قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 13
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیاوی عذاب آنے کی مہلت میں فرق:
(حصہ دوم)
اب رہا معاملہ محمد رسول اللہ ﷺ کے منکرین کو ملنے والی نسبتًا طویل مہلت کا تو اس کی وجہ خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے۔ سورہ انفال میں ہے:
لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے معاملے میں یہ ہوا کہ آپؐ کی طرف سے اتمامِ ججت اور ہجرت کے بعد بھی مومنین اور کفار کی مکمل علیحدگی نہیں ہو پائی تھی دوسرا یہ کہ ایسے لوگ موجود تھے جن کے ایمان لانے کی امید تھی۔ درج ذیل آیت دیکھیے:
مَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (سورہ انفال، 8:33)
اللہ (اُس وقت تو) اِن کو عذاب دینے والا نہیں تھا، جبکہ تم اِن کے درمیان موجود تھے اور نہ (اُس وقت) عذاب دینے والا ہو سکتا ہے، جبکہ یہ مغفرت چاہ رہے ہوں۔
اس آیت کی وضاحت میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں:
" قریش کے لیڈروں کی طرف سے پیہم مطالبۂ عذاب کے باوجود اللہ نے اُنھیں ڈھیل کیوں دی؟ یہ اِس سوال کا جواب دیا ہے۔ فرمایا کہ عذاب کے معاملے میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب تک اصلاح کی دعوت قبول کرکے خدا سے مغفرت چاہنے والے قوم کے اندر سے نکلتے رہتے ہیں اور جب تک پیغمبر اُن کے درمیان موجود ہوتا ہے، اُنھیں چھوڑ کر نکل نہیں جاتا، اللہ اتمام حجت کے باوجود اُن پر وہ فیصلہ کن عذاب نازل نہیں کرتا جو رسولوں کی قوموں پر نازل کیا جاتا ہے اور جس کا مطالبہ قریش کر رہے تھے۔ اِس میں، اگر غور کیجیے تو یہ دعوت بھی ہے کہ یہ لوگ اگر اب بھی اپنی روش بدلنے کے لیے تیار ہو جائیں اور خدا سے معافی مانگ لیں تو اِس عذاب سے بچ سکتے ہیں۔"
یہی وجہ ہے صلح حدیبیہ کے موقع پر متوقع جنگ بھی خدا نے ہونے نہیں دی کیونکہ مکہ میں ابھی مجبور مومنین، جن میں سے کچھ اپنے اعلانِ اسلام کے بعد کفار کے ہاتھوں سختیاں جھیل رہے تھے، اور کچھ ابھی تک اپنے ایمان کا اظہار نہیں کر پائے تھے، موجود تھے۔ اس لیے اس موقع پر جنگ کی صورت میں ان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ سورہ الفتح میں اللہ نے فرمایا:
هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (سورہ الفتح، 48:25)
یہ وہی ہیں جنھوں نے (خدا کے پیغمبر کا) انکار کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دیا کہ وہیں کھڑے رہ جائیں اور اپنی جگہ پر نہ پہنچنے پائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر (مکہ میں اُس وقت) ایسے مومن مرد اور ایسی مومنہ عورتیں نہ ہوتیں جنھیں تم نہیں جانتے تھے کہ(حملہ کرتے تو) روند ڈالتے، پھر اِن کے باعث تم پر بے خبری میں الزام آ جاتا (تو ہم جنگ کی اجازت دے دیتے، لیکن ہم نے اِس لیے اجازت نہیں دی) کہ اللہ جس کو چاہے، (ایمان کی توفیق دے اور) اپنی رحمت میں داخل کرلے۔ (یہ حقیقت ہے کہ) اگر وہ لوگ الگ ہو گئے ہوتے تو ہم اُن کے منکرین کو دردناک عذاب سے دوچار کر دیتے۔
ان ہجرت نہ کرنے والوں میں کچھ تو مجبور تھے، جیسے حضرت ابو جندل وغیرہ، جب کہ کچھ کمزور ایمان والے بھی تھے، جو اپنی مقامی اور خاندانی وابستگیاں ترک کر کے ہجرت پر آمادہ نہ ہو سکے تھے۔ تاہم عذاب میں تاخیر مجبور اور معذور لوگوں کی وجہ سے ہوئی نہ کہ بلا عذر ہجرت نہ کرنے والوں کی وجہ سے۔ ان متساہلین کو بھی خدا کی طرف سے عذاب کا ہی سامنا کرنا پڑا:
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (سورہ النساء، 4:97)
(اِس موقع پر بھی جو لوگ اُن بستیوں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جہاں اُنھیں دین کے لیے ستایا جا رہا ہے، اُنھیں بتاؤ، اے پیغمبر کہ) جن لوگوں کی جان فرشتے اِس حال میں قبض کریں گے کہ (اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال کر) وہ اپنی جان پر ظلم کر رہے تھے، اُن سے وہ پوچھیں گے کہ یہ تم کس حال میں پڑے رہے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم تو اِس ملک میں بالکل بے بس تھے۔ فرشتے کہیں گے: کیا خدا کی زمین ایسی وسیع نہ تھی کہ تم اُس میں ہجرت کر جاتے۔ سو یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“