت چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اْٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں کچھ ایسا ہی عقیدہ امریکی ریڈ انڈینز کا بھی تھا کہ زمین ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر دھری ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں سائیبیریا کے قدیم باشندے زلزلے کی ذمّہ داری ایک قوی البحثّہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہیں، جو ان کے بقول جب اپنے بالوں سے برف جھاڑنے کے لیے جسم کو جھٹکے دیتا ہے تو زمین لرزنے لگتی ہے ہندؤں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی داں فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین کے اندر مْردے آپس میں لڑتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔ اس کے برعکس ارسطو کی توجیہہ کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔ افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زیرِ زمین تیز و تند ہوائیں زلزلوں کو جنم دیتی ہیں۔ تقریباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہیں۔ کچھ دوسرے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ زمین کے اندرونی حصّے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھیلتی ہے۔ لیکن آج کا سب سے مقبول نظریہ ’’پلیٹ ٹیکٹونکس‘‘ کا ہے جس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیولوجی اور سیسمولوجی کے ماہرین نے تسلیم کرلیا ہے۔
زمین کی پلیٹیں
زمین کی پلیٹیں کے اس نظرئیے کے مطابق زمین کی بالائی پَرت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے۔ جب زمین کے اندرونی کْرے میں موجود پگھلے ہوئے مادّے جسے جیولوجی کی زبان میں میگما Magma کہتے ہیں، میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے تو یہ پلیٹیں بھی اس کے جھٹکے سے یوں متحرک ہوجاتی ہیں جیسے کنویئر بیلٹ پر رکھی ہوئی ہوں، میگما ان پلیٹوں کو کھسکانے میں ایندھن کا کام کرتا ہے۔ یہ پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب سرکتی ہیں، اوپر ، نیچے، یا پہلو میں ہوجاتی ہیں یا پھر ان کا درمیانی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ زلزلہ یا آتش فشانی عمل زیادہ تر ان علاقوں میں رونما ہوتا ہے، جو ان پلیٹوں کے Joint پر واقع ہیں۔
ارضی پلیٹوں کی حالت میں فوری تبدیلی سے سطح میں دراڑیں یا فالٹ Fault پیدا ہوتے ہیں جن میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے زلزلہ آتا ہے۔ زیرِزمین جو مقام میگما کے دباؤ کا نشانہ بنتا ہے، اسے محور Focus اور اس کے عین اوپر کے مقام کو جہاں اس جھٹکے کے فوری اثرات پڑتے ہیں، زلزلے کا مرکز Epicentre کہا جاتا ہے۔ زلزلے کی لہریں پانی میں پتھر گرنے سے پیدا ہونے والی لہروں کی طرح دائرے کی شکل میں چاروں جانب یلغار کرتی ہیں۔ ان سے ہونے والی تباہی کا تعلق جھٹکوں کی ریکٹر اسکیل پر شدّت، فالٹ یا دراڑوں کی نوعیت، زمین کی ساخت اور تعمیرات کے معیار پر ہوتا ہے۔ اگر زلزلہ زمین کی تہہ میں آئے تو ا س سے پیدا ہونے والی بلند موجیں پوری رفتار کے ساتھ چاروں طرف چلتی ہیں اور ساحلی علاقوں میں سخت تباہی پھیلاتی ہیں۔
پلیٹوں کی حرکات
زلزلے دو قسم کے ہوتے ہیں، قدرتی وجوہات کی وجہ سے آنے والے زلزلوں کو ٹیکٹونک Tectonic زلزلے کہا جاتا ہے جبکہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آنے والے زلزلے نان ٹیکٹونک Tectonic Nonکہلاتے ہیں۔ ٹیکٹونک زلزلے انتہائی شدت کے بھی ہوسکتے ہیں۔ جبکہ نان ٹیکٹونک عام طور پر معمولی شدت کے ہی ہوتی ہیں۔ ایک ہی زلزلے کا مختلف علاقوں پر اثر مختلف ہوسکتا ہے چنانچہ کسی خطے میں تو بہت زیادہ تباہی ہوجاتی ہے لیکن دوسرے علاقے محفوظ رہتے ہیں۔ زلزلے کی لہریں 25 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھیلتی ہیں۔ نرم مٹی اور ریت کے علاقے میں یہ نہایت تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی شدّت کا اندازہ ریکٹر اسکیل پر زلزلہ پیما کے ریکارڈ سے لگایا جاتا ہے۔ جبکہ ظاہر ہونے والی تباہی کی شدّت مرکلی اسکیل Intensity Scale Mercallyسے ناپی جاتی ہے۔ زلزلے سمندر کی تہہ میں موجود زمینی سطح پر بھی پیدا ہوتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر زلزلے سمندر کی تہہ میں ہی پید اہوتے ہیں۔ بحری زلزلوں یعنی سونامی سے سمندر میں وسیع لہریں پیدا ہوجاتی ہیں۔ انمیں سے بعض تو ایک سو میل سے لے کر 200 م?ل تک کی لمبائی تک پھیل جاتی ہیں، جبکہ ان کی اونچائی 40 فٹ تک ہوتی ہے۔ یہ لہریں ساحل پر پہنچتی ہیں تو ساحل سے گزر کر خشکی کی جانب سیلاب کی طرح داخل ہوجاتی ہیں اور بے پناہ تباہی و بربادی پھیلادیتی ہیں۔
دنیا کے وہ خطے جہاں زلزلے زیادہ پیدا ہوتے ہیں، بنیادی طور پر 3 پٹیوں Belts میں واقع ہیں۔ پہلی پٹی جو مشرق کی جانب ہمالیہ کے پہاڑوں سے ملی ہوئی ہے، انڈیا اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتی ہوئی افغانستان، ایران اور پھر ترکی سے گزرتی ہوئی براعظم یورپ اور یوگوسلاویہ سے فرانس تک یعنی کوہ ایلپس تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری پٹی براعظم شمالی امریکا کے مغربی کنارے پر واقع الاسکا کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوکر جنوب کی طرف mountains Rockyکو شامل کرتے ہوئے میکسیکو سے گزر کربراعظم جنوبی امریکہ کے مغربی حصّے میں واقع ممالک کولمبیا، ایکواڈور اور پیرو سے ہوتی ہوئی چلّی تک پہنچ جاتی ہے۔ جبکہ تیسری پٹی براعظم ایشیا کے مشرق پر موجود جاپان سے شروع ہوکر تائیوان سے گزرتی ہوئی جنوب میں واقع جزائر فلپائن، برونائی، ملائیشیاء اور انڈونیشیا تک پہنچ جاتی ہے۔ دنیا میں 50 فیصد زلزلے کوہِ ہمالیہ، روکیز ماؤنٹین اور کوہِ اینڈیز میں پیدا ہوتے ہیں اور یہ تینوں پہاڑی سلسلے اوپر بیان کردہ پٹیوں ہی میں واقع ہیں۔ تقریباً 40 فیصد زلزلے، براعظموں کے ساحلی علاقوں اور ان کے قرْب و جوار میں پیدا ہوتے ہیں جبکہ بقیہ 10 فیصد زلزلے دنیا کے ایسے علاقوں میں جو نہ تو پہاڑی ہیں اور نہ ساحلی ہیں، رونما ہوتے ہیں۔
جب زمین کی پلیٹ جو تہہ در تہہ مٹی، پتھر اور چٹانوں پر مشتمل ہوتی ہے، کسی ارضیاتی دباؤ کا شکار ہوکر ٹوٹتی یا اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو سطح زمین پر زلزلے کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لہریں دائروں کی صورت میں ہر سمت پھیل جاتی ہیں۔ جہاں پلیٹ میں حرکت کا مرکز واقع ہوتا ہے وہ Centre Hypoکہلاتا ہے۔ اس کے عین اوپر سطحِ زمین پر زلزلے کا مرکز Epicentre کہلاتا ہے۔ یہ لہریں نظر تو نہیں آتیں لیکن ان کی وجہ سے سطح زمین پر موجود ہر شے ڈولنے لگتی ہے۔
زلزلہ کی صورت میں، لیٹ جانا (DROP)، ڈھک لینا (COVER) اور پکڑے رہنا (HOLD ON) کو یاد رکھیں۔ فرش پر لیٹ جائیں اور چھپنے کیلئے کسی چیز کے نیچے رہیں اور اسے اس وقت تک پکڑے رہیں جب تک زلزلہ رک نہ جائے۔