پچھلی صدی آخری دموں پر ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے دن ہیں۔ نچلے متوسط طبقے کے اس گھر میں، جو نہ بڑا ہے اور نہ بہت چھوٹا، ایک میلے کا سا سماں ہے۔ گھر کے آنگن میں لگے ایک دو درختوں پر پرندے صبح کا جشن منا رہے ہیں اور آنگن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھے، گپیں لگاتے کئی بڑوں کے گردا گرد کچھ بچے کھیل کود میں مصروف ہیں۔
اس گھر میں میلے کا سا منظر کیوں ہے؟
تقریب؟ ۔۔۔۔ نہیں نہیں، کوئی تقریب نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب اس گھر میں افراد کی کثرت ایک معمول بن چکی ہے۔ حالانکہ خود اہلِ خانہ تعداد میں زیادہ نہیں ہیں۔ جن لوگوں کی وجہ سے گھر میں میلے کا سا سماں ہے، وہ دراصل اس خاندان کے مہمان ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس گھر پر مہمانوں کی یلغار بڑھتی جا رہی ہے۔ بڑے شہروں میں جو لوگ آباد ہیں ان کے عزیز و اقارب اندرونِ ملک سے ان کے ہاں بطور مہمان آتے ہی رہتے ہیں کچھ سیر و تفریح کی غرض سے، کچھ اچھے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی ضرورت سے۔ لیکن دارالحکومت اور اس سے ملحق شہر میں لوگوں کا آنا ایک اور وجہ سے بھی معمول سے زیادہ ہوتا ہے اور وہ ہے سمندر پار جانے والوں کے ویزا معاملات۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو، یہاں کا سماجی چلن ایسا ہے کہ لوگ ہوٹلوں میں ٹھہرنے کی بجائے عزیزوں، واقف کاروں کے ہاں ہی عارضی قیام کرتے ہیں۔ یہ عارضی قیام چند دنوں سے لے کر چند ہفتوں تک طویل ہو سکتا ہے۔ اس سماجی چلن کی بنت میں حسین روایت اور بدنما خودغرضی کے تانے بانے شامل ہیں۔
ہاں تو ۔۔۔۔ ان دنوں اس گھر میں کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ تین مختلف جگہوں سے آئے مختلف خاندان اس گھر میں جو نہ زیادہ بڑا ہے اور نہ زیادہ چھوٹا اپنی اپنی وجوہات و اغراض کے تحت حملہ آور ہو چکے ہیں۔ اس حملے کو روایت خدا کی رحمت کہتی ہے۔ ان میں سے ایک خاندان، دو میاں بیوی اور چار بچّوں پر مشتمل ہے، یہ لوگ سکولوں میں گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے اپنے بچوں کو دارالحکومت کی سیر کرانے لائے ہیں۔ ایک دوسرے خاندان کے دو افراد کسی یورپی ملک کے سفارتخانے میں ویزا سے متعلق ایک انٹرویو کے لیے تشریف لائے ہیں۔ تیسرے خاندان کا سربراہ یہاں ایک اچھے ہسپتال میں داخل ہو چکا ہے اور چند دنوں میں اس کے دل کا آپریشن ہو گا۔
تو ذکر ہو رہا تھا صبح کا۔ اجلی پررونق شور مچاتی صبح۔
گھر کی مالکن جسے ہم ماں کہہ سکتے ہیں، چولہے کے گرد بیٹھی پراٹھے بنانے میں مصروف ہے۔ ایک بہو انڈے فرائی کر رہی ہے۔ آج صبح کل ملا کر اٹھارا انڈے فرائی ہوں گے۔ دوسری بہو دودھ پتی والی چائے بنانے میں مصروف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گھر کے معاشی حالات اچھے ہیں۔ گھر کا مالک یعنی باپ اور دونوں بیٹے ملازمت کرتے ہیں۔ بڑا بیٹا ملک سے باہر ہے اس لیے کھانے پینے میں تنگی کے وہ حالات نہیں ہیں جو چند سال پہلے تھے۔ یہ لوگ زیادہ امیر تو نہیں لیکن وضع دار اور مہمان نواز ضرور ہیں۔ باپ خاص طور سے مہمان نوازی میں ایک عجیب سی تفاخر آمیز خوشی محسوس کرتا ہے۔
ہاں تو اس وقت جب ماں پراٹھے بنا رہی تھی تو ساتھ ساتھ قریب بیٹھی بہو کو انڈے فرائی کرتے ہوئے بھی دیکھ رہی تھی۔ اسے آج فرائنگ پین میں انڈے کے گرنے کی آواز اپنے دل میں کسی دھماکے کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ بس کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو کسی اڑن کٹولے کی طرح آپ کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔ ماں نے محسوس کیا کہ رقت بھرا احساس اس کے دل کو بھنبھوڑ رہا ہے۔ دودھ پتی والی چائے دیکھ کر اسے اپنا آپ ضبط کے بھربھرے کناروں سے گرتا ہوا محسوس ہوا۔ ۔۔۔۔
اس بیچ جب پراٹھے بن چکے تھے اور مہمانوں کو ناشتہ دیا جا رہا تھا وہ چپکے سے آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی آئی۔ ہلچل ایسی تھی کہ کسی نے اس کی طرف دھیان تک نہ دیا۔ کمرے میں اس کا شوہر آج کے تازہ اخبار سے باقاعدہ ناشتے سے پہلے کی غذائیت حاصل کر رہا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا کہ اس کی بیوی ململ کے ڈوپٹے سے اپنے آنسو پونچھ رہی ہے۔ شوہر نے پریشان ہو کر پوچھا:
"کیا ہوا؟"
"کچھ نہیں، بس بیٹا یاد آ گیا۔"
شوہر جانتا تھا کہ اس کی بیوی کو کونسا بیٹا یاد آ رہا ہے، وہی بیٹا جو سمندر پار نوکری کر رہا ہے اور جسے یاد کرکے رونا اس کی بیوی کا معمول ہے۔
لیکن شوہر یہ نہیں جانتا کہ ہر بار جب اسے اپنے بیٹے کی یاد آتی ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ بھی ہوتی ہے۔ اور آج بھی اسے اپنا بیٹا بلا وجہ یاد نہیں آیا تھا۔ اسے آج شدت سے وہ دن یاد آ گئے جب اکیلے شوہر کی کمائی سے اس کے گھرانے کے چھ افراد کا روزی روٹی کا سلسلہ بمشکل چلتا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ اس نے خود یا اس کے بچوں نے ناشتے کے وقت پورا فرائی انڈہ کھایا ہو۔ اور دودھ پتی والی چائے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اسے اپنے نیم تاریک چھوٹے سے کچن میں بیٹھے اپنے بچے یاد آئے، معصوم سے ناتواں بچے جنھیں غذائیت کی ضرورت تھی اور وہ انھیں کبھی پورا انڈا بھی نہیں دے سکتی تھی۔ ایک دن صبح جب دودھ کم ہونے کی وجہ سے چائے عام دنوں سے بھی زیادہ کالی تھی تو بڑے بیٹے نے اسے پینے سے انکار کر دیا تھا۔ جب ماں نے ڈانٹا کہ پیو تو اس نے چائے اٹھا کر نالی میں گرا دی تھی۔ اس پر باپ نے بیٹے کو پیٹا تھا۔ ماں کو اپنا وہ روتا ہوا بیٹا یاد آیا، وہی بیٹا جو آج نہ جانے سمندر پار کن حالوں میں کمائی کر رہا تھا۔ اور مہمان ۔۔۔۔ آئے دن کثرت سے آنے والے بے طرح مہمان، اس پر اہلِ خانہ کے تکلفات۔ اسے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ بس آج اپنا بیٹا چاہیے تھا جسے وہ اپنے ہاتھوں سے انڈا فرائی کرکے دیتی اور دودھ پتی والی چائے پلاتی۔ لیکن جانے وہ کب آئے۔ خود رحمی کا اذیت ناک احساس لمہ موجود کی ساری خوشحالی کو بہائے لیے جا رہا تھا۔
وہ دیرتک روتی رہی لیکن دل تھا کہ ساون بھادوں کا آسمان بنا ہوا تھا۔