تخت لاہور کا حصول کیوں ضروری ہے؟
پنجاب میں اب تک کے نتائج کے مطابق ن لیگ واحد اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھری ہے گو اس کی اکثریت بہت تھوڑی نشستوں کی ہے۔ تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں پنجاب حکومت بنانے کے دعوے کر رہی ہیں۔ حکومت ان میں سے کون سی پارٹی بنائے گی اس کا انحصار آزاد منتخب ہونے والے ارکان پر ہے۔ جو پارٹی انھیں پرکشش آفرز کرے گی وہ قومی مفاد میں اس کی حمایت کا اعلان کردیں گے
قیام پاکستان کے فوری بعد ہی تخت لاہورپرکون قابض ہوگا کا تنازعہ شروع ہوگیا تھا۔ تقسیم کے بعد پنجاب کےپہلے وزیر اعلی نواب افتخار حسین ممدوٹ بنے تھے لیکن ممتازدولتانہ پنجاب کے وزارت اعلی اپنا حق سمجھتے تھے اورہرقیمت اور ہر صورت یہ عہدہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کی حمایت ممتاز دولتانہ کو حاصل تھی۔ ممدوٹ دولتانہ کی تخت لاہور پر قبضہ کرنے کی کشمکش اتنی شدید ہوگئی کہ پنجاب اسمبلی کو معطل کرنا پڑا تھا۔ جب پنجاب اسمبلی دوبارہ بحال ہوئی تو ممتاز دولتانہ وزیر اعلی بن گئے۔ ممدوٹ مسلم لیگ کی قیادت سے اتنے ناراض ہوئے تھے کہ انھوں نے اپنی علیحدہ جماعت جناح مسلم لیگ بنالی تھی اور اس پارٹی کے جھنڈے تلے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا۔ پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں پنجاب کو ہمیشہ بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہ اہمیت بنگلہ دیش کے قیام کے بعد دو چند ہوگئی ہے۔ اب تو پنجاب پاکستان کی فیڈریشن کا مدارالمہام بن چکا ہے۔کوئی ریاستی ادارہ ہو یا سیاسی پارٹی جب تک وہ پنجاب کو راضی نہیں کرتی اس وقت وہ وفاق مین حکومت حاصل نہیں کرسکتی اور اگر کبھی اتفاقا اسے اقتدار مل بھی جائے تو وہ ادھورا ہوتا ہے۔ اس لئے ہر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ مرکز میں کامیابی سے حکومت کرنے کے لئے پنجاب حکومت ہونا بہت ضروری ہے
پنجاب حکومت پر قبضہ کی روایت جنرل ضیا کی موت کے بعد فوجی جنرلز نے ڈالی تھی۔ اٹھاسی کے الیکشن میں پیپلز پارٹی پنجاب اسمبلی میں سنگل میجارٹی پارٹی تھی لیکن جنرلز نے نواز شریف کو بے نظیر کے وزیر اعظم کا حلف لینے سے پہلے وزیر اعلی کا حلف دلا دیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ بے نظیر کو زچ کیا جائے اور اسے یہ بتایا جائے کہ وہ تین چوتھائی پاکستان کی وزیراعظم نہیں ہیں۔ یہ پنجاب کی وزارت اعلی ہی تھی جس کے بل پر نواز شریف نے اپنی سیاست اور پارٹی تعمیر کی تھی۔ اب بھی ن لیگ تحریک سے ہر قسم کا سمجھوتہ کرلے گی اگر یہ اسے پنجاب کی حکومت دے دی جائے۔ گذشتہ روز ہونے والی اے پی سی میں شہباز شریف نے جب قومی اسمبلی میں حلف نہ لینے کے مطالبے کو پارٹی قیادت سے مشاورت سے مشروط کیا تو یہ تحریک کو سگنل تھا کہ اگر اسے پنجاب میں حکومت بنانے دی جائے تو وہ ایجی ٹیشن اور دھرنوں کی بجائے پارلیمنٹ کے فورم تک خود کو محدود کرلیں گے۔ جب کہ تحریک انصاف کو اس کا ادراک ہے کہ پنجاب کے بغیر وہ وفاق میں کچھ نہیں کرسکے گی اور وہ پنجاب میں اپنی پارتی بھی تعمیر نہیں کوسکے گی۔اگر ن لیگ کو پنجاب حکومت نہ ملی تو ن لیگ کی پنجاب میں حمایت سکڑ جائے گی اور اس میں گروپنگ کے بھی امکانات ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“