کشمیر کے انتخابی نتائج کے بعد تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اپوزیشن کی بھرپور انتخابی مہم کے بعد بھی ریاست کشمیر کے انتخابی نتائج گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج سے مختلف نہیں آئے۔ گلگت بلتستان میں بھی نشستوں کے اعتبار سے تحریک انصاف پہلے پیپلزپارٹی دوسرے اور ن لیگ تیسرے نمبر پر تھی اور کشمیر میں بھی یہی ترتیب رہی۔ یہ نتائج تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے لیے اطمینان کا باعث بنے وجہ یہ کہ تحریک انصاف نے کشمیر میں پہلی بار حکومت بنائی اور پیپلزپارٹی نے 11 نشستیں جیت کر اپنی کارکردگی کو ناصرف بہتر کیا بلکہ آئندہ عام انتخابات میں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے پرامید ہوگئی۔ رہی بات ن لیگ کی تو یہ انتخابات ن لیگ کے انقلابی بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے۔
کشمیر میں ن لیگ کی شکست پر کہا گیا کہ ن لیگ کا انقلابی بیانیہ نہیں چل سکا جس کی وجہ سے اس قدر مایوس کن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرا کشمیر کی انتخابی مہم سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی غٰیر حاضری بھی موضوع بحث رہی۔ کل ملا کر نتیجہ یہ نکلا کہ ن لیگ کے اندر بحث شروع ہوگئی کہ اگر یہی بیانیہ رہا تو آئندہ عام انتخابات میں بھی کامیابی کے امکانات نا ہونے کے برابر ہیں۔ زرائع کے مطابق منتخب اراکین کی طرف سے شہبازشریف پر دباو بڑھا کہ وہ مفاہمت کے بیانیے کے ساتھ آگے آئیں اور پارٹی کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ مطلب ن میں سے شین نکالی جائے اور مفاہمت کی پالیسی کے تحت نظام کا حصہ بنا جائے۔ ایسے میں ایک بار پھر شہبازشریف مختلف چینلز پر انٹرویو دیتے ہوئے مفاہمت کی بات کرتے نظر آئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ کی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت ہوجائے گی ، تو اس وقت ن لیگ کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رائٹ ونگ کی سیاست کے لیے تحریک انصاف اس کے متبادل کے طورپر موجود ہے اور لیفٹ ونگ کی سیاست پاکستان پیپلزپارٹی پہلے ہی کررہی ہے اب اگر ن لیفٹ کی پوزیشن لیتی ہے تو کیا اس کی جماعت اور ورکر ایک لمبی جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔یہ فیصلہ ن لیگ کو کرنا ہے کہ کیا اس کو اپنی جماعت اور ورکرز کو اس امتحان میں سے گذارنا چاہیے یا نہیں۔ اس ضمن میں شائد شہبازشریف کا موقف حقیقت سے زیادہ قریب ہے کہ مفاہمت ہونی چاہیے اور اسی طرح اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جیسا اس سے قبل جن شرائط کے ساتھ ملتا رہا ہے۔ جبکہ میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی انقلاب لانے کے درپے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ ملک گیر انقلابی تحریک چلانے کی پوزیشن میں ہے۔ سندھ میں ن لیگ کے پاس کیا ہے۔ بلوچستان میں اس کے اہم مہرے پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور کے پی کے میں سوائے مانسہرہ کے پاس تحریک کے لیے بندے دستیاب نہیں ہونے۔ رہی بات پنجاب کی تو جنوبی پنجاب سے یہ ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور سینڑل اور شمالی پنجاب سے ان کو امیدیں وابستہ ہیں تو یہ حلقے کاروباری افراد پر مشتمل ہیں لہذا کچھ ساتھ دیں گے کچھ خاموش ہوجائیں گے۔ مطلب یہ کہ انقلابی تحریک کے لیے بھی حالات سازگار نہیں ہیں۔ لیکن میاں نوازشریف پھر بھی بضد ہیں تو اس کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ موجود حکومت کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ عوام مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت سے پریشان ہیں
میاں نواز شریف کو شائد لگتا ہے کہ ملکی سیاسی حالات کو اسی نہج پر رکھا جائے اور وقت کا انتظار کیا جائے۔ ان کو لگتا ہے کہ حکومت ڈلیور نہیں کرسکتی لہذا عام انتخابات تک کوئی فیصلہ کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے اور دوسری بات یہ کہ اگلے سال آرمی چیف کو دی جانے والی توسیع بھی ختم ہونے والی اس کے بعد نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا مرحلہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی تک اسٹیبلشمنٹ سے کوئی وعدہ نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا سوچنا اس وقت تک ٹھیک تھا جب تک امریکہ نے افغانستان کو نہیں چھوڑا تھا۔ اب حالات یکسر بدل چکے ہیں اس لیئے جو بھی آرمی چیف تعینات ہوا اس کو پہلے سے بھی زیادہ مودب حکمرانوں کی ضرورت ہوگی۔ اور یہ کسی حد تک جائز بھی ہے کہ یہ خطے کے امن کا معاملہ ہے اور اس وقت ایک پیج پر ہونا ازحد ضروری ہوگا۔
لہذا ن لیگ کو بھی مزید دیر کرنے کی بجائے فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ انقلاب کی طرف جائے گی یا میاں شہباز شریف کے مفاہمت کے فارمولے کو اپنائے گی۔ میڈیا زرائع کے مطابق شہبازشریف کو شائد آخری موقع دیا گیا ہے کہ وہ فیصلہ کرلیں کہ کیا کرنا ہے اور زرائع کے مطابق شہباز شریف نے میاں نوازشریف سے بات کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دونوں بھائیوں کی ملاقات جب بھی ہو گفتگو کے بعد حتمی فیصلہ میاں نوازشریف نے ہی کرنا ہے کہ وہ انقلاب کی راہ اپنائیں گے یا مفاہمت کی۔ اگر انقلابی بنتے ہیں تو بہت سے امتحانوں سے گذرنا پڑے گا اور اگر مفاہمت کی راہ لیتے ہیں تو شہبازشریف کے پیچھے چلنا پڑے گا۔
حرف آخر یہ کہ نئے پاکستان میں بھی اختیارات، اقتدار کی تقسیم اور انتقال اقتدار کا طریقہ پرانے پاکستان والا ہی ہوگا۔ سیاسی اشرافیہ جن غلام گردشوں سے گذر کر تخت پر براجمان ہوتی رہی ہے اب بھی انہی راستوں پر انہی شرائط کے ساتھ سفر کرنا ہوگا۔جو مل جائے اس پر قناعت کرنی ہوگی۔جتنا کہا جائے اتنا بولنا ہوگا۔ جہاں تک اجازت دی جائے وہیں تک جانا ہوگا۔ ریڈ لائن کراس نہیں کرنی ہوگی۔ جو ریڈ لائن کراس کرئے گا اس کو بھٹو اور اس کے خاندان کا انجام یاد رکھنا چاہیے۔ اگر پھر بھی میاں نوازشریف کے سر میں سودا سمایا ہے تو ان کو پہلے جاتی عمرہ کی گڑھی خدا بخش کی طرح تزئین وآرائش کرنی ہوگی۔ سندھ کے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کے نقش قدم پر کیا پنجاب کا کوئی لیڈر چل پائے گا؟ اس سوال کے جواب جاننے کے باوجود میں منتظر ہوں اور آپ بھی انتظار کیجئے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...