سوال یہ ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں شیر ، چیتے اور شاہین اور عقاب وغیرہ کو طاقت اور دلیری کی علامت سمجھا جاتا ہے وہاں گدھے جیسے مسکین اور ہاتھی جیسے موٹی کھال رکھنے والے جانوروں کو دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کی دو سب سے بڑی پارٹیوں نے اپنی شناخت اور پہچان کے لیے کیوں چنا ہے۔
امریکہ کی دو اہم سیاسی پارٹیاں یعنی ڈیموکرٹیک پارٹی اور ری پبلیکن پارٹی گدھے اور ہاتھی کے علامتی نشانات سے منسوب ہیں۔ یہ دونوں پارٹیاں انتخابات اور دیگر موقعوں پر خود کوان نشانات کے ذریعے متعارف کراتی ہیں۔
امریکہ میں ان جانوروں کی پارٹیوں سے منسوب ہونے کی تاریخ بڑی دلچسپ ہےاوراس کہانی کی بنیادیں انیسویں صدی سے جڑی ہیں۔ یہ واقعہ ہے 1828 کی انتخابی مہم کا۔ وہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کی گہماگہمی کا سال تھا اور اینڈریو جیکسن الیکشن لڑ رہے تھے۔
انتخابی مہم کے دوران جیکسن کے مخالفین نے ان کی حیثیت گھٹانے کے لیے انہیں گدھا اور احمق و بے وقوف کہنا شروع کر دیا۔ لیکن اپنے مخالفین پر غصہ کھانے اور انہیں برا بھلا کہنے کی بجائے، 1812 کی جنگ آزادی میں ایک ہیرو کا کردار ادا کرنے اور ایوان نمائندگان اور سینٹ میں خدمات سرانجام دینے والے جیکسن نے نہ صرف اس لقب کو خوش دلی سے قبول کیا بلکہ اپنے انتخابی پوسٹروں میں بھی گدھے کی تصویر شامل کرلی۔ انہوں نے ووٹروں سے کہا کہ گدھا ایک جفاکش اور محنتی جانور ہے۔ وہ کوئی شکایت کیے بغیر خدمت کرتا ہے اور کبھی تھکتا نہیں ہے۔
مخالفین کو اپنا یہ مذاق الٹا پڑا اور اینڈریو جیکسن ، اپنے عہدے پر موجود صدر جان کونیسی ایڈمز کو شکست دے کر وہائٹ ہاؤس میں داخل ہوگئے۔ انہیں پہلے ڈیموکریٹک صدر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
1828 میں شروع ہونے والی اس کہانی کو1870 کے عشرے میں اپنی منزل مقصود تک پہنچایا تھامس نیسٹ نے۔ جرمن نژاد نیسٹ اس دور کے ایک مقبول اور مشہور کارٹونسٹ تھےاور سیاست سے متعلق ان کے بنائے ہوئے کارٹونوں کو لوگ بہت پسند کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک کارٹون میں گدھے کو ایک سیاسی علامت کے طور پر پیش کیا۔ جسے آنے والے برسوں میں پوری ڈیموکرٹیک پارٹی نے اپنی ایک علامت اور پہچان کے طور پر قبول کر لیا۔ اور اس وقت سے گدھا ڈیموکریٹک پارٹی کی شناخت کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
گدھے کے مقابلے میں ہاتھی کی کہانی قدرے مختلف ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کی بنیاد 1854 میں پڑی۔ اس وقت تک گدھا ڈیموکرٹیس کی صفوں میں اپنے لیے کافی جگہ بنا چکا تھا۔ اس کےمحض چھہ سال کے بعد ابراہم لنکن ، پہلے ری پبلیکن صدر کے طور پر وہائٹ ہاؤس پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
اسی دور میں ہاتھی ایک کارٹون کے ذریعے ری پبلیکن کی علامت کے طور پر سامنے آیا۔ یہ واقعہ ہے امریکہ کی جنگ آزادی کا۔ ایک اخبار نے سیاسی کشمش کو لڑائی میں ایک جنگجو کے پس منظر میں کارٹون کی شکل میں پیش کیا۔ لیکن اس نشان کو پارٹی میں قبولیت1874 میں تھامس نیسٹ کے ایک کارٹون سے ملی۔ انہوں نے اپنے کارٹون میں اس دور کے صدر اولیسس گرانٹ پر نکتہ چینی کی تھی۔ گرانٹ تیسری مدت کے لیے صدر بننے کے خواہش مند تھے۔
ہاربر ویکلی میں شائع ہونے والے اس مشہور زمانہ کارٹون میں ایک جنگل کا منظر پیش کیا گیا تھا،جس میں شیر کی کھال میں ایک گدھا کھڑا تھا جس کے ڈر سے جانور بھاگ رہے تھے۔ لیکن ایک ہاتھی خم ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ ہاتھی پر لکھا تھا ری پبلیکن ووٹ۔
ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلیکن پارٹی کے علامتی نشان تخلیق کرنے والے کارٹونسٹ تھامس نیسٹ کے ایک اور کارٹون کو بھی امریکی معاشرے میں بہت پذیرائی ، قبولیت اور شہرت ملی جوآج بھی بچوں اور بڑوں میں یکساں طور پر مقبول ہے اور یہ کردار ہے سانتا کلاز۔