میرا پہلا اعتراض مجھے تخلیق کیے جانے پہ تھا اور دوسرا اہم اعتراض، مجھے جیسا تخلیق کیا گیا تھا، اس پہ تھا… رنگ و نور کی اس دنیا میں، میں اپنی کیچڑ جیسی رنگت کا کس سے جواب مانگتا… میرے اماں ابا، دونوں بڑے بھائی اور منجھلی بہن سب صاف رنگت کے تھے تو میں کیوں نہیں؟؟
جانے نائی نے میرا اولین منڈن کس اُسترے سے کیا تھا کہ میرے بال 'مانگ نکالے' جانے کو کفر خیال کرتے تھے.. بال بڑھتے تھے اور نیچے ماتھے کی طرف سو کبھی بال بڑے رکھنے کی خواہش پالنے کی ہمت بھی نہ ہو سکی…
ناک جو کہ معاشرے میں کٹنے اور کٹوانے کے کام آتی ہے، آدھے چہرے پہ پھیلی پڑی تھی گویا.. مجھے کامل یقین ہے کہ میری ناک ہڈی سے محروم ہے..ناک مونث ہے مگر 'میری ناک مذکر ' …
سامنے کے دانت بڑے اور آگے نکلے ہوئے تھے اور اس کی وجہ سے اوپر والا ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کا فرسٹ کزن لگتا تھا…
قد چھے فٹ سے نکل رہا تھا اور اپنی شکل پہ لوگوں کی جگتیں سننے کے بعد سر جھکانے کی عادت بچپن سے پڑ گئی تھی سو جوانی میں ہی ہلکا سا 'کُب' نکل آیا تھا.. ٹانگیں پتلے بانس کی طرح لمبی تھیں سو چلتا تھا تو دیکھنے والوں کو لگتا دوڑ رہا ہوں…
یہ جو مندرجہ بالا کیڑے میں نے اپنی تخلیق میں نکالے ہیں، یہ میرے لیے، بچپن سے جوانی تک میرے اردگرد بکھرے خوبصورت لوگوں کے مونہوں سے نکلتے آئے تھے… میں اپنے آپ سے شرمندہ پھرتا تھا… کبھی اعتماد نام کی شے مجھ میں سر اٹھا ہی نہ سکی… سکول سے کالج اور پھر کالج سے روزگار کی دوڑ تک، میں ان کیڑوں کو بآسانی ہضم کرنے کا عادی ہو چکا تھا… اب دوسروں کے مونہوں سے نکلے یہ کیڑے اپنی اولاد جیسے لگتے تھے…
لڑکپن کی محبت اتنی خوبصورت تھی کہ اس سے محبت کا اظہار اس سے کوئلوں کی دلالی کرانے جیسا تھا… سو اپنی پہلی محبت اپنے ہاتھوں مار کے دل میں بنی اس کی قبر کا مجاور بن گیا….
اور پھر میرے کیچڑ جیسے جیون میں وہ دن آیا جس نے میرے دوسرے اہم اعتراض کے پرخچے اڑا دئیے… امن آباد جیسے بڑے اور خوبصورت شہر میں کام کرتے تین سال ہو چلے تھے کہ ایک دن ایک کولیگ وزیٹنگ کارڈ جیسا ایک کارڈ تھما گیا کہ جا اپنی بدرنگ زندگی میں کچھ رنگ گھول لے… اس نمبر پہ فون کیا تو خاتون آپریٹر نے کچھ پل خوبصورت بنانے کی ترکیب کی مکمل آگاہی دی اور وقت طے کرنے کی بابت پوچھا…کل رات ساڑھے نو بجے کا وقت ملا اور پتا بھی بتا دیا گیا….
ساری رات اور اگلا دن عجیب سی کیفیت میں گزرا… طوائف کے کوٹھوں کے قصے سنتے پڑھتے، اب خود طوائف کے کوٹھے پہ جانے کی نیت باندھے بیٹھا تھا.. کبھی لگتا کہ گناہ کی اس گندگی سے بچنا چاہیے اور اگلے ہی پل یہ سوچ کے ہنسی نکل آتی کہ کیچڑ گند میں گرا بھی تو کیا فرق پڑتا ہے…
کام سے جلدی واپس آ کے نہا دھو کے کپڑے بدلے اور دئیے گئے پتے پہ وقت پہ پہنچ گیا … فلیٹ کے باھر لکھے نمبر کو چار بار پڑھ کے تسلی کی تو گھنٹی بجا دی… دل کچھ اتھل پتھل ہو رہا تھا… کچھ دیر میں دروازہ کھُلا تو سبز اور سفید ساڑھی میں وہ توبہ توڑ جوانی، زندہ مسکراہٹ سجائے خوش آمدید کہہ رہی تھی….
میں اندر تو چلا گیا مگر میرے اندر کہیں ڈر اب بھی موجود تھا کہ میں اپنے تمام تر تخلیقی کیڑے لیے اس حسینہ کی بانہوں کا حق دار ہوں؟
وہ ساڑھی کا پلو گرا کے پلٹی اور گھنگھریالے بالوں کو چھاتی سے پیچھے جھٹک کے میری طرف بڑھی… بیڈ پہ میرے ساتھ بیٹھ کے اس نے ایک ٹانگ میری بانس جیسی ٹانگ پہ دھری اور بائیں ہاتھ کی انگلی میرے اونٹوں کے فرسٹ کزن جیسے ہونٹوں پہ پھیرتے ہوئے بولی 'یہ ہونٹ کتنے پیارے ہیں'… میرا دل اچھل رہا تھا، اس نے میرے دھڑکتے ہونٹوں پہ تسلی کے دو لب رکھ دئیے…
میں رنگوں کی نہر میں غوطہ زن تھا… لہروں کی اُٹخ پٹخ تھمی تو میری چھاتی پہ اپنا بازو دھرے وہ میرے سر کے بالوں میں کبھی انگلیوں کی کنگھی کرتی تو کبھی میرے کیچڑ جیسے چہرے پہ ڈاک خانے جیسی مہریں لگا دیتی… پھر میری مذکر ناک کو کھینچ کے بولی 'جائیے بھی، جائیں گے نہیں تو واپس کیسے آئیں گے'…
میں گونگا ہو چکا تھا… جلدی جلدی پینٹ شرٹ پہنی، جوتے کے تسمے باندھے، پینٹ کی پچھلی جیب سے بٹوا نکالا اور طے شدہ رقم نکال کے بیڈ پہ رکھی اور دروازے کو لپکا… بازو کے بٹن بند کرتے دروازے کے پاس رکا اور پلٹا… وہ کم ہوا بھرے غبارے بلاؤز میں چھپا رہی تھی.. اس نے اسی زندہ مسکراہٹ اور سوالیہ آنکھوں سے دیکھا… میں لپکا اور جا کے اس کے پاؤں پہ ماتھا ٹکا دیا… اس نے پاؤں کھینچنے کی کوشش کی مگر میں دونوں ہاتھوں سے اس کے پاؤں پکڑے انھیں چومے جا رہا تھا اور میرے آنسو جیسے اس کے وضو کا آخری جزو پورا کر رہے تھے….