تقریبا یونیورسلی انسان نے خود کو 'اشرف المخلوق' ہونے کا خود ساختہ اعزاز بخشا ہوا ہے۔۔ دلیل اس کی یہ دی جاتی ہے، کہ انسان دیگر تمام جانداروں سے زیادہ 'صاحب عقل' ہے، ممتاز ہے، باقی سب جانداروں پر غلبہ پا چکا ہے بلکہ فطرت اور ماحول کو بھی اپنی مرضی سے ڈھال سکتا ہے۔ ظاہری طور پر بات صحیح دکھائی دیتی ہے۔
آیئے اس کے کچھ پہلووں پر غور کریں۔ ہمارا ایسا دعوی کرنا مناسب بھی ہے یا نہیں۔ نہ جانے مجھے یوں لگتا ہے، جب انسان کو پہلی بار پتا چلا کہ وہ دیگر جانداروں سے زیادہ مکار اور ہوشیار ہے، وہ مادی اور غیر مادی ایسے زرائع ڈھونڈ لیتا ہے جس سے وہ اپنے سے طاقت ور جانور کو شکست دے دیتا ہے۔ تو اس نے اس لمحہ سمجھا کہ وہ دیگر جانداروں سے افضل ہے، اس میں اس کی اپنی انا کی بھی تسکین تھی۔۔ پھر اسی انا اور احساس اشرفیت نے ایک انسانی گروہ کو دوسرے انسانی گروہ پر غلبہ عطا کیا۔۔ جس نے نسل پرستی کے احساسات پیدا کیئے۔ اشرف المخلوق دیگر جانداروں کے ساتھ ہماری 'نسل پرستی' ہی ہے۔۔۔ ہم اشرف ہیں۔۔ وہ کم تر ہیں۔۔۔ اسی چیز نے انسان کو بے رحم بھی بنایا۔۔۔ جس کو چاہے چیر پھاڑ دے۔۔۔ دوسرے سے اشرف ہے۔۔۔
میرا نہیں خیال ہے، کہ آج کی جدید تہذیبی علمی فکری دنیا میں مفکرین اشرف المخلوقیت کے اس اعزاز کو اون کرتے ہوں۔۔۔ کئی لحاظ سے یہ انسانی تکبر غرور۔۔۔ ناگوار سا لگتا ہے۔۔ آج دیگر حیات کی انواع کو ہم اپنا زمینی ساتھی کہہ سکتے ہیں۔۔ ہم اشرف نہیں نہ وہ کم تر ہیں۔۔۔ بس وہ ہم سے اور ہم ان سے مختلف ہیں۔۔۔ وہ بھی فطرت، وقت، ماحول، ارتقا کی پیداوار ہیں۔ اور ہم انسان بھی۔۔۔۔ ہم سب کی تخلیقی اور جیون کی بنیاد ایک ہے۔۔ یہ زمین اور اس زمین کی ساری رنگا رنگی اور سازگار ماحول کی ضمانت۔۔ ہم سب کے لئے ضروری ہے۔۔ ہم سب اس بہت ہی بڑے اور بہت ہی پچیدہ کائناتی نظام کا حصہ ہیں۔۔۔
اس طرح کا برتر احساس۔۔۔ دیگر مخلوقات سے ہٹ کر انسانوں کے درمیان بھی بٹ جاتا ہے۔۔ ایک قوم دوسرے قوم سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے، ایک فرد دوسرے فرد سے۔۔۔ اشرف کہلوایا جائے گا۔۔۔۔ اور وہ اشرفیت کی بنیا پر جارحانہ مزاج کو جائز قرار دے گا۔۔۔۔ اصل میں اس جہاں کی سب مخلوقات سروائول کی جنگ میں زندہ رہتی ہیں۔۔۔ انسان نے اپنے سروائول کی لئے کے بہت سی ضمانتیں تخلیق کرلی ہیں۔۔ اور اپنی زندگی کو آسان تر۔۔ خوشگوار تر۔۔۔ کئے جا رہا ہے۔۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے، کہ گندگی کا کوئی کیڑا ۔۔۔ گندگی میں کتنی خوشگوار زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔۔ کیا پتا ایک پرندے کی زندگی کتنی مزیدار گزر رہی ہوتی ہو۔۔ اطمینان بخش ہو۔۔۔ جدید ترین انسان جو دولت کی چوٹی پر بیٹھا ہو۔۔ اس کی زندگی بھی دکھوں ، مسائل، آلام سے خالی نہیں ہوتی۔۔ اور پھر سب سے بڑھ کر۔۔۔ موت ایک دن اس کی ساری اشرفیت کا صفایا کردیتی ہے۔۔ پیٹ میں زرا درد ہو سہی۔۔ سر میں درد ہو۔۔ سینے پر کوئی دباو ہو۔۔۔ کوئی چوٹ زخم آ جائے۔۔۔ کسی بڑی بیماری کا انکشاف ہو جائے۔۔۔ انسان کے اشرفیت سے زیرو ہونے میں زرا دیر نہیں لگتی۔۔
چنانچہ میرا خیال ہے۔۔ ہمیں قدیم زمانے کا یہ انسانی تفاخر ترک کردینا چاہئے۔۔۔ اپنی آس پاس کی دنیا کو زیادہ کھلے دماغ۔۔۔ اور اپنائیت سے دیکھنا چاہئے۔۔۔ باقی کی مخلوق ہے تو ہم ہیں۔۔ بلکہ ہم پیداوار ہی انہی سے ہیں۔۔ ہم سب کے جینز ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔۔اس زمین کی ساری مخلوقات ہم سب کے کزنز ہیں۔۔ وہ سب اپنی اپنی جگہ پر اشرف ہیں۔۔ یعنی دوسرے سے مختلف ہیں۔۔۔
آج ایک meteorite خدانخواستہ زمین پر آ گرے۔۔۔۔ ہم ڈائنو سارس کی طرح فنا ہو جائیں گے۔۔۔ کائنات کی جن وسعتوں کی آج انسان کو آگاہی ہو چکی ہے۔۔۔۔ وہ انسان کی اشرفیت کو نہیں۔۔۔ اس کے انکسار کو بڑھاتی ہے۔۔