پطرس کا ذکر ہو تو مجھے اکثر غالب کا خیال آتا ہے۔
مشترک تو شاید کچھہ نہ ہو ، لیکن جس طرح ایک مختصر دیوان سے غالب زندہ جاوید ہوگئے، اسی طرح پطرس بھی ایک مختصر مجموعۂ مضامین سے ایوانِ اردو ادب میں شہرتِ دوام کی مسند پر فروکش ہیں۔
آج ان کی 58 ویں برسی ہے۔ انہوں نے 5دسمبر 1958 کو وفات پائی۔ نیویارک میں سپردِ خاک ہوئے۔
پطرس بخاری یکم اکتوبر 1898ء کوپشاور میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد سید اسد اللہ شاہ بخاری پشاور کے ایک معروف وکیل خواجہ کمال الدین کے منشی تھے۔ اس زمانے کے رواج اور خاندانی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے پطرس بخاری کو گھر پر ناظرہ قرآن پاک پڑھایا گیا۔ فارسی کی تعلیم ضروری خیال کی جاتی تھی اسی لئے "صفوۃ المصادر" کے ذریعے فارسی زبان کے قواعد کی باقاعدہ تعلیم دی گئی۔ دینی اور ثقافتی بنیاد فراہم کرنے کے بعد والد نے آنے والے دور کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے دوستوں اور خیر خواہوں کے اعتراضات کی پروا نہ کرتے ہوئے نو سالہ پیر احمد شاہ (پطرس بخاری) کو انگریزی تعلیم کے لئے مشن اسکول پشاور میں داخل کرادیا۔ مشن اسکول میں داخل ہوتے ہی انہوں نے انگریزی نظمیں زبانی یاد کرنا شروع کردیں۔ اس زمانے میں انگریزی کے استاد انگریز ہوتے تھے جو بچوں کے تلفظ کا خاص خیال رکھتے تھے۔ احمد شاہ کی آواز، انگریزی لہجے اور خوبصورت تلفظ کے سبب ان کی انگریزی نظم خوانی پر اساتذہ خصوصی توجہ دیتے تھے۔ اس طرح انگریزی ادب سے مانوسیت نے دلی لگاؤ کی کیفیت پیدا کردی مشن ہائی اسکول میں تعلیم کے اعلیٰ معیار سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور 1913ء میں پندرہ برس کی عمر میٹرک میں اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔
والد صاحب نے انہیں 1914ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ دلوا دیا جہاں وہ ابتدا میں شرمیلے، کم گو اور ہوشیار طالبِ علم کی حیثیت سے اُبھرے جہاں انہوں نے 1916ء سے 1922ء تک تعلیم حاصل کی۔
پطرس بخاری 26-1925ء میں اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان گئے۔ انہوں نے انگریزی ادب میں اعلیٰ ترین سند کے لئے کیمبرج یونیورسٹی کا انتخاب کیا اور کیمبرج یونیورسٹی کے عمانویل کالج میں انگریزی ادب میں TRIPOS کی سند اول درجے میں حاصل کی اور عمانویل کالج کے سینئر اسکالر منتخب ہوئے۔ وہ جنوبی ایشیا کے دوسرے طالبِ علم تھے جس نے انگریزی ادب میں اول درجے میں سند حاصل کی
بخاری صاحب نے ملازمت کا آغاز 1922ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ہی لیکچرار کی حیثیت سے کیا اور 1935ء تک منسلک رہے۔ اُس وقت کے گورنر نے آپ کوشعبۂ انگریزی کی صدارت پر فائز کیا۔ یاد رہے پطرس بخاری پہلے مسلمان صدر شعبۂ انگریزی تھے۔ Prof. E. Dickenson کی سبکدوسی کے بعد 1 مارچ 1947ء کوپطرس نے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا جہاں 1950ء تک خدمات انجام دیتے رہے
آپ کے شاگردوں میں فیض احمد فیض، ن م راشد، کنہیا لال کپور، اقبال سنگھہ، الطاف قادر، حفیظ ہوشیار پوری، حنیف رامے اور پروفیسراشفاق علی خان بطور خاص شامل ہیں۔
1936ء میں جنوبی ایشیا میں ریڈیو کے باقاعدہ قیام پر بخاری صاحب صلاحیتوں کو جِلا بخشی نے تعلیم کے شعبے کو خیرباد کہہ کر ایک ایسے میدان میں خدمت کو ترجیح دی جس کے امکانات لامحدود تھے۔ ریڈیو میں لائق اور با صلاحیت عملے کے انتخاب کے لیے مرکزی حکومت نے جو بورڈ تشکیل دیا تھا اس میں صوبہ پنجاب کے نمائندے کی حیثیت سے بخاری صاحب کو نامزد کیا گیا تھا۔ بورڈ کے اجلاس میں بخاری صاحب نے اپنی لیاقت، انگریزی میں صلاحیت، اردو ادب اور فنونِ لطیفہ میں مہارت سے ریڈیو کے کنٹرولرنیونل فیلڈن کو بہت متاثر کیا۔ اسی بورڈ میں بخاری صاحب کے چھوٹے بھائی ذوالفقارعلی بخاری کا بھی انتخاب ہوا۔ نیونل فیلڈن نے دو ایک ماہ کے بعد ہی محسوس کیا کہ ریڈیو کے بڑھتے ہوئے کام سے تنہا عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں۔ اسی لیے نیونل فیلڈن نے وائسرائے لارڈ لنلتھگو سے جو رشتے میں اس کے ماموں تھے براہِ راست بخاری صاحب کی تقرری کے احکامات حاصل کروا لیے اور حکومتِ پنجاب سے انہیں فوری طور پر ریڈیو میں شمولیت کی اجازت طلب کی۔ پطرس بخاری ڈپٹی کنٹرولر کے عہدے کا چارج لینے آئے تو معلوم ہوا کہ ابھی یہ اسامی حکومت نے منظور نہیں کی ہے۔ لہذا انہیں دو ماہ کے لیے دلی اسٹیشن کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے جون 1936ء میں ڈپٹی ڈائریکٹر کا چارج سنبھالا۔ 1939ءمیں پطرس کو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔
ن جنگِ عظیم شروع ہونے سے قبل ہی نیونل فیلڈن بیمار ہو کرانگلستان چلا گیا اور بخاری اس کی جگہ قائم مقام کنٹرولر مقرر کردیے گئے اور 1940ء میں مستقل کنٹرولر مقرر کیے گئے۔ یہ عہدہ فروری 1943ء کو ڈائریکٹر جنرل میں تبدیل کردیا گیا۔
بخاری صاحب نے سب سے پہلے انڈین براڈکاسٹنگ سروس کا نام آل انڈیا ریڈیو منظور کروایا اور اس کی سگنیچر ٹیون بھی تیار کرائی۔ سب سے پہلے زبان کے مسئلے کے سیاق و سباق سے آگاہی کے لیے چھ تقاریر کا ایک سلسلہ نشر کیا۔ مقررین میں بابائے اردو مولوی عبدالحق، راجندر پرشاد (بعد میں ہندوستان کےپہلے صدر ہوئے)، ڈاکٹر تارا چند (الہہ آباد یونیورسٹی)، ڈاکٹر ذاکر حسین (بعد میں ہندوستان کے صدر ہوئے)، پنڈت برج موہن دتا تریا کیفی (اردو ادیب اور دانشور) اور ڈاکٹر آصف علی (سیاسی قائد) جیسی بلند مرتبت، لائق اور صاحبِ رائے شخصیات شامل تھیں۔ موزوں الفاظ کے فوری طور پر استعمال کے لیے ایک ایسی فرہنگ کی ضرورت تھی جس کے الفاظ نہ اردو کے ہوں نہ ہندی کے بلکہ ہندوستانی (عوام فہم) ہوں۔ اسے مرتب کرنے کے لیے چراغ حسن حسرت اور ایچ دت "سیانا" کو بطور ماہر مقرر کیا۔ اس فرہنگ پر نظرثانی کے لیے ڈاکٹر دوونشنی اور ڈاکٹر رفیق الدین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ یہ فرہنگ چار سال میں مکمل ہوئی اور 1944ء میں لطیفی پریس نئی دہلی سے شائع ہوئی۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم، لیاقت علی خان نے امریکا اور کینیڈا کا دورہ کیا۔ تقاریر لکھنے کے لیے بخاری صاحب کو بھی ساتھ لے لیا۔ یہ تقاریر"Pakistan Heart of Asia" کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہیں
بخاری صاحب کو یکم اگست 1949ء کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب مقرر کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان کشمیر کا تنازعہ لے کر اقوام متحدہ میں گیا تھا۔ فلسطین کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں گرما گرم بحثوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ تیونس کی آزادی کا معاملہ اقوامِ عالم کے لیے اہمیت اختیار کرچکا تھا۔
بخاری صاحب سفارت کاری میں اپنی خداداد ذہانت سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے سخت محنت کرتے۔ انہیں اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں اور چھوٹی بڑی کمیٹیوں میں مختلف موضوعات پر تقریر یں کرنی پڑتی تھیں۔ ان کی سب سے اہم تقریر 4 اپریل 1952ء کو سلامتی کونسل میں تیونس کی آزادی کے مسئلے پرفرانس کے خلاف گیارہ نکاتی شکایت پر تھی جس نے انہیں عرب اور ایشیائی ممالک کے قابلِ اعتماد ترجمان کی حیثیت عطا کردی۔ بخاری کی اس خدمت کو تیونس نے بھی تسلیم کیا اور اظہارِ عقیدت کے لیے وہاں پتھر کا ایک چھوٹا سا مینار بخاری کی یادگار کے طور پر تعمیر ہوا۔ 28 فروری 1954ء کو ایک اجلاس میں پاکستان کے لیے فوجی امداد کے موضوع پر پُرمغز باتیں کیں اور اسے جنگ کے بعد بین الاقوامی تعاون کی اہم مثال قرار دیا۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اقوامِ متحدہ کے اس وقت کےسیکریٹری جنرل داگ ہیمرشولڈ نے پطرس بخاری کو اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل انچارج تعلقات عامہ کے عہدے کے لیے منتخب کر لیا۔ جس پر بھارت نے سخت احتجاج کیا لیکن اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل داگ ہیمرشولڈ نے تمام اعتراضات کو رد کرتے ہوئے ان کی تقرری کی منظوری دی۔ بخاری صاحب کی تقرری بخاری صاحب کے ساتھ پاکستان کے لیے ایک اعزاز تھا جو پھر کسی پاکستانی کو حاصل نہیں ہو سکا۔
پطرس بخاری نے اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز سول اینڈ ملٹری گزٹ سے کیا۔ وہ عموماً تنقیدی مضامین لکھتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے Peter Watkins کا قلمی نام اختیار کیا تھا۔ یہ ایک لحاظ سے مشن اسکول پشاور کے ہیڈ ماسٹر سے قلبی تعلق کا اظہار تھا۔ جس کے لفظ "پیٹر" کے فرانسیسی تلفظ نے پیر احمد شاہ کو پطرس بنا دیا۔ اس وقت سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر M.E. Hardy تھے جو بخاری کو ایک کالم کا سولہ روپیہ معاوضہ ادا کرتے تھے جس کی قدر اس زمانے میں تین تولہ سونے سے زائد تھی
پطرس بخاری نے پطرس کا قلمی نام سب سے پہلے رسالہ کہکشاں کے ایک سلسلۂ مضامین یونانی حکماء اور ان کے خیالات کے لئے استعمال کیا۔ بخاری کی تحریریں پطرس کے نام سے اپنے زمانے کے مؤقر رسائل و جرائد میں شائع ہوتی تھیں۔ ان کی بیشتر تحریریں کارواں، کہکشاں، مخزن، راوی اور نیرنگِ خیال میں اشاعت پزیر ہوئیں۔
پطرس بخاری انگریزی زبان کے رموز، انداز اور مزاج سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے اپنی اس صلاحیت کو ترجموں میں بڑی چابکدستی سے استعمال کیا۔ پطرس بخاری کے ترجموں میں افسانے بھی ہیں، ڈرامے بھی، فلسفیانہ مضامین بھی ہیں اور اوپیرا بھی۔
بخاری صاحب نے مندرجہ ذیل تخلیقات کو اردو کا جامہ پہنایا،
مارخم (افسانہ) از رابرٹ لوئیس اسٹیونسن
گونگی جورو (ڈراما) فرنسیسی مصنف فرانسس رابیلے
صید و صیاد (افسانہ) ماخوذ از فرانسہ
تائیس (رومان) از اناطول فرانس
سیب کا درخت (افسانہ) از جان گالزوردی
نوعِ انسانی کی کہانی (دنیا کی ابتداء) از ہینڈرک فان لون 522 صفحات کی مکمل کتاب
بچے کا پہلا سال از برٹرینڈ رسل 407 صفحات کی مکمل کتاب
دیہات میں بوائے اسکاؤٹ کا کام (مکھیوں کا بادشاہ) از ایف ایل برین 200 صفحات کی مکمل کتاب
بخاری کو شاعری اور شاعرانہ ذوق ورثے میں ملا تھا۔ والد خود بھی شاعر تھے۔ گورنمنٹ کالج میں مشاعروں کی صدرات پطرس بخاری کی ذمہ داری تھی۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے بیان کے مطابق کالج کے مشاعروں میں وہ نہ صرف صدارت کرتے بلکہ دادِ سخن بھی دیتے، خود شعر بھی سناتے۔ڈرامے سے وابستگی اور تھیٹر کی چاٹ نے بخاری کی تقریباً ہر تحریر میں افسانوی انداز پیدا کر دیا
ایک بڑا مزاح نگار ہونے کے لیے ایک بڑی شخصیت بھی درکار ہوتی ہے اور پطرس بلاشبہ ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بلحاظ منصب بڑے اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور ان عہدوں کی گونا گوں مصروفیات کی وجہ سے انھیں بہت کم فرصت ملتی کہ وہ ادبی مشاغل کی طرف توجہ دیتے۔ اگرچہ انہوں نے بہت کم لکھا ہے لیکن جو لکھا وہ خوب لکھا اور معیاری و بلند مرتبہ ہے۔ ان کی تحریریں بھی خالص ادبی مزاح کے بہترین نمونے ہیں۔ قاری کی حسِ مزاح کو بیدار کر کے چھوٹی چھوٹی باتوں سے ظرافت کی کلیاں کھلاتے چلے جاتے ہیں ، ان کے ہاں طنز کی گہرائی کہیں نظر نہیں آتی، وہ صرف گدگداتے، چٹکیاں لیتے اور ہنساتے ہیں۔ یہی ان کی مزاح نگاری کی خصوصیات ہیں۔پطرس بخاری کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی مزاح نگاری کو تمسخر اور طنز سے آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ ان کے مزاح میں شوخی اور لطافت کی پاکیزہ آمیزش ہے۔ اس میں اتنی تلخی نہیں کہ طنز بن جائے اور اتنی کھلی ظرافت بھی نہیں کہ متانت سے گر جائے۔ ان کا لطیف مزاح ان کے انوکھے زاویۂ نظر سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ مزاح پطرس کی غیر معمولی ذہانت، عمیق مشاہدہ کی عادت اور شگفتہ طرز بیاں کی قوت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
پطرس نےانسانی سیرت میں جہاں بھی کوئی کمزوری محسوس کی اس کی گرفت کی ہے اور مزاحیہ انداز میں اس کا خاکہ اڑایا۔۔مذاق ہی مذاق میں کام کی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ چاہے "لاہور کا جغرافیہ" ہو، "میبل اور میں" ہر جگہ ان کا ذہن ایک ہی لفظ کے گرد گھومتا ہے۔
وہ ہے مقصدیت۔
https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=419664075090129&id=100011396218109