ہمارے فکری، سماجی، سیاسی، اخلاقی جمود کی وجہ یہ ہے، کہ ہم خود پر سوال نہیں اٹھاتے۔۔۔ جو خواہش کرتے ہیں، جو رائے قائم کرتے ہیں، جو عمل کرتے ہیں۔۔ ان کے جب وہ نتائج نہیں نکلتے، یا بالکل الٹ نکلتے ہیں۔۔ تو خود پرغور نہیں کرتے کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ بس ہم اس سے ایسے ہی گزر جاتے ہیں۔ کوئی نتیجہ نہیں نکالتے، کوئی غور نہیں کرتے، لہذا کیا ہوتا ہے۔۔ کہ ہم زہنی، دماغی سطح پر وہی کے وہی رہتے ہیں۔ جہاں تھے حالانکہ وہ کئی بار غلط موقف، غلط رائے، غلط نتیجہ کا حامل فیصلہ، رائے ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن ہم پھر وہی دہرائیں گے۔۔۔ بھلے پھر نتیجہ صفر نکلے۔۔۔ کوئی اثر ہونے والا نہیں، کوئی سبق سیکھنے والے نہیں۔
اس کی حالیہ دو مثالیں ہیں۔ ایک مذہبی اور ایک سیاسی ہے۔
مزہبی میں کرونا لے لیں۔۔ جب شروع میں کرونا وبا کی خبریں عام ہونے لگی، اور اس میں ہاتھ صابن اور 70٪ الکوحل ملے سینٹایرز سے صفہائی لازمی قرار دے دی گئی، تو اہل اسلام نے یہ شور مچا دیا۔۔ کہ ہمیں تو 14 سو سال پہلے ہی اس کا علاج بتا دیا گیا تھا۔۔۔ ہم تو پہلے ہی 5 وقت وضو کرتے ہیں۔ بس وضو ہے تو کرونا ختم۔۔۔۔۔ اب صابن سے 20 سیکنڈ ہاتھ ملنا کہاں، اور سینٹائزر کہاں۔ اس میں ' وضو ' کی برکت گھسیڑ دی۔ لیکن ہوا کیا، مسجد نبوی اور خانہ کعبہ جیسے مقدس مقامات بند ہوگے۔ حالانکہ ان سے زیادہ باوضو ہو کرجانا اور کونسی جگہ ہوگی۔ تمام مقدس مقامات سے کرونا کے لگنے کے بلکہ زیادہ امکانات ثابت ہونے شروع ہوگے۔۔ شیعہ مقدس مراکز میں کرونا پھیل گیا۔ تبلیغی ظاہر ہے وضو میں ہی ہوتے ہونگے۔۔ ان کی بڑی تعداد کرونا کا شکار ہوگئی پھر بیچ میں آب زم زم کا بھی شوشا چھوڑا گیا۔
پھر مذہب والوں نے کیا کیا، چھتوں پر چڑھ کرازانیں دینی شروع کردی۔ نتیجہ صفر پھر ٹی وی پر ہماری ریاست و حکومت نے اپنے چیف اسلامی پوپ مولانا طارق جمیل کو لا کر رلا رلا کر دعائیں کرائیں۔ (بغیرآنسو کے ایک قطرے کے)۔۔۔ خوب اللہ میاں سے ان نیک بندے سے دعائیں کرائیں۔ جسے اللہ میاں گانے سناتا ہے۔ حوروں کی مینوفیکچرنگ فیکڑی میں لے جا کردکھاتا ہے کہ حوریں کن خام مال سے تیار ہورہی ہیں۔ لیکن نتیجہ زیرو۔
لیکن کوئی اہل ایمان ہے کہ وہ غورکرے۔۔یہ کیوں۔ اور کوئی سبق سیکھے، بالکل نہیں۔ ان کی روش وہی کی وہی رہے گی، کل پھر وہی کریں اور کہین گے۔
اب آتے ہیں، سیاست کی طرف
دو سال پہلے چلے جاتے ہیں۔ عمران کی پارسائی اور اعلی صلاحیتوں کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ یہ یقین کرلیا گیا، کہ عمران آئے گا، تو پاکستان، حکومت، سیاست، انتظامیہ، مالیاتی، تعلیمی، صحت۔۔ جادو کی طرح سے سب طرح کے مسائل حل ہوجائیں گے۔۔ غیر عمرانی ہر سیاست دان قابل نفرت اور کرپشن، نالایقی کی علامت بن گیا۔
ہوا کیا۔ نہ صرف کسی بھی سطح کی کسی ایک شخص کی امید پر وہ پورا اترنا تو کجا۔ پاکستان کی تاریخ کی بدترین، نالائق ترین لٹیروں اور نہائت پستہ زہن لوگوں کی حکومت آگئی۔
لیکن کوئی یوتھیا ، کوئی عمران کا ووٹر اورحمائتی اس سےکوئی سبق نہیں لے گا۔ نہیں سوچے گا، کہ ہم کہاں غلط تھے۔۔ ہم نے امیدیں باندھنے میں کہاں غلطی کی۔
یہ کروڑوں لوگ پھر دھوکے میں آئیں گے، پھر اسی طرح ان کو بے وقوف بنایا جائے گا۔ یہ پھر لٹے جائیں گے۔ یہ پھر ہلا ہلا کرتے۔ کسی کو کرپٹ کہہ رہے ہونگے۔ اور کسی مسیحا کی طرف دیکھ رہے ہونگے۔۔
پاکستان بدل کیسے سکتا ہے۔ ہم بدلنے کو تیار ہی نہیں۔ ہمارے وہ جراثیم ہی موجود نہیں۔۔ سیکھنے والے، بدلنے والے، خود کو بہتر کرنے والے۔ ایمان اور عادات کے پکے ہیں۔۔ ڈھیٹ ہیں۔