وُہ تین دیہات کے عین وسط میں زمانوں سے چھایا ایک انتہائی شاندار گھنا گھنیرا ، چھتنار ، تناور برگد تھا۔ اُس کی موٹی ، لمبی اور مضبُوط شاخوں نے چاروں اطراف کئی مرلے زمین پر ایسا قبضہ جمایا کہ دن کو سُورج کی طاقتور ترین کرن بھی اُنہیں پچھاڑ کر زمین چھُو نہ پاتی ۔ مانو اُس کے نیچے دن بھی رات ھی تھا۔گدھوں اور ابابیلوں کا پسندیدہ مسکن ۔ کبھی کبھار اپنی لمُبی گردن جھُلاتے گدھ بھی آنکلتے ۔ اُن کی بیٹوں سے ماحول ھر وقت ھلکی گیلی بُو میں بسا رھتا۔ بگُولے تخلیق کرتی ، جھُلساتی گرم دوپہروں اور زرد چاندنی راتوں میں گھدوں کی چیختی تیز آوازوں سے سناٹا گُونج اُٹھتا۔ اندھیری راتوں میں چمگادڑیں چچخ چخ کرتیں یا اُلو ہُوکتے- ھوائی جڑوں نے اسے جٹا دھاری یوگی سے مُشابہت دے رکھی تھی ۔ اُس کے اردگرد دُور دُور تک کوئی اور درخت نہیں تھا ۔ یُوں اُسکی ویران تنہائی اُسے انتہائی پُر اسرار بناتی ۔ دیہاتی کچی سڑک سے بُہت دُور ھونے کی وجہ سے چاندنی راتوں میں اُس کی پُر آسراریت میں اضافہ ھو جاتا۔ ھر کس و نا کس کو علم تھا کہ اس مُنفرد، مُہیب نباتاتی شاھکار کے نیچے جنات پڑاؤ کرتے ھیں , اُن کی تقریبات مُنعقد ھوتی ھیں اور عجیب الخلق ، غیر مرئی بھُوت بچے نادیدہ مدرسہ لگائے حصُول علم میں مشغُول رھتے ھیں ۔ اس روائت کی صداقت پر یقین ھی کی وجہ سے شاملات دیہہ ھونے کے باوجُود یُونین کونسل کے کسی لالچی اھل کار نے کبھی جُرات ھی نہ کی کہ اسے کاٹ کر بیچ کھائے ۔ جنات سے ٹکر کوئی احمق ھی لیتا۔
لوگ دن کو عموماً اس سے کترا کر گُزر جاتے اور رات کو تو اس سمت کوئی بُہت فاصلے سے بھی گُزرنے کی جُرات نہ کرتا۔ گویا ایک ان دیکھی بادشاھت تھی جو اس علاقہ میں اس شہنشاہ کی قائم تھی ۔ یہ تصرف مُستند اور مُتفقہ ، قطعی اور غیر مُتنازعہ تھا۔
گاماں میراثن کا نام جس نے بھی غُلام بی بی رکھا اُس نے زیادہ غور و فکر کیا نہیں ھوگا۔ اُس کی نمکین رنگت ، گھڑی گھڑائی شکل ، سیاھی مائل پتلے ھونٹ
ترشی ھُوئی سُتواں ناک اور سیاہ راتوں کا اسرار لئے بڑی بڑی شرارتی آنکھیں غلاموں کی سی تھیں نہیں۔ اُس کی تیکھی سلونی ناک پر لشکتا چاندی کا کوکا کسی مہکتی سُرمئی شام میں اظہار کے طالب اولین ستارے جیسا ھی تھا۔
وُہ جب جوانی کی دھلیز پر پُہنچی تو کسی ھُوئی کمان نکلی۔ اُس کے جنگلی ، بے پرواہ اور بے عیب جسم میں کوئی کمی نکالی نہیں جا سکتی تھی سوائے گہرے گندمی رنگ کے ، جو خامی کی بجائے خُوبی بن گیا تھا۔ اُس کے ناگن جیسے لہریں لیتےلمبے بال ، بنا دیکھ ریکھ کبھی چوٹی میں گُندھے، کبھی کھُلے جہاں جھُولتے ، نظر وھاں ٹکتی نہ تھی ۔ وُہ جاٹوں کے محلے سے گُزرتی تو گھبرُو چھورے خواہ مخواہ ڈھولے ماھئے اور ٹپے الاپنے لگتے۔
گاماں جتنی مقناطیس تھی اُتنی ھی طرار بھی تھی۔ نہ تو کوئی اشارہ سمجھتی نہ منت ترلے کا اثر لیتی۔ اگر ذرا بھی نرمی دکھاتی تو جاٹوں کے سانڈھوں جیسے کڑیلِ جوان چھوکرے اُسے ڈکار گئے ھوتے۔
لیکن ھاں ! ایک مقام تھا جہاں وُہ رہ جاتی تھی۔ اور وُہ تھا نمبر داروں کا اچھُو ۔
اچھُو بھی تو تھا اپنی مثال آپ ۔ پیرا ندتے نمبردار کی اکلوتی اولاد۔ چھ فُٹ سے نکلتا قد، چوڑی چھاتی، بھاری کالی سیاہ مُونچھوں کے اُوپر پتلی ناک اور سفیدی گھُلا گُلابی رنگ ۔ ھر دُور نزدیک گاؤں کے میلے میں کبڈی میں اچھُو اچھُو ھوتی ۔
" نی گاماں ! اچھُو فیر جت گیا ای کل کوڈی نویں پنڈ دے میلےُوالی"
گاماں کی سہیلیاں مزے لیتیں۔
" تو میں کیا کرُوں ؟ گاؤں کی شان بنی ھے تو میں بھی خُوش ھُوں اور گاؤں بھی خُوش۔ مُجھے کونسا اُس نے اپنی سردائی میں سے آدھا گلاس دے دینا ھے ۔
اور شامت آۓ گی آبے کی۔
اور رگڑے گا بادام تے خشخاص۔ چہارمغز تے گُوند کتیرا۔ نکی لاچی پا کے۔۔۔۔ ھور کرے گا مالشاں "۔
کتنی ھی تو بار وُہ اٹھکیلیاں کرتی، آدھی چلتی آدھی اُڑتی رنگیلی بڑی بیٹھک کے سامنے سے گُزرتی تو جان بُوجھ کر چوری سے اُدھر دیکھتی۔
اچھُو سے ٹاکرا ھوتا تو انجانی خُوشیاں برقی رو بن کر اُس کے جُثے میں کوند جاتیں ۔ اُس کا رُواں رُواں بج اُٹھتا اور وُہ خُود کو لال سائیں کے اک تارے کی کسی ھُوئی تار محسُوس کرتی ۔
اُنگلی کے ایک اشارے کی مُنتظر ' کہ مس ھو اور سُر بکھریں۔
اور اچھُو بھی تھا تاروں میں چاند۔ نجیبُ الطرفین۔ سونا اُگلتے مُربعوں کا اکلوتا وارث ۔ طاقتور اور خُوبصُورت۔ بانکا سجیلا۔ پُورے گاؤں کا واحد ھیرو۔ پنڈ کی شان۔ مردوں کا مان تو گوریوں گا گوپی ۔ اور اپنی اس حیثیت کا پُورا پُورا ادراک رکھنے والا۔
اُس کی گھوڑی نُوری جو میلوں میں تھرک تھرک ، چمک چمک نخریلی ' رنگیلی لوگوں کی نظروں میں کھُب کھُب جاتی تو ویسا ھی وُہ ، گاؤں چھوڑ علاقہ میں جانا مانا گبھرُو، ھزاروں دلوں پر پیر رکھ کے گُزرنے والا محبُوب ۔
گاماں کی مقناطیسی سُوئی اُس کے قُرب سے تھر تھراتی اور اُسی کی اور جا رُکتی ۔ تھا کُچھ جو اچھُو کا سارا بانکپن گاماں کے آبنُوسی ، تراشیدہ بدن کی قُربت سے سُلگنے لگتا ۔ اُسے اپنی بے پناہ جوانی کی بے کراں طاقت سمٹ کر قلب میں مرکُوز ھوتی محسُوس ھوتی جو گاماں کی پُراسرار ، مُشکبار آبنُوسی ھستی میں مدغم ھونے پر کمربستہ ھو ھو جاتی۔
" تُجھے کیا نکالنا ھے مُجھ سے اچھُو جی ! میں ڈُومنی, تُو نمُبر دار کا پُتر نمبر دار۔ اُچے شُملے۔ کیا کمی ھے تیرے پاس کسی بھی چیز کی ۔ لڑکیاں ایک جھلک دیکھنے کو سو سو بہانے کرتی ھیں۔ نہ اپنا پینڈا کھوٹا کر نہ مُجھےُامتحان میں ڈال ۔ شاواشے ۔ اپنی اپنی قسمت اپنا اپنا نصیب۔
پھُپھی آئی تھی نویں پنڈوں اسلم کے لئے رشتہ مانگنے۔ آبے نے نہ ھاں کی نہ ناں۔ تانگہ منگوایا ، نیا سُوٹ دیا اور تانگے میں بٹھا لاری آڈے چھوڑ آیا۔ میری طرف واپس آیا تو آنکھیں گیلی تھیں اُس کی۔ نہ روٹی کھائی نہ حویلی گیا۔ وڈے نمبر دار نے شوکے کو بھیج کر بُلایا تو نہ کردی ۔ بولا تاپ چڑھا ھُوا ھے۔ صحن کے کونے میں ننگی چارپائی پر دیوار کی طرف مُنہ کئے پڑا رھا- میں کپڑے دھوتی رھی ، اپنے مُنہ دھیان ۔ کبھی کبھی چوری چوری پیچھے سے دیکھتی تو لگتا اُس کی پُشت بھی رو رھی ھے۔ چیخیں مار رھی ھے۔ پر اچھُو تیری سوھنی جوانی کی قسم ، کبھی اک لفظ نہیں بولا آبے سے کہ مُجھے کیا چاھئے۔ آبے کی آگ تیرے میرے دیکھنے کہنے سے بُہت گہری لگی ھے۔ کبھی کبھی مُجھے پُورا یقین ھو جاتا ھے کہ ابا اللہ کا بندہ ھے۔ اُس کے آگے اندر بھی باھر ھے۔ اچھُو ! تُجھے میری مجبُوری کی قسم بچ جا۔ نہ تین جانیں مار۔ میرے آبے پہ ترس کھا ۔ بھلے بندے ، یہ ھزاروں بار کی دوھرائی بالی جٹی کے تھیٹر کی کہانی نہ دوہرا ۔ نہ دوہرا ۔"
وقت بھی ایک بدمست لہریں مارتا دریا ھے۔ بے پرواہ اور مُنہ زور۔ دائیں بائیں کاندھے مارتا گُزرتا ھی چلا جاتا ھے ۔ سو یہ ھُوا۔ گاماں کے باپ بگے میر عالم نے کبھی بات نہیں کی ۔ گاماں کبھی اک لفظ نہیں بولی ۔ اچھُو کی تو رھنے ھی دیں۔ اپنی شہہ زور جوانی میں بد مست ، اس بڑھتے , اُبلتے کینسر کو معمُول جان کر یُوں پالتا جیسے سانسوں کا حصہ ھو۔ آئے آئے تو آئے پر کبھی نہ جتائے ، جو جائے تو سب جائے۔
عجب تکون بنی تھی۔ بڑی غیر فطری اور مُنفرد۔ جو سر بسر مُشغُول تھے وُہ جیتے تھے اور جو باھر تھا وُہ اندر ھی اندر مر رھا تھا۔ ٹھنڈی سانسیں بھرتا ۔ آسمان کو تکتا تو کبھی زمین کُریدتا ۔ کوئی کالی بلی مر رھی تھی اُس کےُاندر ۔ بلکہ مر چُکی تھی اور اب آھستہ آھستہ گل سڑ کر بُو دینے لگی تھی ، جو دُوسروں کو بھی سانس سانس احساس دلا رھی تھی کہ کُچھ ھے جو مر رھا ھے، گل رھا ھے۔ سڑ رھا ھے۔
کئی بار رات کو ٹاکرا ھوتا تو اچھُو کو گاماں کے گہرے سانولے نمکین چہرے کی اوٹ سے چمکدار سفید براق دانت نظر آتے جو نُور کی ایک لکیر بناتے اور وُہ لکیر آسمان تک جاتی ۔ گو یہ عجیب اور انہونی سی مشابہت تھی ۔ اگر کسی کو بتائیں تو ٹھٹھا اُڑے ۔ پر کیا کریں جو اُس کو ایسا ھی لگتا تھا
جی ہاں ۔ اب جو بھی تھا پر اُس کو ایسا ھی لگتا تھا۔
گاماں اُس کے لال ھوتے کان میں سسکی بھرتی ،
"اچھُو ! تُم نے دیکھا ھے سوکھا لگی ٹاھلی کی طرح مُرجھاتے ھُوئے آبے کو ۔ یہ کیا ھو رھا ھے اُس کو ؟ مانو بالکُل خالی ھو رھا ھے اندر سے۔ کھوکھلا اور ہلکا ۔جیسے دیمک اندر ھی اندر سے چاٹ رھی ھو ۔ کڑیلِ ، شہتیر جیسا بندہ ڈولتا پھرتا ھے ۔ اچھُو مُجھے ڈر لگتا ھے ابا کہیں آگے ھی نہ نکل جائے"۔
اچھُو اُس کے سفید دانتوں کی نُورانی لکیر کو روکتا ، کیف میں ڈُوبتی سسکاری بھرتا ، " کُچھ نہیں ھوتا چاچے بگے کو۔ نمبر دار کا ہتھ ھے اُس کے اُوپر۔ بڑا رسُوخ ھے۔ اندر سے خُوش ھو گا۔ تیرے آبے پر بڑے بوڑھ کا سایہ ھے۔ میرا ابا بھی بُوڑھا برگد ھے، گامو ! ۔ تیرا ابا میرے آبے کی چھتر چھاؤں میں ھے۔ اُسے ستّے ای خیراں ھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔……
جلتا بھُنتا اُساڑ آدھا گُزر چُکا تھا ۔ بھڑ بھڑ بھڑکتی گرمیاں جو بن پر تھیں ۔ اُس دن پتہ نہیں کیا غضب ھُوا کہ مٹی اُڑاتی لال آندھی چاروں طرف سے چڑھ دوڑی ۔ وا ورولے ( گرد باد) گرم سُلگتی دوپہر کی ساری گرمی چُوس کر زمین سے اُٹھتے تو گھُمن گھیریاں کھاتے آسمان تک پُہنچتے۔ گندم کی کٹ چُکی فصل کی ناڑیاں، پُرانے اخبار ، پوھلی کے کٹے زرد خاردار چھنکتے گھُمن گھیر یاں کھاتے جھاڑ، خُشک پتے اور ٹہنیاں ، کپڑوں کی غلیظ بوسیدہ دھجیاں اور چیل کوؤں کے مُردار پر، جو بھی راستے میں آیا واورولوں نے پکڑا اور چکریاں دے کر آسمان پر چڑھا دیا۔
ھوا کا غُصہ کم ھُوا تو گہرے سیاہ بادل چاروں اور سے بھاگم بھاگ پُہنچے ۔ گاؤں بھاگل پُور کو گہرے سیاہ مُکمل تاریک حصار میں لے لیا۔ لمبی لمبی بجلیاں چمکا ، جھماکے کرکے اور کڑک کڑک کر خُوب ڈرایا۔
بارش جو ٹُوٹ کر برسی تو جل تھل ایک ھو گیا- بارش نے اُس وقت تک رُکنے کا نام ھی نہ لیا جب تک ایک چوتھائی بھاگل پُور کچی مٹی کا ڈھیر نہ بن گیا۔غریبوں کے کچے پکے گھروں کی کچی دیواریں گارا بن کر درختوں کے ناتراشیدہ تنوں سے بنائے گئے شہتیروں کے نیچے بیٹھ گئیں ۔ گیلے کانپتے سہمے غریب ، بڑے چھوٹے ، گاؤں کی واحد پُختہ مسجد میں جمع ھونے لگے۔ جانوروں کو کھول دیا گیا ۔ جو جہاں سینگ سمائے جا کھڑا ھُوا- کوئی گائے بھینس بچھڑا بکری گدھا تک باھر کو نہ بھاگا ۔ بچی کھُچی کچی دیواروں کی اوٹ میں سب جانور اکٹھا ھونے لگے۔
اتنا پاکھنڈ کرنے کے بعد بادلوں نے مشرق کی سمت ، نیچے ھی نیچے ، تقریباً زمین کو چُومتے ھُوئے یُوں بھاگنا شُرُوع کیا جیسے کوئی مُہیب خلا اُنہیں پُوری قُؤت سے اپنی سمت کھینچ رھا ھو ۔ چند ساعت میں سارا آسمان بالکُل صاف اور گہرا نیلا میدان ھو گیا ۔ خال خال کوئی چھوٹا آوارہ بادل ٹُکڑا اپنے لشکر کے تاراج میدان میں بربادی کا جائیزہ لیتا رہ گیا۔
تیز چمکیلی نوکیلی دُھوپ نکلی تو سلامت چوکیدار کچی گلیوں کے چکنے کیچڑ سے بچتا بچاتا لاٹھی ٹیکتا آ پُہنچا ۔ بگے کو آگے لگایا اور حویلی لے گیا–
بڑی ھی دیر چھوٹی بیٹھک میں نمبردار اور بگے میر عالم کے سوا کوئی گھُس نہ پایا۔ خیر دین اور سلامت اپنی لوھے کی شام والی لٹھیں پکڑے مُنج کے منجے پر چڑھے ٹانگیں جھُلاتے پہرہ دیتے رھے۔
مُدتوں بعد بگا باھر نکلا تو اُس کی بھُوری ھوتی سفید چادر، جو ھمیشہ سر کے گرد لپیٹے رھتا تھا ، گردن کو النگھنی بنائے شکست خُوردہ، نحیف ، جھُکے ھُوئے شانوں کو چھُوتی اُس کے گھُٹنوں تک جھُولنے آرھی تھی- وُہ گردن نیہوڑائے خیر دین اور سلامتے سے نظریں چُراتا پاؤں گھسیٹتا حویلی کے بڑے دروازے تک پُہنچا اور کچی سڑک پر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑا تھانیدار چیمہ تشدد کے لئے ضلع بھر میں مشہُور تھا – غُلام رسُول فقیر کو جب اُلٹا لٹا کر اُس کے چُتڑوں پر خُود چھتر مارے تو اُس کی چیخیں آدھے گاؤں والوں نے سُنیں – دینُوں اوڈھ کو سردارے والے بڑے شریں کے ساتھ اُلٹا لٹکایا اور بھُول گیا۔ یہاں تک کہ اُس کے ڈھیلے باھر اُبل آئے۔ کوئی مان کے نہیں دے رھا تھا کہ اُس طُوفانی دن کے بعد چھائی گہری، اندھیری ، حبس زدہ رات میں کس نے گاماں کو گلا گھُونٹ کے مارا اور کون بگے کی لاش کو روھی والے پکے برگد پر لٹکا آیا ۔ نمبردار نے اپنے سامنے تفتیش کروائی کیونکہ بگا میر عالم اُس کا خاصُ الخاص پُشتنی میراثی تھا۔
کوئی کہتا ، بگے نے خُود گاماں کو مارا اور اپنی لمبھی بھُوری چادر برگد کے اُچے ٹہن سے باندھ کر جھُول گیا۔ مولوی صاحب سمیت ایک کثیر جماعت قائل تھی کہ بگے نے برگد کے نیچے پیشاب کر کے جنوں کی دعوت خراب کردی ۔ پھر یہ سب کُچھ تو ھونا ھی تھا۔
بگے اور گاماں کی قبریں گاماں کی مرحومہ ماں کی قبر کے دونوں طرف بنائی گئیں – مولوی صاحب اور اُن کے شاگرد چالیس دن تک پڑھائی کرتے رھے۔
پڑھنے والوں کے لئے پھاتی نین روز آلُو گوشت اور میٹھے چاول پکاتی جو نُورا فقیر بلا ناغہ بر وقت قبرستان پُہنچاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔…
اچھُو نمبردار کی شادی پر چاندی کے روپوں کی وُہ چھوٹ پڑی کہ کھیت سفید ھو گئے۔ اکلوتا بیٹا تھا وڈے نمبردار کا اور جنج بھی حسن دین ذیلدار کے گھر ڈُھک رھی تھی۔ آتش بازی سے سادا گاؤں گلنار ھو گیا۔
پندرہ بکرے اور دو بچھڑے کٹے تو ولیمہ ھُوا۔ پورے گاؤں نے دو دن چو لہا جلایا نہ ضرُورت محسُوس ھُوئی- رُوپ دھاریوں کی ٹولیاں ھنڈولے جلائے فجر کی اذان تک دھماچوکڑی مچاتیں – احمد دین نائی نے اپنے سارے رشتے دار بلوائے تو کہیں جا کر دیگیں پکیں۔ عنائت حلوائی اور اُس کا بیٹا سارا ھفتہ کڑھائی چڑھائے کھویا مار کر برفی اور نرم بالُوشاھی بناتے رھے تو گاؤں بھر کا ناشتہ بھگتایا- سارے گاؤں نے پُورا ھفتہ شادی کا جشن منا کر ریت نبھائی –
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔………………۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کا دریا بہتا رھا، بہتا رھا۔ مُدتیں گُزر گئیں ۔ بُوڑھے آسیب زدہ برگد نے بھی کئی موسم دیکھے اور کئی گرمیاں سردیاں جھیلیں ۔ اُلووں ، چیلوں اور گدھوں چمگادڑوں کی نئی نسلیں آ باد ھُوئیں ۔ گاؤں میں کئی بار سن کے پیلے ، السی کے نیلے اور سرسوں کے زرد پھُول کھلے پھر سُوکھ گئے۔ بیریوں پہ بُور آیا ، کچے لیسدار بیر پل کے کھجُوریں بنے اور اُتر گئے۔ کماد کے سُوئے پھُوٹ کے گزوں لمبے گنے بنے ، کٹے ، بیلن میں سے گُزر کر رؤو اور کڑاھی میں کڑھ کر گڑ بنے۔ کتنی بار سرسوں کی گندلیں نکلیں اور مٹیاروں نے توڑ توڑ کر ساگ گھٹڑیاں بنائیں -کتنی ھی بار گاؤں کے کچے کوٹھوں کو تُوڑی ملی سُوندھی مٹی سے لیپا گیا جو بارشوں نے سر پٹک پٹک کر بہایا۔
مُدتوں بعد مُجھے گاؤں کی یاد ستائی تو واپس لوٹا ۔ زمانہ بدل چُکا تھا۔
قصبے کے اسٹیشن سے گاؤں کا تانگہ مل گیا۔ مریل گھوڑی انجر پنجر ھلے یکے کو جھُولتی جھُلاتی شام ڈھلے گاؤں کے قریب آ پُہنچی۔ گاؤں بُہت پھیل چُکا تھا۔ بُہت سے کھیت کھلیاں جنہیں میں پہچانتا تھا آبادی نے نگل لئے تھے۔ گاؤں سے کوس بھر دُور وُہ بوُڑھا برگد جہاں بھُوتوں کے بچے مدرسہ لگاتے اور جنوں کے قافلے پڑاؤ کرتے تھے مُجھے نُچا کھُسٹا ادُھورا نظر آیا ۔ اس سے زیادہ حیرت یہ دیکھ کر ھُوئی کہ جس رُعب داب والے پُراسرار مُہیب دیو کے پاس کوئی پھٹکتا نہیں تھا اُس کے گرد آریاں کُلہاڑے لئے خلقت کا ایک اژدھام تھا کہ کُلبلاتا پھرتا تھا۔ بڑے بڑے ٹہنے کاٹے جا رھے تھے اور ٹُکڑے کر کے درجنوں بیل گاڑیوں میں لادے جا رھے تھے۔ پتوں کے انبار تھے جو بیگھہ بھر زمین کو سبز کئے دیتے تھے۔ گاؤں میں کسی شادی پر عبدل موچی کا لاؤڈ سپیکر پُوری قُؤت سے عالم لوھار کی جُگنی چھت پر ٹنگے چاروں ھارنوں (بھونپُو) سے دُور دُور پہنچا رھا تھا۔
میں نے لالُو تانگے والے کی طرف حیرت سے دیکھا۔ وُہ مُسکراتا ھُوا بولا ' چوھدری صاحب ! پُورے پینتیس ھزار کا نیلام ھُوا ھے بُوڑھا برگد۔ دس گاؤں میں ڈھول بجا کر ُمنادی کر کے بولی لگی ۔ اس پیسے سے یُونین کونسل کا نیا دفتر بنے گا "۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1812874632276852/
“