مغل بادشاہ جو کہ وسط ایشیاء کے ٹھنڈے علاقوں اور برفانی ماحول سے ہندوستان کے گرم علاقے میں آئے تھے اپنے وطن کی ٹھنڈک اور برف کو یاد کرتے تھے۔ مغلِ اعظم شہنشاہ جلال الدین اکبر کے شاہی باورچی نے دودھ کو گرم کر کے گاڑھا کیا اور اس میں چینی ملا کر برف جیسی سفید مٹھائی تیار کی اور اسے برفی کا نام دیا۔ یہ مٹھائی اکبر اعظم کو بہت پسند آئی اور اکبر اعظم سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک سب مغل بادشاہوں کے دسترخوان پر کھانے کے بعد منہ میٹھا کرنے کے لیے پیش کی جاتی تھی۔ شروع شروع میں یہ مٹھائی شاہی خاندان کے لیے مخصوص رہی۔ بعد میں عام لوگوں نے بھی اسے بنانا شروع کر دیا۔ لیکن شاہی خاندان کی مخصوص مٹھائی ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت عام مٹھائیوں سے زیادہ ہی رہی۔ اگر یقین نہیں آتا تو مٹھائی کی کسی بھی دکان پر جا کر برفی کی قیمت پوچھ لیں 50 سے 100 روپے فی کلو گرام کا فرق لازمی ہو گا۔
برفی کے بنیادی اجزاء دودھ اور چینی ہیں۔ لیکن بادشاہ اپنی پسند کے مطابق اس میں دیسی گھی، خشک میوہ جات، ادویات، کشتہ جات، زعفران، مشک، عنبر اور سونے چاندی کے ورق ڈالتے تھے۔
سنا ہے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اس کے شاہی حکیم نے کہا تھا کہ جو چیز بھی کھانی ہے سونے کے ورق میں لپیٹ کر کھانی ہے۔ بادشاہ سلامت حکیم کے مشورے پر عمل کرتے تھے۔ اس کا فائدہ بادشاہ کو ہوا یا نہیں ہمیں نہیں معلوم لیکن شاہی چوہڑا (بیت الخلا صاف کرنے والا) وہ سونے کے ورق بیچ بیچ کر امیر ہو گیا تھا۔