اسلم گریجویٹ ہونے کے باوجود ایک آفس میں چپراسی تھا ۔اس کی بیوی شمیمِ اس سے بے انتہا محبت کرتی تھی ۔بڑا لڑکا پرویز اور چھوٹا احسان اس کی آنکھوں کے تارے تھے ۔اکلوتی لڑکی صبیحہ اس پر جان چھڑکتی تھی ۔اسلم دن بھر فائل ایک صاحب کے ٹیبل سے دوسرے صاحب کے ٹیبل پر پہنچاتا ،صاحب لوگ چائے ناشتہ اس سے منگواتے ،بڑے صاحب کے اکلوتے اور ضدی لڑکے کو اسکول پہنچانے اور واپس لانے کی ذمے داری بھی اسی کے کندھوں پر تھی ۔وہ سویرے دفتر پہنچ جاتا ، صفائی کرتا ،میزوں پر منتشر فائلوں کو سلیقے سے رکھتا ۔تمام کام نمٹا ٹول پر بیٹھ جاتا ،صاحب لوگوں کی آمد پر کھڑے ہو کر ادب سے سلام کرتا ۔اس میں طاعت وفرمانبرداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔دس سالہ ملازمت میں کسی بھی آفیسر کو اس سے شکایت نہیں رہی ۔جو کہا جاتا خندہ پیشانی سے قبول کرتا ۔۔۔وہ چپراسی ہوتے ہوئے بھی پورے اسٹاف میں مقبول تھا ۔
اسلم چھٹی کا دن اپنے بال بچوں کے ساتھ گزارتا ۔قلیل تنخواہ کے باوجود اس کے اہل خانہ خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے ۔آج اتوار کا دن تھا ۔اسلم اپنے بچوں کے ساتھ کیرم کھیل رہا تھا ، اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔اسلم نے دروازہ کھولا تو اس کی حیرت کی انتہا نا رہی ۔۔۔اس کا دیرینہ دوست ماجد اس کے سامنے کھڑا تھا ۔اسلم سر سے پاؤں تلک اسے گھوررہا تھا ۔قیمتی سوٹ میں ملبوس ،انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں ،گلے میں طلائی زنجیر ،اور بائیں کلائی میں راڈو گھڑی جھول رہی تھی ۔اس کے سوٹ سے نکلنے والے سینٹ کے بھبکے فضا کو معطر کررہے تھے ۔صحت مند جسم اور سرخ وسفید چہرہ آسودہ حالی کی خبر دے رہا تھا ۔اسلم منہ پھاڑے ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہا تھا ۔
،کیا اب اندر آنے کا بھی نہ کہوگے،،۔ماجد نے کہا ۔
ض۔ض۔ضرور ۔۔اسلم نے ہکلاتے ہوئے کہا اور دروازے کی ایک جانب کھڑا ہوگیا ۔
ماجد اندر داخل ہوا اور کمرے میں بچھی ادھ پھٹی چٹائی پر بیٹھ گیا ۔اسلم بھی آلتی پالتی مارے اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔اسلم کے ذہن میں بہت سے سوالات کلبلا رہے تھے ۔غربت میں پلا کم پڑھا لکھا ماجد اتنا امیر کیسے بن گیا ؟۔۔ماجد کا خاندان دس سال پہلے ایک بڑے شہر میں منتقل ہو گیا تھا ۔شروع میں اسلم کو اس کی یاد آتی رہی لیکن وقت کی گردش نے اسے بھلا دیا ۔۔۔آج اس حالت میں اسے دیکھ کر اسلم قائل ہو گیا کہ یہ دنیا ہے ،کبھی یہاں کے دن بڑے کبھی راتیں ۔۔وہ تذبذب میں تھا کہ کس طرح گفتگو شروع کی جائے !!آخر ماجد نے سکوت توڑا ۔
،،میری یہ حالت دیکھ کر تمہیں تعجّب ہورہا ہوگا ، میں تمہیں پوری بات بتاتا ہوں ۔۔دس سال پہلے ہم جس شہر میں منتقل ہوئے تھے وہاں میں نے روزگار کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن کچھ حاصل نہ ہو سکا ۔۔بس کسی طرح دال روٹی پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے مل جاتی ۔۔ایک سال اسی طرح بیت گیا ۔اس کے بعد قسمت مہربان ہوئی ۔۔مجھے دبئی کے لیے اچھا آفر آیا ۔۔۔نو سال میں نے دبئی میں گزارے ۔۔۔آج میں جہاں ہوں وہ پیٹرو ڈالر کی کرشمہ سازی ہے ،،۔۔ماجد نے بات پوری کی ۔
یار ماجد !۔۔تو تو مقدر کا سکندر نکلا ،۔
ایسی کوئی بات نہیں ، تم بھی سکندر بن سکتے ہو ،،۔
وہ کیسے ؟؟
،،میرے ساتھ دبئی چلو ، میرے پاس ویزا ہے ۔۔۔تمہارے جیسے گریجویٹ کو ہماری کمپنی ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے ،،
باقی آئندہ