ویسے تو اللہ کا نام مرزا حفاظت علی بیگ ہے ۔۔مگر سارا شہر انہیں بیگ صاحب کے نام سے جانتا ہے ۔کچھ بے تکلف دوست انہیں ۔۔مرزا کے بیگ کی حفاظت کرنے والا ۔۔کہتے ہیں ،مگر علی الاعلان نہیں ۔۔چپکے چپکے کہ عافیت اسی میں ہے ورنہ مرزا صاحب اپنی حفاظتی خول سے باہر ۔۔مطلب جامے سے باہر نکلے تو ۔۔موقع محل،گلی چوراہا ،خلوت جلوت سبھی کچھ بھول جاتے ہیں اور جب تک بھڑاس نہیں نکالتے انہیں چین نہیں آتا ۔
گول مٹول چہرہ ، پستہ قد،۔۔جتنے عمودی اس سے قدرے کم افقی ،رنگ جتنا سیاہ دندان اتنے ہی سفید کہ اندھیرے میں بھی چمکتے ہیں ۔چہرہ مہرہ شریفوں جیسا مگر زبان ۔۔اللہ کی پناہ کہ مصروف ترین درزی کی قینچی بھی پناہ مانگے ۔۔بیگ صاحب کی زبان کی طرح چلے تو ہر روز کند ہوکر دھار لگانے کی متقاضی ۔۔شاید فل اسٹاپ نام کا کوئی لفظ ان کی لغت میں نہیں ۔۔ظاہر ہے بے تکاں بولے چلے جائیں تو رائی کو پہاڑ اور پہاڑ کو کوہِ ہمالیہ بنائے ۔۔مخاطب کی ہر بات سے اپنی بات پیدا کرنا ۔۔اور اس کی چیل سے اپنی بھینس اڑانا کوئی ان سے سیکھے۔۔آپ پوچھیں گے مثلاً ۔۔تو صاحب مثالیں پیش کروں تو دفتر کے دفتر لگ جائیں ۔۔بس دو ایک پر اکتفا کرتا ہوں ۔
میرے ساتھ پرائمری اسکول میں مدرس تھے ۔اسکول ہذا ہوائی اڈے کے رن وے کے قریب واقع تھا ۔۔اسکول کی چھٹی کے بعد میں موصوف کے ساتھ دوسرے منزلے کی گیلری میں کھڑا تھا کہ ایک ہوائی جہاز رن وے پر ٹیک آف کرتا نظر آیا ۔۔ میں نے کہا ،،بیگ صاحب ہوائی جہاز میں سفر کا کتنا لطف آتا ہوگا ؟تڑ سے بولے ۔۔۔،،بہت مزہ آتا ہے ! بہت مزہ !!،،۔۔میں نے بہت ہوائی سفر کیے ہیں ۔۔۔،، میں نے انہیں گھور کر دیکھا ۔۔اور دل میں سوچنے لگا کرکٹ ٹیم کے ساتھ قلیل تنخواہ میں محترم ریلوے کے فرسٹ کلاس میں سفر نہیں کرسکتے ۔۔اور یہ ہوائی !! بہرحال میں برداشت کر گیا ۔ٹھیک ہے ۔۔مگر پائیلٹ کو پلین چلانے میں بہت مزہ آتا ہوگا ؟۔۔میں نے سوچا اب چپ سادھ لیں گے ۔ مگر یہ کیا !۔۔بولے ،ہاں ! ہاں !! بہت مزہ آتا ہے ۔ بہت ، میں نے کئی بار پلین چلایا ہے ،،۔میں چکرا گیا ۔۔اب یہ حضرت مجھے بھی چلا رہے ہیں ۔میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا ۔ ،،کب؟۔۔کیسے ؟؟،،
بولے ،،میرا ایک دوست پائیلٹ ہے ۔اکثر مجھے اپنے ساتھ لے کر کاپٹ میں دوسری سیٹ پر بٹھا دیتا ہے ۔۔۔اور پلین کو اسٹیئرنگ تھما دیتا ہے ۔۔بہت پلین اڑایا میں نے ! ۔۔اس سے پہلے کہ میں چکرا کر گرتا وہاں سے کھسکنے میں عافیت سمجھی۔
بیگ صاحب چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں مگر اسے دولت کدہ کہتے ہیں ۔۔۔اکثر کہتے ہیں غریب خانہ کہہ کر خود کو کیوں ذلیل کیا جائے ! خود نمائی کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔۔۔خود کی تعریف میں مبالغہ سے غلو بلکہ اس سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ۔ میں نے اپنی پانچ سالہ لڑکی کے لیے ایک ٹیچر سے فراک سلوایا۔۔۔شومئی قسمت فراک ان کے سامنے آگیا ۔۔الٹ پلٹ کر دیکھا ۔۔،،کتنے میٹر کپڑا دیا ؟۔۔ایک میٹر ،، میں نے کہا ۔۔مجھے دیتے تو پون میٹر میں سل دیتا !!۔۔میرا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔۔،،تو آپ ٹیلر بھی ہیں ؟۔۔ہاں ! بڑے اطمینان سے بولے ۔۔جب میں ممبئی آئے تھا تو ایک ٹیلر کی دکان میں سوتا تھا !!۔ایک دوست فوراً بولے ،،بیگ صاحب ٹیلر کی دکان میں سوتے تھے تو ۔۔۔۔پون میٹر میں سل دیتے !۔۔اگر جاگتے ہوتے تو شاید آدھے میٹر میں ۔۔۔محفل قہقہہ زار بن گئی ۔۔اور بیگ صاحب پیچ وتاب کھاتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔پھر وہ کہرام مچا کہ اللہ کی پناہ ۔۔۔سب احباب تتربتر ہوگئے ۔۔۔ا
بیگ صاحب ۔۔( واضح رہے انہیں چچا کہنے پر سخت اعتراض ہے )۔۔پستہ قد ضرور ہیں مگر انہیں امیتابھ بھی پستہ قد نظر آتا ہے ۔چار دوست اکٹھا کھڑے رہیں تو خود قریب کی اونچی چیز پر چڑھ کر قد بلند کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے ۔۔اس سلسلے میں اکثر انہوں نے منہ کی کھائی ۔۔ایک مرتبہ پتھر سے لڑکھ گئے تو ایک مرتبہ کتے کی دم پر پیر رکھنے کی پاداش میں داخلِ اسپتال ہوئے ۔۔۔اور اسپتال میں بھی نرسوں اور اسٹاف نے چچا کی بک جھک سے زچ ہوکر ڈاکٹر سے سفارش کروا اسپتال سے جلد چھٹی کروادی۔
اب ساٹھ کے پیٹھے میں چل رہے ہیں ۔۔رفتہ رفتہ سب دانت رخصت ہوکر سامنے کے دو بچے ہیں ۔۔چچا کی ہر چیز نرالی ہے ۔۔عموماً پہلے اگلے دانتوں کی رخصتی ہوتی ہے ۔بعد دیگرے ۔۔ان دو دانتوں کو احباب دبی زبان میں ہاتھی کے دکھانے کے دانت کہتے ہیں ۔ ۔۔اگر اس کی انہیں ذرا بھی بھنک مل گئی تو اپنے دانتوں کی خیر نہیں ۔۔چور بازار سے خریدے ہوئے کپڑے کو ریمنڈ اور جوتوں کو ایکشن شوزکے شو روم سے خریدے بتاتے ہیں ۔۔۔وہ گھڑی جس کے کل پرزے اب نہیں ملتے راڈو کا نقلی ڈائل پتہ نہیں کہاں اسمبل کرچکے ہیں ۔۔اس کی اکثر نمائش کرتے ہیں ۔۔۔گھڑی آنکھ مچولی کھیل اگر محفل میں کف کے اندر چلی جائے تو جھٹ آستین چڑھا لیتے ہیں ۔۔اور اپنے ننھے ننھے ہاتھ گھمانے لگتے ہیں تاکہ گھڑی پر گھڑی بھر نظر تو پڑے ۔۔کسی میں ہمت نہیں کہ گھڑی کا شجرہ پوچھے ۔۔کون تیس مار خان پنگا لے ؟؟
بچوں کے رشتے طے کرنے کرائے کی کار میں جاتے ہیں ۔۔۔اپنے میڑک فیل لڑکے کو ۔۔ایم بی اے اور پتا نہیں کون کون سی ڈگریاں تفویض کرتے ہیں ۔۔۔دوست احباب کی خوب دعوتیں اڑائی مگر بھولے سے کبھی اپنے گھر مدعو نہیں کیا ۔۔۔۔کہ میرے گھر کانچ اور چینی کے برتنوں کا ڈھیر ہے ۔۔۔اور مہمانوں کے بچوں سے ٹوٹنے کو خطرہ !!
میں نے محسوس کیا کہ خود نمائی ان کی جبلت ہے جس سے ان کے جذبے کو تسکین ملتی ہے ۔۔۔پتا نہیں انسان اپنے جذبوں کی تسکین کے لیے کیا کچھ نہیں کر گزرتا ۔!!!