آج پھر چھوٹی کے پیٹ میں درد تھا نصیبوں ماری فجر سے یوں تڑپ رہئی جیسے سولہ ماترہ پر ناچے ۔ جب سے سولہ برس کی ہئوئی تبہی سے شامت سی آرکھی اُس اور مجھ کرموں جلی کی قسمت میں ۔
باپ آتا جاتا کہے تیرۓ واسطے تگڑا گاہک تلاش کر رہا ہئوں , بھائی الگ دانت گاڑھے بیٹھا کب چھوٹی نتھ اُتارۓ اور اُس کا نشہ پانی چلے .
چھوٹی درد سے تڑپی اور ہاۓ ہاۓ کرتی میرۓ پاس چلی آئی , گود میں سر دیا اور ڈرتے ڈرتے بولی اماں دائی پاس جانا پڑۓ گا کیا ۔ اور میں اداسی میں بھی زور سے ہنس دی ارے میری چندا ابھی کیوں ابھی تو تیری نتھ نہ اُتری , وہ بولی پچھلے مہینے جب باجی کو پیٹ میں درد ہئوا تو وہ دائی حضورآں پاس ہئی گئی تھی نا ۔ اور پھر گھر سے بھاگ گئی ۔
اماں چھوٹی لاڈ سے بولی , میں کھوٹھے پر نہیں بیٹھوں گی مجھے پڑھنا ہئے جیسے تیزاب احاطہ والیاں سکول جاتیں ہیں ۔ میں استانی بنوں گی ۔ اور ماں نے فٹ سے اُسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ اُسکا باپ یا بھائی سُن نہ لے , جو اندر افیون کی گولی کھا کر پڑا تھا ۔
آج چھوٹی کا باپ خوش تھا اور بار بار بیوی کو بول رہا تھ کہ شام ڈھلے چھوٹی کو تیار کر دۓ بلکہ اسے بلو بیوئی پارلر سے تیار کروا ۔ چھوئی کی نتھ اُتارنے پتجاب کا بڑا سیاستدان آ رہا تھا ۔
اِدھر چھوٹی کا بھائی ہئواوں میں اُڑ رہا تھا کہ یہ اسامی اگر ایک برس بھی چھوٹی سنگ نکال گئی تو بڑی کے بھاگنے کا سارا نقصان پورا ہئو جاۓ گا اور افیون مفت میں ۔کہ ٹھیکہ اِسی اسامی کا تھا ۔
اماں پھٹی آنکھوں اور تیز چلتی سانسوں سے باولی ہئوئی گھوم رہئی اُسے سمجھ نہیں آ رہئی کہ اپنی چھوٹی کو کیسے بچاۓ ان جانوروں سے . ارے ابھی تو وہ صرف سولہ سال کی ہئے ابھی تو وہ خود گڑیا سے کھیلے ہئے ۔ سساتھ ہئی من میں چھوٹی کو کوسے کیوں ایسا دودھ جیسا رنگ اور غزال جیسی آنکھیں لے کر جنی ۔ سارۓ نقش جیسے تیز کٹار ۔ ۔ ۔ ۔
اور ماں کے دماغ میں اک لفظ لگا گھومنے کٹار ۔ ۔ کٹار
دوںہر کا وقت تھا اور جمعہ مبارک کا دن ,
چھوثی کا باپ گولی کے نشے اور بھائی افیون کے نشہ میں پڑے تھے ۔ اماں نے جمعہ کی ازان کا اتظار کیا اور جا کمرہ میں تیز کٹار سے دو گلے کاٹ ڈالے ۔ اور سکون سے کمرہ کا دروازہ بند کر روتی چھوٹی کے پاس آ کر اسے سینے سے لگا دلاسہ دینے لگی ۔
اماں کو کوتوال لے گیا اور چھوٹی کو جو اب صرف زمرد تھی (چھوٹی تو صرف اماں واسطے تھی ) کو محلے کے اک دلال محمود عرف مودا کنجر نے اپنی سر پرستی میں لے لیا ۔ جیسا ہیرا منڈی کا رواج تھا ۔
مودا نیا نیا بدمعاش بنا تھا لہور ہیرا منڈی کا , جس کا دل آ لیا چھوٹی زمرد پر ۔
زمرد نے کہا وہ سکول حاۓ گی مودے نے اسے سکول ڈال دیا ۔ زمرد نے پیر مکی سکول سے میڑک کیا اور راوی روڈ گرلز کالج سے ایف اے اور بی اے لاھور کالج سے ۔
اب چھوٹی زمرد اپنے کوٹھے پر پردان بن بیٹھنے لگی ۔ اماں گھر آچکی تھی ۔ اور حج کو جانا چاہتی تھی ۔
زمرد اب زمرد بائی کہلانے لگی ۔
مودے سے اسکا پیار نہیں عشق جنون تھا مگر شادی سے انکار تھا ۔ مودا بھی خاموش تھا کہ چلو دیکھتے ہیں ۔
زمرد بائی نے محلے کی بچیوں سکول بہجنا شروع کیا لڑکوں کو کوئی ہنر واسطے ادھر اُدھر کوشیش کری ۔ اس نے مودے سے دلالی چھڑوا دی ۔ خود وہ ڈیرے دارنی تھی اب صرف مجرا ہوتا اور دوکانوں سے کرایہ پر گزاوہ ۔
زمرد بائی نے اپنے رشتے کے بھائی کو پان کی دوکان کروا دی (المشہور شاہئی پان ) اک لے پالک بیٹی کی شادی فضل عرف پھجا پاویاں والے کے بھتیحے سے کروائی ۔ بالی (ہمارے استاد اقبال حسین آرٹسٹ) کو پڑھنے میں مدد کی ۔ ڈاکٹر شکیلا (زچہ و بچہ) ہیڈ سروس ہسپتال اور کئی استاد , فلم ایکڑیس جسے نادرہ , گوری , مشہور طبلہ وادک استاد شکور ۔ ۔ ۔ کو آگے بڑھنے میں مدد کی ماں کو حج کروایا مودا ساتھ گیا ۔
مرتے وقت زمرد بائی کی وصیحت تھی کہ اسے مودے کے پیندی(پاوں میں ) دفن کرا جاے ۔ سارے لاہئور کی زمرد بائی اور میری زمرد آپا ۔ ۔ ۔
آج اُن کی برسی ہئے اور اک ناستک اور دہریہ ہئونے باوجود آج میں نے آپا واسطے ان کے رب سے ان کی بخشیش کی دعا کی ۔
یادآں ملاں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“