پندرہویں قومی اسمبلی : ارکان کا طبقاتی اور سماجی پس منظر
ترتیب: لیاقت علی ایڈووکیٹ
پاکستان کی پندرہویں قومی اسمبلی کےاراکین نے حلف اٹھا لیا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں اور ان کا سماجی وطبقاتی پس منظر کیا ہے، اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کی بہتری اورخوشحالی ان کی ترجیحات میں شامل بھی ہے یا نہیں۔ قومی اسمبلی میں ارب پتی اراکین کی تعداد آٹھ ہے جن میں سے چار تحریک انصاف ، دو مسلم لیگ اورایک ایک پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔سب سےامیرترین رکن اسمبلی پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ ان کے ڈکلیر شدہ اثاتوں کی مالیت 3.2 بلین روپے ہے۔ 35 اراکین اسمبلی کے خلاف ملک کی مختلف عدالتوں میں فوجداری مقدمات زیر سماعت ہیں۔ان میں 18تحریک انصاف،9مسلم لیگ ،5پاکستان پیپلزپارٹی، ایک ایک متحدہ قومی موومنٹ اوربلوچستان عوامی پارٹی اور ایک آزادحیثیت سے منتخب ہوئے ہیں۔
پشاور کے نورعالم خان جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے جو 3.2 بلین کے اثاثوں کے ساتھ سب سے امیر ترین رکن قومی اسمبلی ہیں جب کہ دوسرے نمبر پر بہاول نگر کے احسان الحق باجوہ ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت0 2.3 بلین ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا شماربھی ارب پتی اراکین اسمبلی میں ہوتا ہے۔ان کے اثاثوں کی مالیت 1.54روپے ہے۔تحریک انصاف کے کراچی سے منتخب ہونے رکن اسمبلی نجیب ہارون 1.32بلین روپے اثاثوں کے مالک ہیں۔ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے بہاول نگرکے رکن قومی اسمبلی نورالحسن تنویربھی ارب پتی کلب کے ممبر ہیں۔ ان کےاثاثوں کی مالیت 1.25بلین ہے۔ تحریک انصاف کے بونیر سے منتخب رکن قومی اسمبلی شیراکبرخان، ڈیرہ اسماعیل خان کے یعقو ب شیخ اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیر اعظم خان کےاثاثوں کی مالیت ایک بلین سے زائد ہے۔ قومی اسمبلی کے پانچ اراکین ایسے ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت املین سے کم ہے ا ن میں دو کا تعلق تحریک انصاف ، مسلم لیگ، ایم۔کیو۔ایم اور پیپلزپارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔ فیصل آباد سے تحریک انصاف کے فرخ حبیب اور ظل ہما،روبینہ خورشید عالم مسلم لیگ ،ایم کیوایم کے حیدر آباد سے منتخب ہونے والے صلاح الدین اور پیپلزپارٹی کی نصیبہ چنہ کا شمار ایسے اراکین اسمبلی میں ہوتا ہے جس کے اثاثے دس لاکھ یا اس سے کم ہیں۔
قومی اسمبلی کے 172 ارکان نے خود کو زراعت پیشہ یا بزنس مین ظاہر کیا ہے صر ف 24ایسے رکن ہیں جنھوں نے خود کو لینڈ لارڈز بتایا ہے اور 32 ارکان نے خود کو کل وقتی سیاست دان، پارلیمنٹرین اور سماجی کارکن ظاہر کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پروفیشنل کی تعداد انتہائی کم ہے ۔صرف 13ارکان میڈیکل ڈاکٹرز ہیں جب کہ 14 خواتین ارکان اسمبلی کے مطابق وہ ان کا پیشہ امور خانہ داری ہے۔ پانچ خواتین ارکان اسمبلی کے پاس ایم فل اور پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگریاں ہیں جب کہ صرف ایک مرد رکن اسمبلی ایسا ہے جس کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے۔
قومی اسمبلی کی کمپوزیشن سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک ہماری سیاست پر فیوڈل اور نیم ٖفیوڈل سیاسی عناصر کا غلبہ ہے۔ کم از کم 172 ارکان قومی اسمبلی وزیراعظم کو منتخب ہونے کے لئے درکار ہوتے ہیں اور 172 ارکان نے اپنے فارم Bمیں خو د کو زراعت پیشہ ظاہر کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس اگر ہزاروں ایکڑ نہیں تو سینکڑوں ایکڑ زرعی اراضی موجود ہے جس پر وہ کاشتکاری کرتے ہیں اور ظاہر ہے وہ اپنے ہاتھ سے تو زراعت کرنے سے تو ر ہے اس کے لئے لازم وہ مزارعوں سے زراعت کراتے ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ارکان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔لہذا اس قومی اسمبلی سے کسی ایسی قانون سازی کی توقع عبث ہے جو عوام کے حق میں اور عوام کے لئے ہو ۔ نو منتخب قومی اسمبلی کی اکثریت دیہی اشرافیہ ، جاگیرداروں اور جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ہے جن کی ترجیحات میں عوام کی خوشحالی اور بہتری شامل نہیں ہے۔**
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“