آپ نے ' مدنی ریاست' کی خیالی، مبہم اور جعلی قصے کہانیاں تو پڑھی ہوئی ہیں، عالمی تاریخ میں وہ کونسا عہد تھا، جس کے دوران جس میں نسل انسانی سب سے زیادہ خوش اور آسودہ حال تھی، سن 96 عیسوی سے لے کر 180 عیسوی تک 84 سال ایسے تھے، جس میں بادشاہوں کا واحد مقصد لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آسودہ اور خوشحال رکھنا تھا۔ روم کی سلطنت میں دوسروں کی اولاد کو بادشاہ کا اپنی گود لینے کے سنہری اصولوں نے روم کو ایسے عظیم جانشین دیئے، جو اس سے قبل دنیا میں کسی قوم کو نصیب نہیں ہوئے۔ اپنی اولاد کے علاوہ کسی دوسرے کی اولاد کو جانشین بنانے کا اصول 14 قبل مسیح میں آگسٹس نے اپنایا تھا۔ جب نیروا کو سینٹ نے 66 سال کی عمر میں بادشاہ مقررکیا، تو اس نے سرکاری زمین غریبوں میں تقسیم کردی، بہت سارے ٹیکس ختم کردیئے، یہودیوں کو غلامی سے آزاد کیا، ان پر عائد جرمانے معاف کردئے، اس نے انتظامی کارکردگی کو بہترین بنا کر معیشت کو مضبوط کیا۔
117 عیسوی میں Hadrian بادشاہ مقرر ہوا۔ اس کو جنگ سے نفرت، کتوں گھوڑوں، شکار، ادب، فلسفہ اور فنون لطیفہ سے دیوانگی کی حد تک لگاو تھا۔ اس نے روم میں شامل اہم کالونیوں کو آزاد کردیا۔ اس نے روم کی حکومت پر ہی توجہ دی۔ اور ہر شعبے کی کڑی نگرانی کی۔ سرکاری خزانے سے بدعنوانی کو روکنے کے لئے زاتی نگرانی کی۔ اس نے ہمیشہ غیرجانبداری اور منصفانہ فیصلے کئے، جس میں وہ اکثر غریبوں کی حمائت اور امیروں کو سخت سزائیں دیا کرتا تھا۔ اس کے زمانے میں کمزور طاقت وروں سے زیادہ طاقت ور تھے۔ اس نے قومی وسائل سے مفتوحہ علاقوں میں بھی دولت تقسیم کی۔ جس علاقے میں قدرتی آفات آتی، وہاں فوری امداد بھیجنے کا بندوبست کرتا۔ اس نے جرمن سرحدات کے ساتھ وحشی جنگجووں کو روکنے کے لئے سرحدی رکاوٹیں تعمیر کی۔ وہ اپنے دور دراز علاقوں اور صوبوں میں خود جاتا۔ وہاں قیام کرتا، لوگوں سے ملتا، وہ مصر اور نیل میں بھی گیا، اس نے اسکندریہ میں علم الکلام پر تحقیقات کا بھی جائزہ لیا، روم میں کئی عمارتیں بنوائیں جو آج بھی فن تعمیر کا شاہکار ہیں۔ اس کے طویل امن کے دور کے آخر میں بدامنی شروع ہوئی، جس کا اسے شدید دکھ ہوا۔ ہیڈریان کے جان نشین نے اپنے تمام زاتی اثاثے اور رقومات قومی خزانے میں جمع کرا دیں۔ ٹیکسوں کے بقایاجات معاف کردیئے، میلے ٹھیلے اور سماجی تقریبات کے لئے خطیر رقومات فراہم کی۔ تیل ، گندم، وائن کی روم میں فراوانی پیدا کردی، اور ان کو رعایا میں مفت تقسیم کیا۔ جنسی جرائم میں مرد اور عورت کو برابر کی سزائیں دینے کا فیصلہ کیا۔ جو غلاموں پر ظلم زیادتی کرتا۔۔ اس مالک پر غلام رکھنے کی پابندی لگا دی جاتی۔ ہر خاص و عام کے لئے تعلیم عام کردی۔
ول ڈوراں لکھتا ہے۔ کہ اس کے عہد میں سب سے زیادہ فائدہ غریبوں کو ہوا۔ اس کے عہد میں عوام کو جنتی آزادیاں ملی، تاریخ میں کسی بھی بادشاہ کے وقت کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ عوام اس سے دل و جان سے محبت کرتے تھے۔۔ اس نے خاص طور پر اساتذہ اور فلسفہ دانوں کے حصول علم میں دل کھول کرمدد کی۔ اس کے عہد میں استاد اور فلاسفر کا درجہ سینٹ کے رکن کے برابر تھا۔ اپنی عمر کے 74 سال Antoninus شدید بیمار ہوگیا۔ اس نے گود لئے گے مارکوس کو جانشین مقرر کرتے نصیحت کی، کہ سلطنت کا بھرپور خیال رکھے۔ مارکوس بھی ایک اعلی حکمران ثابت ہوا۔ اس نے فلکیات پر لکھی کتاب سے قدرت کے نظام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ توہمات سے نجات حاصل کی۔ اپنی جوانی سے پہلے ہی وہ رواقی عقیدے Stoic کا پیروکار بن چکا تھا۔ جس کے تحت نیکیاں کرنے اور جذبات پر قابو پانے سے انسان کی زندگی آسان ہی نہیں ہوتی، بلکہ انسان انمول خاصیتوں کا منبع بن جاتا ہے۔ وہ زمین پر رکھی سادا چٹائی پر سوتا۔ اس کے زمانے میں بادشاہ سے لے کر عام آدمی تک قانون کا یکسان نفاز ہوتا۔ مساوی حقوق، آزادی اظہار اور منصفانہ شاہی حکومت میں سب سے زیادہ حقوق محکوموں کو ملتے۔ خود کو ہمیشہ عیاشی سے دور رکھا۔ اس کے دروازے سب کے لئے کھلے تھے۔ وحشی قبائل لگاتار حملے کرنے کی تاک میں رہتے۔ اس نے خود پر توجہ دینی چھوڑ دی، علاج معالجہ بھی نہیں کراتا تھا۔ آنکھٰیں نیم خوابی کی بدولت سوجی رہتی۔ داڑھی بڑھتی اور وجود نڈھال نظر آتا تھا۔ ان مشکل حالات میں اس نے " مراقبہ اور تخیلات" کے عنوان سے کتاب لکھی۔ جس میں پوری زندگی کا نچوڑ نکالا۔ وہ روم کے مروجہ مذہبی عقائد سے منحرف ہوگیا۔ اور پھر کبھی بھی مذہبی عقیدے کو نزدیک نہ آنے دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ قدرت کے نظام کو سمجھنے میں ہماری زہانت کبھی ناکام ہوجاتی ہے اور کبھی کامیاب۔ چنانچہ غیر یقینی کا عنصر قائم رہتا ہے۔ ہمیں آفاقی عقل بتاتی ہے، کہ کہ انسان کو اپنے تہیں مطمئن ہوجانا چاہئے۔ جو کچھ انسان کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے وہ ایک ' بڑے کل ' کی منصوبہ بندی کا حصہ ہوتا ہے۔ پس انسان کا کام ضبط نفس اور نیکیوں کا فروغ ہے۔ وہ برے لوگوں سے بھی احسن طریقے سے پیش آنے کو کہتا۔۔ کہ وہ بھی انسان ہیں۔ نیک انسان کی پاکیزہ روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ خلوص دل اور عزم کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا۔ موت کے بعد روح تحلیل ہوجاتی ہے۔ اور اور کائنات کی ابدی زہانت کا حصہ بن جاتی ہے۔۔
ماخوذ۔۔۔ کتاب ' قدرت کا قانون۔۔ مصنف مشتاق احمد