جیسا کہ سب جانتے ہیں نیلما درانی معروف و مقبول شاعرہ ہیں۔ ہمارا ان سے تعارف جب ہوناچاہئے تھا تب نہیں ہوا یعنی ہوائے گُل والے زمانوں میں یہ بھی سمن آباد میں رہتی تھیں اور ہم بھی اسی بستی کے باسی تھے۔ جیسے جیسے ان کی تصنیف “تیز ہوا کا شہر” ہم پڑھتے گئے ان سے وہ تعارف ہوتا گیا جو بوجوہ پچھلے زمانوں میں نہ ہو سکا تھا ۔ ہم ان دنوں فلمی دنیا میں باریابی کے لئے نابغہ روزگار اے حمید صاحب سے بھی ملا کرتے تھے اور وزیر افضل سے بھی۔ ظاہر ہے جد و جہد کے دن تھے۔ نیلما درانی سے بھی ہماری پہلی ملاقات موسیقی کے ایک بڑے پروگرام میں ہوئی ۔یہ پروگرام ہمارے سٹیٹ بینک کے دنوں کے نستعلیق اور ملنسار دوست نے ترتیب دیا تھا۔
ہماری لاہور میں موجودگی کا سن کر انہوں نے بڑی محبت سے مدعو کیا ۔ یہ دعوت ہم پر ان کا ایک اور احسان ثابت ہوئی کیونکہ پروگرام میں ہماری نیلماجی سے پہلی ملاقات ہوئی۔ نیلما بے تکان مسکراتی ہوئی، خوش مزاج اور لطیف تھیں ۔ ابھی ہم اسی احساس میں تھے کہ فورا ہی کسی بد خواہ نے ہمارے کان میں سرگوشی کی۔۔ یہ صرف شاعرہ ہی نہیں ہیں پولیس افسر بھی ہیں۔۔۔ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی۔۔ شاعرہ اور پولیس افسر ! ہمیں وہم سا ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ نوکری شاعری کو لے ڈوبے یا شاعری نوکری کو یا دونوں ہی ایک دوسرے کو ۔۔۔ بعد میں یہ وہم غلط ثابت ہوا۔
نیلما جی کی دبی دبی مسکراہٹ ہمیشہ ان کے ساتھ رہی۔ اور پاکیزہ دوستی کے حوالے سے ہمارے ساتھ بھی ۔ ان کا لطیف تکلم تو عادی مجرموں کو بھی امام مسجد بنا دیتا ہو گا ۔ اگر شرافت کا کوئی اپنا اظہار ہو تو وہ نیلما درانی ہیں ۔
نیلما صرف شاعرہ ہوتیں تو خیر تھی ۔ ان کی چند غزلیں پڑھ کر ان پر کوئی بھی ایک مبسوط مضمون تحریر کر دیتا ۔ لیکن یہاں تو بکھرے ہوئے رنگوں کی ایک بےکراں بہار ہے ۔ ان کا وجود یکرنگا کبوتر نہیں کہ کوئی بھی پکڑ کر کسی چھتری پر بٹھا لے۔ بے شمار رنگ برنگے اڑتے کبوتر ہیں۔
شاعر، افسانہ نگار، سفرنامہ نگار، خاکہ نگار ہی نہیں اینکر بھی
چنانچہ ایک ٹی وی کے لئے کبھی انہوں نے میڈم نشو کے ہمراہ ہمارا انٹرویو بھی کیا تھا۔
ایک اور لاہور یاترا پر کچھ ایسا ہوا کہ ہمیں محکمہ پولیس سے ایک کام پڑ گیا۔ بڑی خواری کے بعد بھی جب ہماری کوئی شنوائی نہ ہو سکی تو ہم نے بالآخر ایس ایس پی لاہور کو فون کیا۔ یہ نیلما درانی تھیں ۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ آپ کو کوئی جسمانی زک تو نہیں پہنچی۔ یہ شاعرہ نیلما درانی تھیں ۔ اگلے ہی لمحے ہم پولیس والوں کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔ ہمیں چائے اور بسکٹ بھی پیش کئے گئے اور وڈے تھانیدار صاحب کے دفتر میں با عزت باریابی بھی حاصل ہوئی۔ وہیں کہیں سے شعیب بن عزیز صاحب کا بھی ہمیں فون آ گیا جو ہماری تلاش میں تھے اب اگلا مرحلہ تھانے میں صرف گارڈ آف آنر ملنے کا رہ گیا تھا ۔
نیلما سولہ کتابوں کی مصنفہ ہیں ۔ ان کی اردو اور پنجابی شاعری متاثر کُن اور دل موہ لینے والی ہے۔
۔۔۔ اداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے
انہی کی غزل ہے۔ اور “راستے میں گلاب رکھے ہیں” ان کے ایک شعری مجموعے کا نام ہے ۔
نیلما عادتا متین، مہذب اور نرم خو ہیں۔ انہوں نے کچھ مشاہیر کے خاکے بھی لکھے ہیں ۔ مشیر کاظمی مرحوم کا نام پڑھ کر ہمیں بھی کچھ گزرے زمانے یاد آئے۔ تب وہ ایک شفیق بزرگ تھے اور ہمارے ساتھ بھی شفقت سے پیش آتے تھے۔
نیلما اردو ادب کی ایک موج ہیں اور اس موج کو نیلے پانیوں اور سفید ساحلوں کو دیکھنے کے بے شمار مواقع ملے ہیں۔ جس کے لئے خوش قسمت ہونے کے علاوہ شوق فضول اور جرات رندانہ بھی ضروری ہیں ۔ انہوں نے سترہ ممالک کی سیر اور فارسی، صحافت اور پنجابی میں تین ایم اے بھی کر رکھے ہیں ۔ گورنر پنجاب سے فاطمہ جناح میڈل برائے شاعری اور وزیر اعظم پاکستان سے گولڈ میڈل برائے اعلی کارکردگی محکمہ پولیس لے رکھے ہیں ۔
زمانے کی اسی سیر میں یہ عالمی مشاعروں میں ہمارے پاس بھی دو دفعہ تشریف لائیں۔ ایک دفعہ ان کے ساتھ معروف فنکارہ اور فن کا بیش قیمت سرمایہ محترمہ زریں پنا بھی ہماری مہمان تھیں۔ 2007 کے مشاعرے میں ایک نارویجئن شاعرہ نے ایک عجیب نظم سنائی۔ سننے والوں کا یہ حال ہوا تو نظم لکھتے ہوئے اس شاعرہ کا کیا حال ہوا ہو گا۔ یہ نظم نیلما درانی کی پسندیدہ ترین نظم ہے:
یاسمین کی جھاڑیوں سے
جون کی برف گرتی ہے
تو میں سوچتی ہوں
اگلے برس شائد ہم اکٹھے ہوں یا نہ ہوں
ہم میں پیار ہو یا نہ ہو
یا ہم دوست بھی ہوں یا نہ ہوں
۔۔۔۔
ہم بھی اس شاعرہ کے بڑے مداح تھے ۔ وہ بہت سیلانی تھی اور سمندروں، پہاڑوں، جنگلوں اور ہواؤں کے تعاقب میں رہتی تھی۔
نیلما جی کے ساتھ ہم نے سوڈان بھی دیکھنا تھا، دریائے نیل بھی اور وہ مقام بھی جہاں موسی اور خضر کی ملاقات ہوئی تھی۔نیل کے پانیوں کو تو ہم چھو آئے باقی پھر کبھی۔۔۔۔
نیلما درانی سے ہماری جب بھی ملاقات ہوئی ہمیں کہیں نہ کہیں ارد گرد بکھری ہوئی اداسی نظر آئی۔ یوں لگا ہمارے سامنے ، ہمارے پاس پُر سکون سطح والا کوئی وسیع سمندر ہے جس کے نیچے طوفان چھپے ہیں۔ یہ ویسا ہی احساس تھا جو ہمیں Agnese کے ساتھ ریگا کے ساحل جُرمالا
پر کنارے کی طرف دوڑتی نہ تھکنے والی موجوں کو دیکھ کر ہوا تھا۔
اداسیوں کے حوالے سے ۔۔۔شائد اس مصرعے سے نیلما درانی کا کوئی تعلق ہو:
بزیر شاخ گُل افعی گزیدہ بُلبُل را