پُتلی گھر لائل پور کے سٹیج ڈراموں کا سفر ( دوسری قسط)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصیر الدیں قریشی کی ڈرامہ کلب میں کام کرنے والوں مین ایک حنیف خان تھا جو ڈرامے میں کامیڈین کا رول ادا کرتا تھا ۔ دل نواز اور نسیم شعلہ بھی اسی ڈرامہ کلب میں کام کرتا تھا اعجاز واسطی تھا احمد خان تھا جو بہت دبلا پتلا تھا مگر اس کی آواز کا گرام بہت بڑا تھا اعتزاز جازی تھا امتیاز گل تھا مرید احمد تھا ، اعتزاز جازی اور مرید احمد نے بعد میں پاکستانی فلموں اور ٹی وی کے بہت سے ڈراموں میں بھی کام کیا ، مرید احمد نے میرا خیال سیکنڑوں فلموں اور ٹی وی کے ڈراموں میں کردار ادا کیے، مشہور ٹی وی ڈرامہ ،،اندھیرا اُجالا ،، میں مرید نے پولیس میں کا کردار ادا کیا تھا مگر وہ لاہور سے ٹی بی کی بیماری لے کر واپس لائیل پور آیا ، شہر کے دوستوں اور خاص طور پہ الیاس اسد نے اُسکے علاج کے لیے ورائیٹی شو کراے مگر ۔۔۔۔۔۔۔ مگر مرید احمد چارپائی پہ موت کا کردار ادا کرتے کرتے مر گیا ، پاکستانی فلموں اور ٹی وی سٹیشنوں پہ ان ایکسٹرا اداکاروں کے ساتھ کس کس طرح کا استحصال ہوتا کوشش کروں گا اس کے بارے میں بھی کچھ لکھ سکوں،
نصیر الدیں قریشی کی ڈرامہ کلب کے ساتھ ساتھ شہر میں کرسچین برادری کی بھی ڈرامہ کلبیں ہوتی تھیں جو شہر کے چرچوں میں ۲۵ دسمبر اور دوسرے مذہبی تہواروں پہ ڈرامے پلے کرتی تھیں، سمن آباد کے قریب ،، نواباں والا پنڈ ،، کے چرچ میں ۲۵ دسمبر کو حضرت عسی کی پیدائش کا ڈرامہ پلے ہوتا تھا جس میں شہر کے تقریبأ سارے ڈرامہ اداکار حصہ لیتے تھے ، ان مسیحی ڈرامہ کلبوں کو ایک بات کا بہت انڈوانٹیج تھا کہ ان کو ڈراموں میں نسوانی کردار ادا کرنے کے لیے آسانی سے لڑکیاں مل جاتی تھیں جب کہ شہر میں دوسرے ڈرامہ کلبوں کو اس میں مشکلات کا سامنا تھا ، وہ لاہور سے خاتوں اداکاروں کو بک کرتے جو اُن کو مہنگا پڑتا ، سارے شہر میں صرف تین لڑکی تھیں جو کام کرتی تھیں نجمہ نائیلہ اور شمیم شمع ۔۔۔ شمیم ان میں سب سے چھوٹی تھی جس نے بعد میں خود کشی کرلی ان میں نائیلہ نے سب سے زیادہ کام کیا اور بعد میں ہمارے دوست راؤف کے ساتھ شادی کر لئی ۔ ان کرسچن برادری سے تعلق رکھنے والا ایک ڈرامہ اداکار جو کارخانہ بازار کے قریب کرسچین بستی میں رہتا تھا میں اُس کا نام بھول رہا ہوں شاید ہیٹسن ونی تھا اُس نے بعد میں اپنی بیوی کے ساتھ ملکر جناح کالونی میں ایک سکول کھولا تھا ایک دفعہ اس سکول کے ثقافتی پروگرام میں بشارت ملک نے ایک گھنٹہ کا ون میں شو کیا تھا بشارت ملک اس شہر کا بہت ایم کردار تھا اب تو وہ لاہور شفٹ ہو چُکا ہے ، بشارت ملک میں قصہ بیان کرنے پہ کمال کا فن تھا ْ قصے میں کرداروں کے لہجے اور الفاظ کو وہ بہت خوبصورتی سے بیان کرتا اگر وہ ریڈیو کے شعبہ سے منسلک ہو جاتا تو بہت اچھا فن کار سامنے آتا اس کے علاوہ اُسے اردو فارسی اور عربی زبان پہ بھی بہت عبور تھا کاش وہ لکھنے کی طرف آجاتا تو اچھی تحریریں پڑھنے کو مل جاتیں
ان ڈرامہ کلبوں کے علاوہ تقریبأ ہر سکول کا لج میں ۔۔ بزم ِ ادب ہوتی تھی ، جہاں طالب علموں کو تقریر کرنا اور شعر لکھنا سکھایا جاتا تھا سکول کالجوں کی بھی ڈرامہ کلبیں ہوتی تھیں جو پاکستان کے قومی تہواروں پہ سکولوں کالجوں میں ڈرامے پلے کرتیں جس میں پاکستان بننے کے مناظر پیش کیے جاتے اور محمد علی جناح کی شخصیت کو قوم کے لیڈر کے طور پہ پیش کیا جاتا ، یا پھر اس خطہ میں اسلام کی آمد کا ڈرامہ دیکھایا جاتا جس میں محمد بن قاسم کی شخصیت کو اُبھارا جاتا ،
نصیرالدیں قریسی کی ڈرامہ کلب کرسچیں ڈرامہ کلب اور سکول کالجوں کی ڈرامہ کلبوں مین بہت سے کام کرنے والے بعد میں شہر کی ڈرامہ کلب میں کام کرنا شروع ہو گئے اور بہت سون نے فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں حصہ لینا شروع کر دیا ۔۔
لائل پور سے ایک بڑی تعداد نے لاہو جا کر فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں بڑے بڑے ایم کردار ادا کیے ان میں اور بہت سوں کے علاوہ خالد سلیم موٹا ۔ چنگیزی ۔ اداکارہ شریں ، طارق جاوید ، جاوید حسن ،مشتاق ساتھی ، زاید ڈار، حفیظ احمد ، الیاس اسد ، نصیر عامر ، انعام اللہ خان ،افضل جوشو ، ساحر قدوائی ، محمود کنول ، نسیم وکی ، سخاوت ناز ، اعجاز ناصر ، طارق ٹیڈی ، سردار کمال ، مرید احمد ، نیر غوری ، للا ، عنائیت لاہوری فیاض آغا ( جو ماڈل سکول کے بینڈ کا سٹک مین تھا ) پونم کمار جس کا اصلی نام گلزار تھا پونم نے بہت سی فلموں میں کام کیا اور بہت سی فلموں کی ہدایت کاری کی مگر افسوس کوئی فلم مکمل نہ ہو سکی پونم کی اصل کہانی ریگل چوک سے شروع ہوتی ہے ، جہاں وہ سفید سوٹ پہں کر کھڑا ہوجاتا اور اچانک دلیپ کمار کی اداکاری شروع کر دیتا سارا بازار روک جاتا دہیاتیوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے پونم دن میں کوئی چھ سات بار یہ شو کرتا ، ولی پہلوان جو فضل حسین راہی کے والد تھے ، ولی پہلوان کا لاہور میں رائیل پارک میں اپنا ڈسٹی بیوٹر کا دفتر تھا ، ان کے پاس شہید کے علاہ دس بارہ فلمیں تھیں ، ان سے جب بھی ملاقات ہوتی انسان کو لگتا پریم ناتھ سے ملاقات ہو رہی ہے ، انڈین فلم کے پرتھوی راج کپور کا تعلق بھی لائل پور کے قریب سمندری سے ہے اسی طرح امیتابھ کی والدہ کا تعلق بھی سمندری سے ہے ، بشرہ انصاری کی پھوپھی عفت جو ٹی وی کے پروگراموں کی میزبان تھی اُس کا تعلق بھی لائل پور سے ہے ۔
شہر کے ایک کردار محمود خان کا ذکر کر کے میں یہ قسظ ختم کرتا ہوں ، محمود خان شہر کے ڈراموں میں کام کرتا تھا بعد میں جرمن چلا گیا تھا وہ عالن کافی ہاؤس بیٹھتا تھا ، آپ اُسکی آنکھوں پہ پٹی باندھ دیں اور اُس کے آگے کاغذ رکھ دیں اور ہاتھ میں پینسل پکڑا دیں وہ آنکھوں پہ بندھی پٹی کے ساتھ دلیپ کمار کے دس سے پچاسا سکیچ بنا دیتا تھا
(جاری ہے )
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154787301978390
“