بابومحمددین کی جگ بیتی"ہرابھراویران آدمی"سے چیدہ چیدہ اقتباسات ؛
ملک اشتر
بابومحمددین کواپنےتئیں روحانیت سےبھی قلبی لگاو تھا۔میلوں ٹھیلوں کے ساتھ ساتھ عرس پر حاضری دیناانکا وتیرہ رہا۔رفیق دیرینہ آغافدا حسین کی انگلی پکڑے بری امام کے مذار پر انوار پر جا دھمکتے کئی کئی روز تک دوستوں کے جھرمٹ میں ڈیرہ جمائے رکھتے، بڑے اہتمام سے ڈالی سجتی۔ لنگرنیاز کاپرتکلف انتظام ہوتا۔ڈھول کی مدھر تھاپ پرملنگ دھمال ڈالتےقوالوں کی ٹولیاں اپنارنگ جماتیں موج ومستی کے اس سیلاب میں وہ خود بھی بےخودہو جاتے،دھوئیں کےمرغولےبل کھاتے اور راتیں جاگ اٹھتیں
ان کی فطرت میں ایک دلچسب اورعجیب عادت یہ دیکھنےمیں آئی تھی کہ اہل خانہ سےان کے رشتوں کے معیار باہر کی دنیا سے یکسر مختلف تھے اور خدا جانےاس سربستہ راز کےپیچھےان کی کیا حکمت عملی کارفرما تھی۔
اپنےبہن بھائیوں میں سب سے بڑےتھے شاید اس لئیےبھی خاندانی روایت کے پیش نظر ان کی حیثیت خاصی بارعب اوردبدبے والی تھی کسی کی کیامجال کہ ان کےسامنے دم مارنےکی جرات کرے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پرسیخ پا ہو جاتے اورجب تک چاردیواری میں موجود رہتے گھر والوں کی جان پر بنی رہتی اگر موصوف کے استری شدہ کپڑوں میں غلطی سےکوئی چنت باقی رہ جاتی تو خوب شامت آتی-انہیں کھانا پیش کرتے ہوئے مارے خوف کےہاتھ کپکپاتے اور برتن ترنگ میں آکر جلترگ بجاتےشاید یہ ساز بھی ان کی روح کوآسودگی بخشنے کا باعث تھا۔
اگرکبھی کانچ کی پیالی کا کہیں سے کوئی چھوٹا سا کونا چٹخا ہو یا اجلی پیالی کے کناروں سے چائے چھلک جاتی تو اسے بغیر سوچے سمجھے دیوار پر دے مارتے- چیخ چیخ کرآسمان سر پر اٹھا لیتے اور گھر والے شرم اور خوف کے مارے کونےکھدروں میں منہ چھپاتے پھرتے۔ نفاست پسندی کا یہ عالم تھاکہ کپڑےزیب تن کرنے سے پہلے ان کے کف اور کالرالٹ پلٹ کر بہ نفس نفیس صفائی کی تصدیق کرتے۔
وہ صبح دیر تک سونےکےعادی تھے ۔جب دھوپ صحن میں جھانکنےلگتی تو بہن بھائی مل کر انہیں چارپائی سمیت اٹھاتے اور دھیرےدھیرے سایہ دار جگہ پر لےآتےکہ ان کی نیند میں کوئی خلل واقع نہ ہو اور اس دوران اگر کوئی گستاخ پرندہ آنگن میی اگے درخت پر بیٹھ کر اپنے سر جگانےکی ناکام کوشش کرتا تو اسے چونچ کھولنے کا موقع دینے سے پہلے ہی اڑا دیاجاتا شاید کسی ایسےہی منظرسےمتاثر ہو کرکسی شاعر نے کیا خوب شعر کہا ہے
اے عندلیب ناداں غوغامکن کہ این جا
نازک مزاج شاہاں تاب سخن نہ دارد
ان کی خوش پوشی کےچرچےبھی زبان زدعام تھے خود پشاور جا کر اپنے لئے عمدہ قسم کا کپڑا خریدکر لاتے۔دوگھوڑابوسکی کی قمیض اور چیرمین لٹھے کی شلوار ان کاپسندیدہ لباس تھا اور پالش کی چکاچوند سے جگمگاتے جوتےان کی عظمت پر مہر تصدیق ثبت کرتے
پھر بابو محمد دین کی زندگی میں ایک حسیں موڑ آیا ہوا یوں کہ اپنے آبائی محلے کی تمام کنواریوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئےانکی نظرانتخاب اردو کےنامورشاعر قتیل شفائی کے شہرہری پور کے ایک کوچےمیں آکرٹک گئی جہاں وہ اسکول کی ایک الہڑاستانی کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو کر اپنا دل ہار بیٹھے اور بالاآخر بات ان کی شادی پر منتج ہو کر ہی رہی۔
شروع شروع میں تو دونوں میاں بیوی ایک دوسرے پر خوب جان چھڑکتے رہےایک دوجے کے بغیر کھاناتک نہ کھایاجاتا پھرخداکاکرناکیاہواکہ ایک روز وہ خاتون خانہ کسی بات پر روٹھ کر میکے گئیں تو موصوف کاغصہ دوبارہ عود کر آیا انا کا مسلہ بناکر کوئی بھی منانے نہ گیاجس کا لازمی نتیجہ ایک ابدی جدائی کی صورت میں سامنےآیااور یوں ان کے آفاقی غصے نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئےپیار کی شمع گل کر دی اور انہوں نےعمرکی باقی گھڑیاں انتظار میں سلگتے ہوئے ہی گزار دیں
وہ کبھی کبھی حس مزاح سے بھی کام لےلیتے تھے ایک دفعہ چوٹ آنےسےان کے پاوں کی ہڈی ٹوٹ گئی مزاج پرسی کرنےوالےاحباب بھی کب کے جا چکے تھے میرےاستفسار پر دائیں بائیں جھانکتے ہوئےچپکے سےکہنےلگے"جناب؛ ویسے تو سب ٹھیک ہی ہے بس زرا پاوں بھاری ہو گیا ہے ہلنےجلنے سےقاصر ہوں شایر آرام کی خاطر maternity leave لینا ہی پڑے گی اورپھرتنہا زندگی کا بوجھ اٹھانا بھی تو Labour pain سے کچھ کم نہیں ہے"اسی دوران چند ملنے والے تشریف لے آئے اور ماحول پر پھر بانجھ پن کاغلبہ طاری ہوگیا
انہی دنوں ان کی والدہ اس جہان فانی سےکوچ کر گئیں ذندگی میں پہلی مرتبہ انہیں آنسو بہاتے ہوئے دیکھاگیا کئی روزتک گھرسےباہرقدم نہ نکالا یوں لگتاتھاجیسےوہ زندگی کی سب سےعزیز اور قیمتی متاع سے ہاتھ دھو بیٹھےہیں۔دراصل والدہ کے لاڈ اود پیار کی وجہ سے ہی انہوں نے شاہانہ ٹھاٹ سےزندگی بسر کی تھی وہی انکے نازنخرے اٹھاتی تھیں سونے کے نوالےبنابنا کرکھلاتیں۔۔۔بڑے چاو سے آفتابہ پکڑے اپنے آفتاب کا ہاتھ منہ دھلاتیں اور پھر قرینےاور نفاست سے یوں تولیہ پیش کیا جاتا کہ کہیں آبگینوں کوٹھیس نہ لگ جائے۔۔۔شاید اسی وجہ سے بیوی سے جدائی کے باوجود انہوں نے پہاڑ جیسی زندگی تنہا گزارنے میں کوئی عار محسوس نہ کی تھی مزیدبراں اللہ میاں نےاولاد جیسی نعمت سےبھی محروم رکھا تھا۔۔۔اتنے سارے خانےخالی رہ جانےکے بعد جب والدہ کا شفیق سایہ سرسےاٹھا تووہ بالکل ہی گم سم ہو کر رہ گئے
عزیزواقارب نےان کا ساتھ نبھانےکی کوشس کی مگر رفتہ رفتہ فاصلے آڑے آنےلگے۔نئی نسل نے ان کے نظریات کی کماحقہ پزیرائی نہ کی۔۔۔وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو خبروں اور تعمیری پروگراموں تک محدود رکھناچاہتے تھے مگر نوجوانوں کو تو روح کی غزا مرغوب تھی اس طرح دھیرے دھیرے وہ اپنےآپ کوتنہا محسوس کرنے لگے اور ان کی بےکیف زندگی کاغز کی ناو کی طرح دنیا کے بحربیکراں میں ہچکولے کھانے لگی۔
اپنی عمرکےآخری ایام میں یکایک ان کی زندگی کا دوسرا رخ سامنےآیاانہوں نےصفائی کو بالکل ہی تیاگ دیا اور جیسےجنگل کےسادھو بن گئےجہاں بیٹھتے کسی بےجان جسم کی طرح وہیں ڈھیر ہو جاتے جس قسم کے برتن میں جو کچھ بھی کھانے کو ملتا کھالیتےکوئی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے ہر روز کپڑے بدلنےوالے میں اب وہ دم خم نہ رہا۔۔بال بنانےکاسلیقہ بھی جاتا رہا اس طرح غیرت ناہید کی تانیں ہمیشہ کےلئےدم توڑگئیں اور رفتہ دفتہ انہیں نفسیاتی امراض نےآن گھیرا۔
بالآخر ایک افسردہ سی شام کو جب دن بھر کے تھکےماندےپرندےاپنےاپنےگھونسلوں کوپلٹ رہے تھے وہ بھی چپکے سےاس دکھ بھری دنیا سے رخصت ہوگئےمیں نےجب لوگوں کی بھیڑ کو چیرتے ہوے ان کاآخری دیدار کیا تو یوں محسوس ہوا جیسےدھیرے سے کہہ رہے ہوں
نزع کے وقت دیکھنے آئے
جائیےآپ سےخفا ہیں ہم
“