سمندر پار پاکستانیوں کی نئی نسل
پاک سپورا مُلکوں مُلکوں پھیلا ہوا پاکستانیوں کا وہ سمندر پار پاکستان ہے ، جو ایک طرف پاکستانیوں کے لیے زرِ مبادلہ فراہم کرنے کا کثیر القومی ڈپو ہے اور دوسری طرف پاکستان کی نئی نسل کو جدید تعلیمی سہولتوں سے استفادہ کرنے کے شاندار مواقع مہیا کرتا ہے ۔ یہ تعلیمی سہولتیں جو تارکینِ وطن کی نئی نسل کو جدید یورپی ملکوں میں حاصل ہیں ، ترکِ وطن کا ایک مفید اور تابناک ثمر ہیں کہ ان سے بہرہ یاب ہو کر ، سمندر پار پاکستان کی نئی قوم پاکستان کے ایک بہتر مستقبل کی نوید بن رہی ہے ۔
یہ ہماری آنکھوں دیکھی ہے کہ یہاں ناروے میں پاکستانیوں کی نئی نسل مقامی نارویجنوں کے دوش بدوش ہر شعبہ ٗ زندگی میں برابر کی شریک ہے ۔ ناروے میں تارکینِ وطن کا وہ زمانہ بیت چکا جب وہ غیر تربیت یافتہ محنت کش بن کر کام کرتے تھے ۔ ترکِ وطن کے ابتدائی سالوں میں ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ لیکن پچھلی تین دہائیوں میں پاکستانیوں نے اپنی محنت کے بل پر جہاں اپنا مقام بنایا ، وہاں اپنی نئی نسل کو حصولِ تعلیم کی راہ پر لگایا تاکہ وہ جدید اور ترقی یافتہ معاشرتوں کے مہذب اور قابلِ فخر شہری بن سکیں ۔ چنانچہ ہماری نئی پاکستانی نسل نے ناروے ، سویڈن ، ڈنمارک ، انگلستان اور امریکہ کے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی اور اب وہ تعلیم یافتہ نئے پاکستانی ، طب ، بیورو کریسی ، انجینرنگ ، صحافت ، تجارت اور قانون کے شعبے شامل ہو کر ایک پڑھے لکھے سمندر پاکستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں ، جو کسی قوم کی اعلیٰ صلاحیتوں کی گواہی ہے ۔ اور خوشی کی بات تو یہ ہے کہ اس نئی پاکستانی نسل میں نمایاں تعداد لڑکیوں کی ہے جو لڑکوں کے دوش بدوش ہر شعبہ زندگی میں کار ہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں ۔
ناروے میں پاکستانی تارکینِ وطن کی تاریخ پچھلی چار دہائیوں پر محیط ہے جب کہ انگلستان میں برِ صغیر سے ترکِ وطن کی تاریخ لگ بھگ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے ۔ بات صرف سکینڈے نیویائی ممالک تک ہی محدود نہیں بلکہ یورپ ، امریکہ اور کنیڈا میں جہاں جہاں بھی پاکستانی گئے ، اُن کی نئی نسل نے تعلیمی میدان میں پوری تن دہی سے شرکت کی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ مجھے اس وقت مانچسٹر کے ایک نوجوان کا بطورِ خاص ذکر کرنا ہے ، جو پچھلے مہینے اوسلو یونی ورسٹی کے ایک طبی تحقیقاتی پروگرام میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا ۔ یہ نوجوان عدنان شوکت ہے جس نے انگلستان میں تعلیم پائی ہے، انسانی بدن میں قوتِ مدافعت کے بارے میں منعقدہ ریسرچ پروگرام میں بطور مہمان محقق شریک تھا ۔ اوسلو آنے سے پہلے وہ اسی طرح کے ایک ریسرچ پروگرام میں شرکت کر چکا تھا جو جرمنی میں منعقد ہوا تھا ۔ میں ایسے نوجوانوں کو دیکھ کر ، اُن سے مل کر اور اُن کے بارے میں سُن کر اور پڑھ کر ایک گونہ احساسِ تفاخر سے سرشار ہو جاتا ہوں ، جنہوں نے اپنے والدین کی پیشہ ورانہ مہارت سے ہٹ کر ایک نئی راہ اپنائی اور اپنا مستقبل اعلیٰ علمی سرگرمیوں سے وابستہ کیا ۔
عدنان شوکت کے والد حافظ شوکت علی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے متوطن ہیں ، جنہوں نے مانچسٹر میں رہائش اختیارکی اور اوبیر شوفر کے طور پر کام کیا ۔ مگر اُنہوں نے اپنے بچوں کو وہ راستہ دکھایا جہاں وہ آبائی لکیر کے فقیر بننے کے بجائے ، کچھ نئی راہ اپنائیں ، اور معاشرے کے ایسے فعال کارکن بنیں ، جن پر نہ صرف ماں باپ کو فخر ہو بلکہ پاک سپورا کے دنیا بھر میں آباد پاکستانیوں کو بھی خوشی ہو ۔ مجھے خوشی ہے کہ سادہ مزاج ، درویش سیرت حافظ شوکت علی کے تینوں بچے جن میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہے ، مانچسٹر میں رہ کر اپنی مذہبی اور مشرقی روایات سے پوری طرح وابستہ ہیں ، اور جدید تعلیمی میدان میں بھی بڑی شان و شوکت سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔
سمندر پار پاکستانی بچوں کو جدید یورپی تعلمی اداروں سے تعلیمی اسناد حاصل کرتے دیکھ کر مجھے اُن ڈیڑھ کروڑ پاکستانی بچوں کا خیال آتا ہے جنہیں سرے سے سکول میں تعلیم حاصل کرنے کی سہولت میسر نہیں ہے ۔ اور میں سوچتا ہوں کہ اے کاش ! تمام پاکستانی بچے خواہ وہ پاکستان میں ہیں یا سمندر پار پاکستانی ڈایا سپورا میں ، جسے میں پاکسپورا کہتا ہوں ، زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوں اور جدید تکنیکی فنون سے بہرہ یاب ہو کر دنیا میں پاکستان کا نام روشن کریں کیونکہ حصولِ علم ہمارا بنیادی قانونی حق ہے اور وہ قانون کہتا ہے :
طلب العلم فریضہ علیٰ کُلِ مسلم و مسلمات
علم حاصل کرنا تمام مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں پر فرض ہے ۔ بالکل اسی طرح فرض ہے جیسے نماز فرض ہے کیونکہ سعدی فرما گئے ہیں :
کہ بے علم نتواں خُدا را شناخت ۔۔ کہ ان پڑھ آدمی تو خُدا کو پہچان ہی نہیں سکتا ۔ تو بے چارے وہ بچے جو تعلیم سے محروم ہیں ، خُدا سے دور کر دیے گئے ہیں ۔ یہ معاشرتی جبر ہے لیکن حافظ شوکت علی ایک خوش قسمت باپ ہیں کہ ان کا بیٹا ابھی سے ایک بین الاقوامی ریسرچر بننے کی راہ پر گام زن ہے ۔
http://www.karwan.no/discussion/39795/2017-02-15/new-generation-of-pakistani-immigrants/
“