حاجی صاحب!
(تحریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں)
پہلی قسط!
جب سے مہینے میں دو تین بار حاجی صاحب گھرآنے لگے تھے..نورین کے دن پھر گئے تھے,حاجی صاحب خود تو آتے ہی تھے ساتھ میں گاڑی بھر کر سامان بھی لاتے.راشن کے علاوہ پھل,سبزی .گوشت.بیکری آئیٹمز.نورین نے آج تک اتنی چیزیں اکھٹی گھر میں نہیں آتی دیکھیں تھیں,نذیر کی تو تنخواہ ہی صرف آٹھ ہزار تھی,مشکل سے قرض لے لے کر گزارہ ہوتا.پھر تین بچوں کا ساتھ,میکہ بھی کمزور تھا,جب حاجی صاحب کی گاڑی چلاتے ہوئے نذیر ٹرالے کی ٹکر سے اللہ کو پیارا ہو گیا تو نورین کو یوں لگا کہ اس کے سر سے کسی نے آسمان چھین لیا ہو اور پاوں کے نیچے سے دھرتی کھینچ لی ہو,نذیر کی جیب سے تین سو روپے نکلے اور نورین کے پاس تین روپے بھی نہیں تھے.حاجی صاحب نے کفن دفن کا انتظام کیا اور قل پر بھی پوری برادری کو زردہ پلاو کھلایا,چند دن بعد جب میلا چھٹ گیا اور ہر کوئی خالی تسلی اور جھوٹا دلاسہ دے کر گھر کو لوٹ گیا تو اپنے واحد کمرے میں نورین بچوں کو سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی.آنے والے سارے دن بہت مشکل تھے,بچوں کی فیسیں دینی تھیں,گھر بھی کرائے کا تھا.نورین کو سمجھ نہ آتی کہ وہ کیا کرے.چھوٹی بچی کی وجہ سے کوئی نوکری پر بھی نہ رکھتا,سوچا کہ نو سال کے چاند کو ہی کہیں لگوا دوں,ایک دن کسی محلے والے کے ساتھ ورکشاپ پر بھیجا.رات کو چاند سا بچہ کالا کلوٹا ہو کر سسکتا ہوا گھر لوٹا.تو ماں کا سینہ پھٹنے کو آگیا,نہلا دھلا کر کپڑے پہنائے.ماتھا چوما تو بیٹے نے جیب سے ایک سو بیس روپے نکال کر ماں کو تھمائے.تو نورین کا کچھ دیر پہلے خود سے کیا ہواقول ٹوٹ کے بکھر گیا کہ آئیندہ چاند کو ورکشاپ گاڑیوں کے نیچے گُھسنے نہیں بھیجوں گی.چاند تھوڑا بہت کام کرنے لگا تھا مگر گزر بسر مشکل تھی.چھوٹی بچی کا دودھ ہی پورا ہوتا یا پھر ایک ٹائم کی روٹی.ایک دن حاجی صاحب نے چاند کو ورکشاپ پر دیکھا تو پہچان لیا,بچے نے بتایا کہ سکول چھوڑ کر ادھر کام کرتا ہوں تو حاجی صاحب کو بہت دکھ ہوا.کیونکہ نذیر ان کے سامنے اکثر کہتا تھا کہ صاحب میرا ایک ہی بیٹا ہے اسے تو میں ایم اے کرواؤں گا,حاجی صاحب نے اسے اپنا وزیٹنگ کارڈدیا اور کل آکر ملنے کو بولا,چاند کارڈ لے کر گھر آیا تو نورین کو امید لگ گی کہ شاید حاجی صاحب ان کی کوئی مالی مدد کریں گے,کیونکہ نذیر اسے حاجی صاحب کی سخاوت اور دریا دلی کے بہت قصے سناتا تھا.ویسے تو نذیر کی وفات پر بھی انہوں نے بیس ہزار دیئے تھے .مگر نورین نے اس سے اپنا قرض ادا کر دیا تھا.عدت گزر چکی تھی نورین خود چاند کے ساتھ حاجی صاحب کے پاس آگئئ.حاجی صاحب شہر کی نامی گرامی کاروباری شخصيت تھے.عزت دولت اور شہرت انہیں وراثت میں ملی تھی.پانچ جوان بچوں کے باپ اور صوم وصلواۃ کے پابند باریش دردمند انسان تھے,نہ جانے کتنے یتیم خاندان ان کے زیر کفالت تھے,نذیر ان کے پاس گیارہ سال سے تھا,انہیں اس کی تابعداری پسند تھی.اس کی وفات کا انہیں صدمہ تھا لیکن جب کل اس کے بیٹے کو گاڑی کے نیچے لیٹے دیکھا تو ان کا دل بھر آیا,چاند انہیں جنازے اور قل پر ملا تھا,وہ اسے پہچان گئے تھے,نورین سے ان کی ملاقات نہیں تھی,ویسے بھی وہ عورتوں سے ملنے سے کتراتے تھے,لیکن اب تو نورین بیٹے کے ساتھ آچکی تھی.پی اے کے بتانے پر انہوں نے دونوں کو کمرے میں بلوا لیا,آفس کی شان و شوکت دیکھ کر نورین کے ہوش گم تھے.اپنے ہی خیالوں میں منہ پر کالی چادر لپیٹے وہ چاند کے ساتھ اندر آگئ.سلام کا جواب دینے کے بعد حاجی صاحب نے دونوں کو سامنے رکھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود اپنی چئیر پر سیدھے ہو کر بیٹھے.اور بولے مجھے افسوس ہے کہ ہم نے نذیر کو کھو دیا.بہت ایماندار اور مخلص انسان تھا.لیکن کیا ہو سکتا ہے.جیسے رب کی رضا,کل بچے کو دیکھا تو دل کانپ گیا کہ میں چار ماہ آپ لوگوں سے غافل رہا,میرا اللہ مجھے اس غفلت کی معافی عطا فرمائے.میں آپ لوگوں کی مدد کا پابند ہوں,حاجی صاحب سر جھکائے دھیمے لہجے میں بول رہے تھے. اور نورین رو رہی تھی.ملازم چائے لے کر آیا تو حاجی صاحب نے دونوں کو چائے پیش کی,چاند نے کہا کہ وہ چائے نہیں پیتا تو حاجی صاحب نے انٹر کام پر جوس کا آرڈر دے دیا,چائے ٹھنڈی ہو رہی تھی.حاجی صاحب کے اصرار پر نورین نے چہرے سے چادر ہٹائی اور چائے کا سپ لیا,غیر ارادی طور پر حاجی صاحب کی نظر اس پر پڑگئی.گوری رنگت پر روئی ہوئی بھنورا آنکھیں اور مڑی ہوئی دراز پلکوں کے نیچے ستواں سا ناک اور گلابی لب و رخسار والی نورین کو دیکھ کر حاجی صاحب محو سے رہ گئے.ہاتھ میں تھامی تسبیح کے دانے گننا بھول گئےانہوں نے پھر ارادی طور پر اسے کنکھیوں سے دو تین بار دیکھا.چائے پی کر جب نورین نے اہنا چہرہ کالی چادر میں لپیٹ لیا تو حاجی صاحب کو یوں لگا کہ جیسے چاند بادلوں کی اوٹ میں جا چُھپا ہو,اچھی خاصی رقم کے ساتھ ساتھ نورین حاجی افضل صاحب کا دل بھی لے کر گھر آچکی تھی.
جاری ہے
ارم ملک
https://www.facebook.com/errum.malik.5/posts/226100927840421
“