آج میں ایک ایسے موضوع پر بات کرنے لگی ہوں جو میرے دل کے بہت قریب ہے۔خواب، خواب کیا ہیں اور خوابوں کو حقیقتوں کا روپ کیسے دیا جائے؟ خواب سب ہی دیکھتے ہیں، کچھ لوگ حقیقت کی تلخیوں سے بچنے کے لیے خوابوں کی دنیا میں پناہ لیتے ہیں۔ اس حوالے سے ماہین عرفان نے کیا خوب لکھا ہے کہ میں نے اپنے ذہن کی ابدی رہائش اپنے خوابوں میں پائی، جب انھوں نے مجھے زیست کی نا امیدی سے دور اڑ جانے کے لئے اٹوٹ پنکھوں سے نواز دیا۔ اگر خوابوں کے بارے میں بات کی جائے تو خواب دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو ہم سوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور دوسرے خواب وہ ہوتے ہیں جو ہمیں سونے نہیں دیتے بلکہ ہمارے جاگنے کی وجہ بنتے ہیں اور ہم رات بھر یہی سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ان کو حقیقتوں کا رنگ کیسے دیا جائے یا ان کو حقیقتوں کے سانچے میں کیسے ڈھالا جائے؟
جو لوگ اپنے جاگتے ہوئے اوقات میں خواب دیکھتے ہیں وہ ان کی تکمیل کے لئے جد وجہد بھی کرتے ہیں یعنی خواب نا صرف انسان کی راہنمائی کرتے اور سمت دیکھاتے ہیں بلکہ یہ زندگی کے ہر میدان میں ہماری حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں مگر کبھی کبھی یہی خواب ہماری پشت پر ایک ایسا ناقابل برداشت بوجھ بن جاتے ہیں، جب ہم انھیں، کسی دن کے لفظ سے متعارف کرواتے ہیں کسی مقصد کے بغیر زندگی گزارنے والے شخص کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک مسافر کشتی پر سوار تو ہوجائے مگر منزل سے بے خبر ہو اسی موضوع پر ڈاکٹر پروفیسر ثروت عمران کا کہنا ہے کہ زندگی تو ویسے بھی گزر جانی ہوتی ہے مگر ایک ٹارگٹ، ایک مقصد کے تحت زندگی کو جینا ہی حقیقت میں زندگی ہے۔ اب سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم سب خواب دیکھتے ہیں تو پھر ہم کیوں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے ہیں؟ اس بات کا جو
اب یہ ہے کہ ہم کر سکتے ہیں۔
اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو بہت سے دوست احباب ایسے ملیں گے جو سوچتے ہیں کہ میں فلاں کام کبھی پورا نہیں کرسکتا کیوں کہ اس کے کام نہ کرنے کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے اور کچھ ایسے لوگ دیکھنے میں آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ میں کسی دن یہ ضرور کروں گا لیکن وہ کسی دن کبھی نہیں آتا۔ اس معاشرے میں ایسے بھی لوگ ہیں جو سب کو کہتے ہیں کہ میں اب یہ کام کرنے ہی لگا ہوں کبھی بھی اس کام کی طرف پہلا قدم نہیں اٹھاتے کیوں کہ ان کے مطابق راہ میں کوئی رکاوٹ آجاتی ہے اب یہاں میں آپ کو ایک راز کی بتاتی چلوں! آپ کے خوابوں سے حقیقت تک کے سفر میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ آتی ہی رہے گی یہ بات ذہن نشین کر لیں کے یہ راستہ ہرگز آسان نہیں بلکہ بہت پر خطر اور مصائب سے بھرا ہوا ہے کسی نہ کسی کو ہمیشہ ہی آپ کی ضرورت درکار رہے گی، خواہ وہ گھر والے ہوں یا دوست، کام ہو یا کسے سے کئے گئے وعدے، مختصر یہ کہ زندگی ہمیشہ ہی آپ کے خوابوں کی راہ میں حائل رہے گی۔ یقین جانیے کہ خوابوں کی تکمیل کے سفر میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان اندر ہی اندر پوری طرح سے ٹوٹ چکا ہوتا ہے لیکن دوسری طرف پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں جب کہ کچھ کہتے ہیں کہ وہ فلاں کام کرنا چاہتے ہیں اور کبھی کر نہیں پاتے؟ تو جواب یہ ہے کہ اپنے مقصد کی طرف پہلا قدم لینا ہی آغازِ سفر ہے وہ کہتے ہیں نا کہ،
قلندری اڑان بھر، کیا ہوا گر پر نہیں
وہ فاصلہ جو آپ کے خوابوں اور حقیقت کے درمیان موجود ہے اسے عمل کہتے ہیں۔
لہٰذا اگر آپ کچھ ایسا حاصل کرنا چاہتے ہیں زندگی میں جو آپ کے پاس کبھی موجود نہیں تھا تو آپ کو کچھ ایسا کرنا ہوگا جو آپ نے کبھی پہلے نہیں کیا۔ خیالی پلاؤ بنانے سے کچھ نہیں ہوگا اپنے خوابوں کو منزل کی جانب خود لے کر چلیں، آپ نے بس پہلا قدم اٹھانا ہے آگے راستے خود بخود بنتے جائیں گے، اپنے اندر کے جنون کو محسوس کریں اس پر یقین کریں، خود پر اعتماد کریں اور آگے بڑھیں، اس حوالے سے شکیل اعظمی کا شعر خوبصورت شعر ہے کہ،
پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے
زمیں پر بیٹھ کر کیا آسماں دیکھتا ہے
جو انسان کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کی سکت رکھتے ہوں قدرت انھیں اندھیروں میں بھی بینائی بخش دیتی ہے اور انسان کو مضبوط سے مضبوط تر بنا دیتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ خوابوں کو مضبوطی سے تھام لو کیوں کہ اگر خواب مر جائیں تو زندگی ایک ایسے ٹوٹے پر والے پرندے کی مانند بن جاتی ہے جو اڑ نہیں سکتا۔ عظیم کاموں کو سرانجام دینے کے لئے نا صرف عمل کرنا ضروری ہے بلکہ خواب دیکھنا بھی نہایت اہم ہے۔ اگرآپ خواب دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو ان کو پورا کرنے کی ہمت بھی آپ کے اندر ہی موجود ہے جسے عمل کی شکل دے کر آپ اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکتے ہیں۔