محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تِری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
آج حفیظ ہوشیار پوری کی44 ویں برسی ہے۔ وہ 5 جنوری 1912 کو دیوان پور ضلع جھنگ میں پیدا ہوئےاور10جنوری 1973 کو کراچی میں وفات پائی۔ ان اصل نام شیخ عبدالحفیط سلیم تھا۔آبائی وطن کی نسبت سے ہوشیار پوری کہلائے۔ایم اے فلسفہ کرکے ریڈیو سے وابستہ ہوئے اور اسی میں رہے۔ مجموعہ کلام وفات کے بعد ’پیمانۂ غزل‘ کے نام سے شائع ہوا۔ تاریخ گوئی میں انہیں کمال حاصل تھا ۔
لیاقت علی خاں کی وفات پر
صلۂ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ‘
اورریڈیو پاکستن کے آغاز پر
’’تری آواز مکے اور مدینے
جیسی بے مثال تاریخیں نکالیں ۔
برادرم ناصر زیدی کی ایک شاندار تحریر ملاحظہ ہو۔۔۔
دنیائے شعر و ادب میں حفیظ تخلص کے چار پانچ شاعر بڑے مقتدر ہو گزرے ہیں، بہت زیادہ دیر کی یا دور کی بات نہیں۔ ایک تو اپنے ابوالاثر حفیظ جالندھری ہیں کہ بہت کچھہ تھے اور پھر بھی انہیں یہ کہنا پڑا:
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے؟
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
ایک اور زیادہ عہدِ قدیم کے نہیں، بس قدرے قدیم حفیظ جونپوری تھے، جن کا ایک ہی شعر انہیں زندہ رکھنے کو کافی ہے:
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
اور ایک اور تھے حفیظ میرٹھی:
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے
دل ٹوٹے، آواز نہ آئے
اور ہاں حفیظ بنارسی بھی تھے کہ کراچی آکر حفیظ آزر یا آزر حفیظ ہو گئے تھے ان کا مجموعہ کلام ہے ’’اندر سمندر‘‘اور پھر حفیظ ہوشیارپوری بھی کہ جن کا تذکرہ آج مقصود ہے:
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تِری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
سہلِ ممتنع میں، چھوٹی بحر میں کہی گئی اور خوبصورت آواز کی گائیکی میں عمدہ ساز کے ساتھہ مشہور ہونے والی اس غزل نے شاعر کو شہرتِ عام اور بقائے دوام بخش دی:
زمانے بھر کا غم یا اک تِرا غم
یہ غم ہو گا تو کتنے غم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں، پُھول کب تک
شریکِ گریہء شبنم نہ ہوں گے
اگر تُو اتفاقاً مل بھی جائے
تِری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
اس لازوال غزل کے خالق حفیظ ہوشیارپوری بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ شیخ عبدالحفیظ سلیم ولد شیخ فضل محمد خان اصل نام۔5جنوری 1912ء کو لائلپور سے بارہ میل کے فاصلے پرایک گاؤں دیوان پور ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ اگرچہ پورے نام میں سلیم پہلے ہی سے لگا ہوا تھا یعنی شیخ عبدالحفیظ سلیم مگر وہ حفیظ تخلص اور ہوشیارپور کے لاحقے کے ساتھ حفیظ ہوشیارپوری کے نام سے مقبولِ جہاں ٹھہرے ابتدائی اور ثانوی تعلیم ہوشیارپور میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (فلسفہ) کیا۔ شروع میں اِدھر اُدھر، چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں، میاں بشیر احمد کے ساتھہ ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے سیکرٹری رہے۔ مدیر ’’پھول‘‘ اور ’’تہذیبِ نسواں‘‘ بھی رہے۔ پھر آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف ریڈیو اسٹیشنوں پر کام کیا، لاہور ریڈیو کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل پاکستان براڈ کاسٹنگ کی حیثیت سے 1967ء میں ریٹائر ہو گئے۔ شمس الحق صاحب نے اپنی تالیف ’’غزل اس نے چھیڑی‘‘ میں حفیظ ہوشیار پوری کو ریٹائرڈ ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان لکھا ہے جبکہ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریٹائر ہوئے تھے۔
حفیظ ہوشیارپوری کو شروع سے ہی شعر و ادب سے شغف تھا کہ ان کے نانا پڑھنے لکھنے کے رسیا تھے اور انہیں سینکڑوں اشعار اور بعض دلچسپ کتابیں ازبر تھیں گھر میں کتب کے ساتھہ رسائل و جرائد بھی آتے تھے۔ حفیظ ہوشیارپوری نے ابتدا میں مولانا غلام قادر گرامی سے فیض حاصل کیا ان کے مذاقِ سخن اور فیضِ صحبت نے حفیظ ہوشیارپوری کے جوہرِ قابل کو خوب نکھارا سنوارا۔ انہوں نے غزل اور نظم کے علاوہ بدیہہ گوئی اور تاریخ گوئی میں بھی کمال حاصل کیا۔ گرامی صاحب کے بعد حفیظ ہوشیارپوری نے اپنے بھائی راحل ہوشیارپوری سے رہنمائی حاصل کی اور سخن گوئی میں منفرد مقام حاصل کیا، اس حد تک کہ ان سے کسبِ فیض کرنے والوں میں ناصر کاظمی جیسے صاحبِ اسلوب شاعر بھی تھے
میری ذاتی ملاقاتوں کا سلسلہ ان کی ریڈیو کی ملازمت سے بہ حیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریٹائرمنٹ کے بعد شروع ہوا، وہ 1967ء میں ریٹائر ہوئے اور میں ادب لطیف کا 1968ء کا عظیم و ضخیم سالنامہ نکال کے کراچی پہنچا۔ ریڈیو کراچی سے کراّر نوری کے ہمراہ ریگل صدر کے علاقے میں ایک چائے خانے میں پہنچا تو ایک میزپر تنہا بیٹھے حفیظ ہوشیارپوری چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنی سوچ میں مگن تھے۔ ہم ذرا دور الگ میز پر جا بیٹھے۔ کراّر نوری صاحب سے میں نے تصدیق چاہی کہ میں جن کو حفیظ ہوشیارپوری کے طور پر پہچان رہا ہوں، کیا یہ وہی ہیں؟ تصدیق ہونے کے بعد کراّر نوری صاحب سے اجازت لے کر مَیں حفیظ صاحب کی میز پر پہنچا، اپنا تعارف کرایا سالنامہ پیش کیا اور معذرت کی کہ پہلے تو ریڈیو کے سرکاری پتے پر رسالہ جا رہا تھا، ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کا ذاتی پتا معلوم نہ ہو سکا اس لئے اب رسالہ نہیں مل رہا ہوگا، آئندہ کے لئے ان کا پتا اپنی ڈائری میں درج کیا اور وعدہ لیا کہ وہ کوئی تازہ غزل یا نظم ڈاک سے آئندہ رسالہ ملنے پر ضرور بھجوائیں گے۔ کراّر نوری صاحب ریڈیو کراچی میں اسٹاف آرٹسٹ تھے اور حفیظ ہوشیارپوری ان کے ’’بگ باس‘‘ رہے تھے اس لئے انہوں نے میرے ساتھہ ان کی میز پر آ براجمان ہونے کی بے تکلفی نہ برتی۔ بہرحال! رخصت ہوتے وقت ہم دونوں نے الوداعی سلام کیا اور ہاتھہ بھی ملایا۔ اس پہلی ملاقات کے بعد سال کے سال جب کراچی جانا ہوا میں ان کے مخصوص ہوٹل کی مخصوص میزپر ان کو تلاش کر ہی لیتا تھا۔ آخری ملاقات انتقال سے غالباً دو اڑھائی سال قبل ہوئی تھی، بہت دھان پان بلکہ ہڈیوں کا ڈھانچہ لگے تھے۔ پھر اطلاع ملی 10جنوری 1973ء کو وہ ہمیشہ کے لئے دنیائے فانی سے منہ موڑ گئے۔ ان کے انتقال کے کئی سال بعد شان الحق حقی صاحب نے ان کا کل حاصل شدہ کلام کتابی شکل میں ’’مقامِ غزل‘‘ کے نام سے چھپوا دیا۔ اس کتاب کو پاکستان رائٹرز گلڈ کی وساطت سے سب سے بڑا انعام، آدم جی ادبی انعام بھی ملا۔ اگرچہ بعض حلقوں کی طرف سے ڈاکٹر شان الحق حقی کی اس کاوش پر تنقید کی جاتی رہی کہ انہوں نے جیسا تھا، جو تھا، جس طرح حاصل ہوا سب کچھہ ایک کتاب میں جمع کرکے چھپوا دیا۔ اگر کلام کا انتخاب شائع کیا جاتا تو حفیظ ہوشیارپوری کا صحیح امیج ابھر کر سامنے آتا۔ بہرحال اس قسم کی تنقید سے قطعِ نظر ’’مقامِ غزل‘‘ اپنے ارفع و اعلیٰ مقام پر ہے اور حفیظ ہوشیار پوری کے قد کاٹھہ میں ہمیں تو کوئی کمی نظر نہیں آئی
فیروز سنز انسائیکلو پیڈیا میں صفحہ 6211 پر حفیظ ہوشیار پوری پر مختصر سے نوٹ میں بعض حقائق میں گھپلا روا رکھا گیا ہے مثلاً اکلوتے مجموعہء کلام کا نام ’’ شانِ غزل‘‘ کر دیا گیا ہے جبکہ ’’شانِ غزل‘‘ ہر گز نہیں ’’مقامِ غزل‘‘ ہے۔ اسی طرح بعض لکھنے والوں نے تاریخِ وفات 12 جنوری 1973ء لکھی ہے جبکہ سنہ ء تو صحیح ہے البتہ 12 جنوری کے بجائے 10جنوری ہے۔ ابھی کوئی صدیاں نہیں بیتیں، سامنے کی بات ہے ابھی سے اس قسم کی غلطیاں ؟ آگے چل کر کیا کیا گھپلے نہ ہوں گے، پھر بے چارے محققین بال کی کھال نکالتے بھی ہیں اور صحیح تاریخِ پیدائش اور تاریخِ وفات کا تعین کر بھی دیں تو کون مانے گا۔ بہت مقتدر شخصیت ہوئی جیسے قائداعظم اور علامہ اقبال تو یہ کام کمیٹی کے سپرد ہو گا اور کمیٹی کوئی متفقہ تواریخ نکال ہی لے گی!
حفیظ ہوشیارپوری نے نظمیں بھی کہیں اور قطعاتِ تاریخِ وفات بھی، وہ اہم اموات اور اہم واقعات پر ارتجالاً یعنی جھٹ تاریخ کو منظوم کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے مگر دراصل ان کی محبوب صنفِ سخن غزل ہی تھی اور غزل ہی ان کی صحیح پہچان ہے بحیثیت غزل گو شاعر ہی حفیظ ہوشیارپوری دنیائے شعر و سخن کی آبرو اور ایسے ایسے اشعار کی بدولت ہمیشہ آبرو رہیں گے
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ پوچھہ کیوں مری آنکھوں میں آ گئے آنسو
جو تیرے دل میں ہے اُس بات پر نہیں آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری منزل پر پہنچنا کوئی آسان نہ تھا
سرحدِ عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنے حال کو ماضی سے کیوں کہوں بہتر
اگر وہ حاصلِ غم تھا تو یہ غمِ حاصل
کچھہ اس طرح سے بہار آئی ہے کہ بجھنے لگے
ہوائے لالہ و گُل سے چراغِ دیدہ و دل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تُو نے اسے تعبیر کیا عشق سے ورنہ
کس کے لئے اے دوست پریشان نہ ہوئے ہم
محدود رہے غم ایک نہ اک آفتِ جاں تک
افسوس حریفِ غمِ انساں نہ ہوئے ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شراب و ذوقِ طلب ہے نہ اب وہ عزمِ سفر
رواں ہے قافلہ تسکینِ راہبر کے لئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے جاتے ہی یہ عالم ہے جیسے
تجھے دیکھے زمانہ ہو گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جہان زندگاں ہے کہ دَیارِ کُشتگاں ہے
کوئی دشمنوں کا مارا کوئی دوستوں کا مارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تمیز عشق و ہوس نہیں یہ حقیقتوں سے گریز ہے
جنہیں عشق سے سروکار ہے وہ ضرور اہلِ ہوس بھی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آبادی ء دل کی ہے فقط ایک ہی صورت
بربادی ء دل کے لئے سامان ہزاروں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستی عام ہے لیکن اے دوست
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے
کچھہ ایسا ہی خیال عہدِ موجود کے سب سے بڑے غزل گو اور حفیظ ہوشیارپوری کے جونیئر ہمعصر احمد فراز کے ہاں بھی اس مقبول شکل میں ملتا ہے
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھہ ملانے والا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کی غزل کا مشہور مطلع
دل کے افسانے نگاہوں کی زبان تک پہنچے
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
اس مطلع کی موجودگی میں حفیظ ہوشیارپوری کی غزل کا یہ مطلع بھی موجود ہے
رازِ سربستہ محبت کے ،زباں تک پہنچے
بات بڑھ کر یہ خدا جانے کہاں تک پہنچے
https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=445808509142352&id=100011396218109