وہ جو کہتے ہیں نا کہ:
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
تو یہ شعر صادق آتا ہے حیدر آباد دکن پر، جس کا ذکر آتے ہی بھاگ متی، قلی قطب شاہ اور ’’چار مینار‘‘۔ نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ ایسے میں بھلا اس شاعر کو کون بھول سکتا ہے، جو خود حیدرآباد دکن کی پہچان ہے یعنی ترقی پسند شاعر مخدوم محی الدین۔
مخدوم نے 4 فروری 1908ء کو حیدر آباد دکن کے ایک غریب گھرانے میں جنم لیا۔ یہ تلنگانہ کا ضلع میدک تھا۔ باپ دادا مفلسی کی زندگی جی رہے تھے، مسجد ہی میں درس دیا کرتے تھے اور وہیں رہائش پذیر تھے۔
ان کا پورا نام ابو سعید محمد مخدوم محی الدین تھا چونکہ بچپن ہی سے غربت اور طبقاتی کشمکش دیکھی تھی اس لیے ہوش سنبھالنے تک وہ خاصے باغی ہو چکے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک طبقہ اتنا امیر کہ اسے اپنی دولت کا بھی اندازہ نہیں اور دوسری طرف وہ غریب طبقہ جس کے لیے دو وقت کی روٹی بھی مشکل۔ وہ بہت حساس تھے۔ چونکہ ان کے اندر ایک شاعر چھپا تھا اس لیے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے انھوں نے شاعری کا انتخاب کیا۔طبقاتی احساس محرومی بڑا بھیانک ہوتا ہے۔ جو لوگ قتل اور دیگر جرائم میں پکڑے جاتے ہیں ان کا پس منظر جانچیے تو بنیاد یہی غربت و افلاس نکلے گا۔
آج کل دہشتگرد تنظیمیں اسی نکتے کو ذہن میں رکھ کر غریب اور پسماندہ بستیوں کے نوجوانوں کے جذبات کو ابھار کر ان کے ہاتھوں میں بندوق اور پستول تھما دیتی ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ’’جو نہیں ملا وہ چھین لو۔‘‘ لیکن مخدوم کو یہ غربت بائیں بازو والوں تک لے آئی۔
مخدوم کا شعری سفر 35 سال پہ محیط ہے۔ وہ زود گو شاعر نہیں تھے، بلکہ اچھے شاعر تھے۔ ان کے صرف تین شعری مجموعے شایع ہوئے پہلا ’سرخ سویرا‘ دوسرا ’گل تر‘ اور تیسرا ’بساط رقص‘۔
مخدوم بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہیں، لیکن جو غزلیں کہی ہیں خوب کہی ہیں۔
ان کی غزلوں کی تعداد کم و بیش بائیس ہے۔ فلم ’’بازار‘‘ میں ان کی ایک نظم جو اداکار فاروق شیخ پر فلمائی گئی تھی، ایک بھرپور تاثر رکھتی ہے۔ شہریار کی موسیقی میں یہ کہانی کا حصہ لگتی ہے۔ جنھوں نے یہ دل کو چھو لینے والی فلم دیکھی ہے۔ انھیں یاد ہو گا کہ فاروق شیخ نے، جو خود بھی حیدرآبادی تھے، اپنی اداکاری سے اس میں جان ڈال دی تھی:
پھر چھڑی رات‘ بات پھولوں کی
رات ہے یا برات‘ پھولوں کی
پھول کے ہار پھول کے گجرے
شام پھولوں کی‘ رات پھولوں کی
آپ کا ساتھ‘ ساتھ پھولوں کا
آپ کی بات‘ بات پھولوں کی
پھول کھلتے رہیں گے دنیا میں
روز نکلے گی‘ بات پھولوں کی
یہ مہکتی ہوئی غزل مخدوم
جیسے صحرا میں رات پھولوں کی
شاید دل دکھتا ہے تبھی ایسے شعر نکلتے ہیں جو دلوں پہ اثر کرتے ہیں۔ مبارک بیگم کی گائی ہوئی یہ غزل بھی مخدوم ہی کی ہے، جو مبارک بیگم کی پہچان بھی بنی۔ آج بھی جب یہ گیت سنا جاتا ہے تو دل درد کے احساس سے بھر جاتا ہے:
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشم نم مسکراتی رہی رات بھر
رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو ٹمٹماتی رہی رات بھر
یاد کے چاند دل میں اترتے رہے
چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر
کوئی دیوانہ گلیوں میں پھرتا رہا
کوئی آواز آتی رہی رات بھر
مخدوم کی ایک بہت ہی اچھی نظم ’’چارہ گر‘‘ کو بھی کسی فلم میں لتا اور طلعت محمود کی آواز میں شامل کیا گیا ہے۔ اس نظم کے سادہ الفاظ محبت کی ایسی کہانی سناتے ہیں جو مذہب، رنگ، نسل سے بالا تر صرف انسانیت کا نغمہ ہے اور یہی انسانیت ’’محبت‘‘ کہلاتی ہے۔
اک چنبیلی کے منڈوے تلے
میکدے سے ذرا دور اس موڑ پر
دو بدن
پیار کی آگ میں جل گئے
پیار حرفِ وفا
پیار اُن کا خدا
پیار اُن کی چتا
مسجدوں کے مناروں نے دیکھا اُنھیں
مندروں کے کواڑوں نے دیکھا اُنھیں
میکدے کی درازوں نے دیکھا اُنھیں
یہ بتا چارہ گر
تیری زنبیل میں
کچھ علاج مداوائے الفت بھی ہے
نسخۂ کیمیائے محبت بھی ہے
اک چنبیلی کے منڈولے تلے
دو بدن‘ پیار کی آگ میں جل گئے
’’بھاگ متی‘‘ قلی قطب شاہ کی ملکہ تھی جس کا خطاب بعد میں حیدر محل ہو گیا۔ حیدر آباد شہر کا نام اسی کے نام پر رکھا گیا۔ ملا وجہی نے مثنوی ’’قطب مشتری‘‘ میں انھی دونوں کی داستان بیان کی ہے۔ کہتے ہیں پہلے حیدرآباد کا نام ’’بھاگ نگر‘‘ تھا بعد میں حیدرآباد ہوا۔ مخدوم نے بھی ایک دل گداز نظم ’’بھاگ متی‘‘ کے نام سے لکھی:
پیار سے آنکھ بھر آتی ہے‘ کنول کھلتے ہیں
جب کبھی لب پہ ترا نام وفا آتا ہے
دشت کی رات میں بارات یہیں سے نکلی
راگ کی رنگ کی برسات یہیں سے نکلی
انقلابات کی ہر بات یہیں سے نکلی
گنگناتی ہوئی ہر بات یہیں سے نکلی
دھن کی گھنگھور گھٹائیں ہیں نہ ہنکے بادل
آج بھی جسم کے انبار ہیں بازاروں میں
خواجۂ شہر ہے یوسف کے خریداروں میں
شہر باقی ہے محبت کا نشاں باقی ہے
دلبری باقی ہے‘ دل داریٔ جاں باقی ہے
سر فہرست نگارانِ جہاں باقی ہے
تُو نہیں ہے تری چشم نگراں باقی ہے
مخدوم کی نظموں میں ’’طور۔ قید۔ انتظار۔ باغی۔ سناٹا۔ وصال۔ رات کے بارہ بجے۔ آزادی وطن اور غالب‘‘ ایک الگ انداز کی منفرد نظمیں ہیں۔ اسی طرح غزلوں میں بھی زبان کی سادگی جلوہ گر ہے۔ انھوں نے سادہ مضمون کے لیے سادہ الفاظ استعمال کیے ۔جو نظم انھوں نے ’’غالب‘‘ کے عنوان سے کہی ہے اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
تم جو آ جاؤ آج دلی میں
خود کو پاؤ گے اجنبی کی طرح
تم پھرو گے بھٹکتے رستوں میں
ایک بے چہرہ زندگی کی طرح
وہ زباں جس کا نام ہے اُردو
اُٹھ نہ جائے کہیں خوشی کی طرح
مخدوم کا یہ شعر ضرب المثل بن چکا ہے ۔
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
مخدوم 25 اگست 1969ء میں 61 سال کی عمر میں حیدرآباد دکن میں وفات پا گئے اور وہیں مدفون ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کےانگار کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے
ہجر میں ملنے شبِ ماہ کے غم آئے ہیں
چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے
کوئی جلتا ہی نہیں ، کوئی پگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ ، پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے
چشم و رخسار کے اذکار کو جاری رکھو
پیار کے نغمے دہراؤ کہ کچھ رات کٹے
آج ہو جانے دو ہر اک کو بدمست و خراب
آج اک ایک کو پلواؤ کہ کچھ رات کٹے
کوہِ غم اور گراں ، اور گراں ، اور گراں
غم زد و تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود