اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وزیر اعظم کا اقوام متحدہ سے خطاب جامع، پراثر اور فکر انگیز رہا، یہ کسی وزیر اعظم کا نہیں ایک درمند مسلمان کا خطاب تھا جو دنیا کو سکے کا دوسرا رخ دکھا رہا تھا۔ اسلاموفوبیا، مغرب اور مشرق میں مذھب کی منزلت کا فرق، اسلام پر دہشتگردی کا لیبل اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے مسائل پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ بھارت میں راشٹریہ سیوک سنگھ کا کردار، انتہا پسندانہ سوچ، غیر ہندووں کیلئے زندگی گزارنا مشکل ہو چکا ہے۔ عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھی دنیا پر عیاں کی، یہ بھی واضح کیا کہ جب بھی کرفیو اٹھے گا تو خون کی ندیاں بہنے کا خدشہ ہے، دنیا سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ تجارت کو انسانیت پر فوقیت نہ دیں، اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو ہتھیار ڈالے نہیں بلکہ اٹھائے جائینگے، نوبت ایٹمی جنگ تک جا سکتی ہے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ ایک پر اثر اور مدبرانہ خطاب، پاکستانیوں کے دل کی آواز اور ٹھوس حقائق پر مبنی، مجھے کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کی موقف کی بھرپور ترجمانی کی اور کشمیر کا مقدمہ دوٹوک طور پر پیش کیا۔
ہم ایک جذباتی اور جوشیلی قوم ہیں، وزیر اعظم کے خطاب پر تعریف و توصیف تو دوسری جانب تنقید و تنقیص کا سلسلہ جاری ہے، مگر ایک لمحہ بھی یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ ہر بار کچھ ایسا ہی ہوا کرتا ہے، اسی طرح جوشیلے خطابات، پرجوش پذیرائی مگر نتائج کے اعتبار سے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا ہر سربراہ مسئلہ کشمیر سے مخلص رہا خواہ جمہوری ہو یا آمر، بھلا بینظیر بھٹو کا جنرل اسمبلی سے خطاب کون بھول سکتا ہے جب ہال میں بیٹھے بھارتی وفد میں ہلچل مچ گئی تھی۔ نواز شریف کا خطاب بھی شاندار تھا، جنرل ضیاالحق دھیمے لہجے میں نہایت پر اثر تقریر کے بعد اسلامی دنیا کا مرکز نگاہ بن گئے تھے۔ پرویز مشرف کی آگرہ پریس کانفرنس بھلا کون بھلا سکتا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کی بحثیت وزیر خارجہ تقریر تو آج بھی اقوام متحدہ کی بہترین تقاریر میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ تمام خطابات نہایت مدلل اور پر اثر تھے مگر نتیجہ کیا نکلا؟ اقوام متحدہ سے کیوبا کے فیدل کاسترو کا جوشیلا خطاب کون بھول سکتا ہے جنہوں نے دنیا کے سب سے بڑے ایوان میں امریکہ کے پرخچے اڑا دیے تھے، وینیزیلا کے ہیوگو شاویز کا طویل خطاب بھی ریکارڈ کا حصہ ہے مگر وینیزیلا کو کیا ملا؟ لیبیا کے جنرل معمر قذافی نے اقوام متحدہ کے درودیوار ہلا ڈالے تھے مگر کیا لیبیا اور وہ خود تباہی سے بچ پائے۔ فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو مدلل خطاب بھی دنیا کو یاد ہے مگر فلسطین کے ہاتھ کیا آیا۔ دنیا بیشمار عالمی رہنمائوں کے ناقابل فراموش خطابات دیکھ اور سن چکی ہے مگر نتائج خطابات سے نہیں ٹھوس اقدامات اور موثر حکمت عملی سے آیا کرتے ہیں۔
یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھارت کیساتھ کھڑی ہے یا کم از کم مخالفت پر تیار نہیں، جنرل اسمبلی اجلاس سے ہفتہ بھر پہلے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا اجلاس تھا، اس اجلاس میں پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف قرارداد پیش کرنی تھی۔ قرارداد پیش کرنے کیلئے کم از کم 16 ارکان کی حمایت درکار تھی جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خطاب میں انکشاف کر چکے تھے کہ 58 ارکان انکے ساتھ ہیں۔ خیر جناب نتیجہ یہ نکلا کہ ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے کے باعث پاکستان یہ اہم ترین قرارداد پیش کرنے میں ناکام رہا۔ افسوس کی بات ہے کہ جنہیں ہم حلیف قرار دیتے ہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تک بھارت کی مخالفت میں ہمارا ساتھ دینے پر تیار نہیں ہیں۔
وہ وقت گزر گیا جب پاکستان اسلامی دنیا کا دماغ تصور کیا جاتا تھا، ذوالفقارعلی بھٹو کی بدولت پاکستان کو یہ اعزاز ملا تھا مگر اس کے بعد کی قیادت کے پاس نہ فکری صلاحیت تھی نہ سیاسی بصیرت، پھر افغان جنگ نے دنیا میں پاکستان کے تشخص کو ایسا مجروح کیا ہے کہ کوئی اعتبار پر تیار نہیں، سو ترکی اور ملائیشیا کے سوا کوئی دوسرا ملک بیگناہ کشمیری مسلمانوں کیلئے بھارت کے خلاف آواز اٹھانے پر تیار نہیں ہے۔ پہلےبھی عرض کر چکا ہوں کہ ملکوں میں دوستی کی بنیاد صرف اور صرف مفادات ہوتے ہیں۔ بھارت ایک مضبوط معشیت ہے، ایک ارب بیس کروڑ باشندوں کی بڑی مارکیٹ، مفادات کو چھوڑ کر بھلا کون مظلوم مسلمانوں کیلئے کھڑا ہو گا، جب برادر ممالک تیار نہیں تو پھر امریکہ اور یورپ سے شکوہ کرنا بعید از عقل ہے۔ امریکہ میں 40 لاکھ بھارتی امریکن موجود ہیں جو پوری طرح مقامی سیاست میں متحرک ہیں جبکہ ایسے پاکستانیوں کے تعداد صرف 6 لاکھ ہے، وہ بھی امریکہ کی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انتخابات سے چودہ ماہ پہلے ڈیموکریٹ ہوں یا ریپلکن کیوں بھارتی ووٹرز کو ناراض کریگا، یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی شہرت یافتہ بڑی بڑی امریکی کمپنیوں کی قیادت بھارتی شہریوں کے ہاتھ ہے۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ بھارت نے پورے بیس سال سفارتی محاذ پر مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے خلاف کام کیا ہے۔ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ اچانک نہیں کیا، دوبارہ انتخابات جیت کر پوری تیاری اور منظم منصوبہ بندی کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر کارروائی سے پہلے بھارتی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے درجنوں ممالک کے دورے کیے، عالمی رہنمائوں کو تجارت و سفارت کے ذریعے ہمنوا بنایا سو اس ہوم ورک کا نتیجہ ہے کہ کوئی بھارت کے خلاف جانے پر تیار نہیں ہے۔ پاکستان کو امت مسلمہ کے درد میں بے حال ہونے سے پہلے یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ہمارے ساتھ کون کون کھڑا ہے۔
اس سے پہلے عرض کر چکا ہوں کہ قیادت فوجی ہو یا سیاسی، ہر پاکستانی حکمراں مسئلہ کشمیر سے مخلص رہا، دوٹوک موقف، شاندار تقاریر، کوئی سمجھوتہ نہیں مگر سفارتی محاذ پر کوئی ٹھوس حکمت عملی نہ بن سکی۔ بھارت نے بیس سال سفارتی محاذ پر ہر ہر جگہ پاکستان کو دہشتگرد قرار دینے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کیا ہم اسکا توڑ کرنے میں بھی ناکام رہے۔ اسے خارجہ پالیسی کی ناکامی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے، پاکستان دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ مناسب طور پر نہ رکھ سکا، نہ ہی سفارتی میدان میں بھارتی بیانئے کو موثر جواب دے سکا۔ دنیا ہمارے سچ پر بھارتی جھوٹ کو کیوں ترجیح دے رہی ہے، کیا ایسا تو نہیں کہ ہمارا سچ خود ساختہ ہے اور دنیا اعتبار کرنے پر تیار نہیں؟
ایک بار پھر عرض کروں کہ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کا مقدمہ بھرپور انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا مگر اس پر ڈھول بجانے کے بجائے ہمیں حقیقت پسندانہ خآرجہ پالیسی مرتب دینی ہو گی، صرف عالمی سربراہان کو نہیں بلکہ رائے عامہ تک اپنی بات پہنچانی ہو گی۔ وقت ابھی بھی نہیں نکلا مگر حقائق کا سامنا کرنا ہو گا۔ سچ تلخ ہوتا ہے، حقیقت پسندی پر غداری کے فتوے صادر کرنے کے بجائے حکومت، حزب اختلاف، اداروں اور عوام کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا، غلطیوں کو صرف اعتراف کے بعد ہی سدھارا جا سکتا ہے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ کالم ختم کرتا ہوں اس سے پہلے کہ میرے خلاف بھی غداری کا کوئی فتویٰ آ جائے مگر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حکومت، اپوزیشن، ادارے، ہم اور آپ سب ریاست کے دم سے ہیں، فیصلہ آپ کو کرنا ہے خطاب پر ڈھول پیٹیں یا ٹھوس اقدامات پر توجہ دیں، خظاب کو نکتہ آغاز جانیئے یا انجام