کین سارو ویوا ۱۰ اکتوبر ۱۹۴۶ کو نائجیریا میں پیدا ہوئے ۔ وہ ناول،نگار،افسانہ نویس ،صحافی اور ٹی وی پروڈیوسر ہونے کے علاوہ ،فعال سماجی و سیاسی کارکن اورکامیاب بزنس مین بھی تھے۔انہیں ۱۰ نومبر ۱۹۹۵ کو چار اوگنی سرداروں کے مبینہ قتل کے جرم میں نائجیریا کی فوجی عدالت کے ذریعہ پھانسی کی سزا دی گئی جس پر عالمی حلقوں میں شدید احتجا ج کیا گیا۔زیرنظر افسانہ The New Beggars ان کی وفات کے بعد شائع ہوا تھا جسے ہم آپ کے ذوق کی نذر کرتے ہوئے خوشی محسوس کررہے ہیں۔سارو ویوا،حیات اور ان کی تخلیقات سے متعلق مواد نیٹ پر دستیاب ہے جہاں سے آپ مزید استفادہ کرسکتے ہیں۔ (انتظامیہ مطالعات)
نئے بھکاری
تحریر: کین سارو ویوا (Ken Saro-Wiwa)
ترجمہ: قاسم ندیم
بینر: محمد زبیرمظہر پنوار
کہتے ہیں،وقت نے ہی انسان کو بھکاری بنایا ہے۔آس پاس کی گلیوں،نکڑّوں یا آمدو رفت کے وقت قطاروں میں اپنی پژمردہ ہتھیلیوں میں بھیک کا کٹورا لٹکائے بھکاری تو آپ نے دیکھے ہی ہوں گے۔ ان کی ایک جماعت آج کل دفتروں یا ہوائی اڈوں کے لانجوںمیں بھی داخل ہوگئی ہے۔یہ صاف ستھرے اور اچھے خاصے دکھائی دیتے ہیں۔ ہاں ان کی خالی جیبیں مدد کے لئے دعاؤں سے ضرور بھری ہوتی ہیں۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ لوگ اپنیی سوچ کےپرندوں کو کاغذ پر اتارنے کا فن جانتے تو کتنے کامیاب افسانہ نگار بن جاتے۔کسی مشہور ماہر نفسیات کی طرح انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس بھیڑ میں کونسا شخص کچھ دے سکتا ہے۔
اس روز اپنا جہاز پکڑنے کے لئے میں وقت سےقبل ہی ہوائی اڈے پر پہنچ گیا تھا لیکن وہاں پتہ چلا کہ اڑان معطل کردی گئی ہے۔شاید اڑان بھرنے میں کافی وقت لگے گا۔میں نے سوچا، کچھ سیرو تفریح ہوجائے۔ہوائی اڈے کے لانج میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔وہاں آئےسبھی مرد اور خواتین اپنی اپنی گفتگو میں کھوئے ہوئے تھے۔اوپر سے لاؤڈاسپیکروں کا بے سرا سنگیت کان کے پردے پھاڑ رہا تھا۔ کوئی وہاں کتابیں فروخت کرنے میں لگا ہوا تھا تو کوئی جوتے پالش کروانے کے لئے کہہ رہا تھا۔
میں اپنی دُھن میں مگن بیٹھا تھا۔مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میرے سامنےکون آبیٹھا ہے لیکن جب اس نے کھنکھارا یا کھنکھارنے کی کوشش کی تب میرا دھیان اس کی طرف گیا۔
’’میرا نام لینڈا ہے۔‘‘ا س نے بے جھجھک تعارف کےلئے اپنا سیدھا ہاتھ بڑھا کرکہا۔میں نے بے دلی سے اپنا ہاتھ بڑھے ہوئے ہاتھ کی طرف بڑھا دیا۔وہ ایک بار پھر کھانس پڑا اور خر۔۔۔۔۔خر۔۔۔کرتا رہا۔ میں نے دھیان سے دیکھا،اس کے بائیں ہاتھ میں ایک پارسل تھا۔
’’معاف کرنا بھائی ۔۔۔۔مجھے پچھلے پندرہ سال سے چھاتی میں درد رہتا ہے۔‘‘وہ بولا۔
’’تب تو تمہیں کسی ڈاکٹر کو دکھانا چاہئے۔‘‘ میں نے ہمدردی جتائی۔
’’کیا کہوں صاحب،بہت دکھایا۔ بیسیوں کو دکھایا۔کتنے ہی اسپتالوں کا پانی پی چکا ہوں۔‘‘
میں نے سوچا، اس نے کم از کم دو تین ڈاکٹروں کو تو دکھایا ہی ہوگا۔
’’اور مززے دار بات تو یہ ہے کہ اسپتالوں کی بڑی بڑی مشینوں کو بھی میرے سینے میں کچھ بھی گڑبڑ نظر نہیں آتی ہے۔‘‘
’’پھر تو آپ کو شاید بیماری نہیں ہے۔‘‘میں نے یہ سوچ کر کہا کہ ہوسکتا ہے اسے کوئی وہم ہی ہو۔
’’مجھے ایک چینی ڈاکٹر سے علاج کروانے کا مشورہ بھی دیا گیا۔ میں اس کے پاس گیا بھی۔اس نے اپنی سوئیوں سے میرے سینے اور بازؤں کو چھلنی کردیالیکن بیماری کا ذرا بھی علاج نہیں کرپایا۔ تھک ہار کر میں ایک جھاڑ پھونک کرنے والے بابا کے پاس گیا۔‘‘
’’اور اس سے بھی آپ کا علان نہ ہوسکا؟‘‘
’’آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس سے کیا ہوا؟‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر سے کھانسا اور ہنسنے لگا۔’’اس سے کیا ہوا ۔‘‘ اس کا جواب پانے کے لئے میں بے شک بے تاب ہوگیا ۔میری پرواز میں کتنی دیر ہے اس کا مجھے خیال ہی نہیں آیا۔پہلی بار میں نے لینڈا پر بھرپور نظر ڈالی۔اس کا قد چھوٹا اور چہرہ ستا ہوا تھا۔سر کے بال بے ترتیبی سے گتھے پڑےتھے۔چہرے کی داڑھی میں تانبئی رنگ گھلنے لگا تھا۔ستے ہوئے چہرے پر چھوٹی چھوٹی آنکھیں اندر دھنسی لگ رہی تھیں۔قمیص کا کالر تو گندہ تھا ہی،پسینے کےسبب وہ بھیگا ہوا بھی تھا۔
’’میں آپ کو بتاؤں،پچھلے دس برسوں میں کم سے کم نوّے باباؤں سے تو مل ہی چکا ہوں۔ان میں سے جو مجھے سب سے مزے دار لگا وہ سرحد کے اس پار رہتا تھا۔ٹوگو جمہوریہ کا وہ بہت نامی گرامی شخص تھا۔نام تھا،پھگامنڈولی۔ میں اور ماں جب اس سے ملنے اس کے گاؤں پہنچے تو پورے چوبیس گھنٹے تک ہمیں باہر انتظار کروایا گیا۔
’’کیوں؟ کیوں؟‘‘
’’ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب تک پی کر وہ پوری طرح دھت نہیں ہو جائے گا،ہمیں نہیں دیکھے گا۔‘‘
’’لیکن ایسا کیوں کرتا تھا وہ؟‘‘
’’کہا جاتا تھا کہ اس کی طلسمی طاقت تب تک نہیں جاگتی جب تک کہ وہ ہوش و حواس میں رہتا تھا۔ خیر جی! ہم کیا کرسکتے تھے۔گاؤں کے باہر ڈیرہ ڈالےپڑے رہے۔ بہ مشکل رات کٹی۔اگلے دن صبح ہوئی ، لیکن بے کار گئی۔قریب شام میں ہمیں اس کے پاس جانے دیا گیا۔وہ سامنے کرسی پر بیٹھا کوئی مقامی بیئر پینے میں مصروف تھا۔پیچھے کھڑے اس کے چیلے چپاٹے ایک بڑےسے نقارے کو پیٹنے میں لگے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے اپنے سامنے بیٹھنے کے لئے کہا۔میں جیسے ہی اٹھا۔ ایک بھرپور ڈکار اس نے میرے منہ پر انڈیل دی۔
میں نے جب اپنا مرض بتایا تو اس نے ایک گائے کی دم سے میرا سر پکڑ لیا۔گائے کی ایک اور دم کا سرا میرے سینے پر رکھ کر پھر سے ڈکار لی اور بولا،لڑکے ،ترے گاؤں کے کسی جادوگر نے تجھ پر کالا جادو کر رکھا ہے۔ اس کی آوز میں فکر تھی۔مجھے اس کی بات پر فورا یقین آگیا۔میں نے اب تک اتنے سارے حکیموں اور ڈاکٹروں کو دکھایا تھا لیکن اس طرح کی بات کسی نے نہیں بتائی تھی ۔ نہ تو چینی اور نہ ہی یوروپی طریقۂ علاج سے میرا علاج ہوسکا تھا۔لہٰذا مجھے اس پر اعتبار کرنا پڑا۔ یا یوں کہوں کہ اپنی تندرستی کی خاطر مجھے اس میں امید کی ایک کرن نظرآنے لگی تھی۔تمہارے گھر کی چھت میں کسی انسان کا گوشت رکھا ہوا ہے۔۔اگر تمہارا علاج مکمل طریقے سے کرنا ہے تو مجھے جاکر اسے ہٹانا پڑے گا۔۔۔۔۔اس نے آگے کہا۔‘‘
سچ کہتا ہوں،مجھے اس کی کہانی میں اتنا مز ہ آنے لگا کہ میں اپنی پرواز میں مزید تاخیر کی دعا کرنے لگا۔ وہا ں لانج میں ہورہے شور شرابے کی مجھے خبر ہی نہیں تھی۔
اس کے بعد لینڈا نے اپنے ہاتھ میں رکھے پارسل سے ایک فوٹو میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا’’ یہ اس روز کا فوٹو ہے جب میں پھگامنڈولی سے اس کے گاؤں میں پہلی بار ملا تھا۔‘‘
میں نے اس تصویر کو دیکھا۔اس میں ایک موٹا سا بوڑھا تھا، جس کی اچھی خاصی داڑھی ،مونچھیں تھیں۔اس نے عجیب کپڑے پہن رکھے تھے۔آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں۔ ساتھ میں بیئر کی کھلی بوتل رکھی تھی۔ہاتھ میں بالوں کی جھاڑو پکڑ رکھی تھی۔ میں ابھی تصویر کو دیکھ ہی رہا تھا کہ لینڈا نے اپنی کہانی آگے بڑھائی’’اس کے بعد ایک ڈیڑھ دن کے سفر کے بعد ہم سب اپنے گاؤں آئے۔جیسے ہی گھر پہنچے پھگامنڈولی میرے گھر کی چھت سے کچھ تلاش کرنے میں لگ گیا۔ وہاں سے ایک پوٹلی نکال کراور مجھے دکھاکر اس نے کہا کہ یہی ہے وہ انسانی گوشت جو کسی جادوگر نے تیرے یہاں چھپا کرتجھ پر جادوکیا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنےہی اس نے اسے کھانا شروع کردیا اس کا ایک ٹکڑا مجھے بھی پیش کرنے لگا مگر ہمت کہاں تھی اسے کھانے کی ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس گوشت کے ٹکڑے کے نمونے کو میں اپنے پاس رکھ سکتا ہوں۔اس نے اجازت دے دی۔پھر اس نے کہا کہ اس جادو کے اثر کو ختم کرنے کے لئے وہ اپنی طاقت سے کسی جادوگر کو بلائے گا جو اپنے جادو سے سب کچھ ٹھیک کردے گا۔
اس کے بعد وہ میرے گھر میں ٹھہر گیااور ٹنوں کے حساب سے بیئر پینے لگا۔تین دن یونہی نکل جانے کےبعد اس نے بتایا کہ اس نے جادوگر کو آنے کا حکم دے دیا ہےاور وہ اسی رات پہنچنے والا ہے۔ اس رات ناچتا گاتا ایک جادوگر وارد بھی ہوگیا۔اس کے دونوں بازو تعویذوں سے بھرے ہوئے تھے ۔اسےے دیکھ کر میرے تو چھکے چھوٹنے لگے تھے۔
میرے پاس آتے ہی اس نے تعویذوں کا ایک پلندہ مجھے تھمادیا۔ایسا لگا جیسے وہ مجھے پہلے سے جانتا ہے۔میری تو بولتی بند ہوگئی ۔ وہ ہمارے گاؤں کا باشندہ نہیں تھا اور اپنے پورے ہوش و حواس میں میں نے اسے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔پھر اس نے مجھ پر بھروسہ کیوں کیا؟ میں قائل ہوگیا کہ یہ شخص یقیناً جادوئی طاقتوں کو اپنےقابو میں کئے ہوئے ہے۔
اس رات جب وہ گاؤں میں سب کے سامنے ناچا تھا،اس کا فوٹو میرے پاس ہے۔ یہ لو۔ لینڈا نےے اتنا کہا اور ایک فوٹو مجھے تھمادیا اس سے پہلے میں نے کسی جادوگر کو نہیں دیکھا تھا۔فوٹو دیکھ کر مجھے مزہ آیا۔
’’کہیں میں آپ کا وقت تو برباد نہیں کر رہا ہوں؟‘‘ لینڈا نے پوچھا۔
’’قطعی نہیں۔۔۔۔۔پرواز معطل ہوگئی اور تمہاری داستان تو مجھے خوب دلچسپ لگ رہی ہے۔‘‘
’’جادوگر نے جب وہ تعویذ مجھے تھمادیئے تو پھگامنڈولی نے چیخ کر کہا ،فنگو شروع ہوجا۔اس کی آواز سے میں سمجھ گیا کہ اس کا نام فنگو ہے۔فنگو نے کئی چاٹے میرے منہ پر رسید کئے۔پھر میرے سینے پر بھی وار کیا۔اس کے بعد کئی تعویذ میرے گلے میں ڈال کر بتایا کہ اب میرا علاج ہوگیا ہے۔مجھے اطمینان ہوا کہ چلو اب بیماری سے نجات ملی۔میں نے خوشی خوشی اسے دس ہزار نیرا (نائجیریا کا پیسہ) اور ایک ریڈیو دے دیا۔حالانکہ اس چکر میں میری ابھی تک کی جمع پونجی تو لگ ہی چکی تھی۔ایک دو کھیت اور تمام مویشی بھی فروخت کرنے پڑے۔
پھگامنڈولی اور فنگو کی خبر پورے گاؤں میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔اب جو بھی بیمار تھا یا کالے جادو کا شکار تھا ان کے پاس جانے لگے۔پھگامنڈولی دن بہ دن امیر ہونے لگا۔ہر ایک بیمار سے وہ ایک گائے اور تین ہزار نیرا وصول کرتا ۔
گاؤں کے ایک آدمی کجابوگا نے اس کی فیس نہ دیئے جانے کی وجہ سے اپنی ہی بیٹی اسے نذر کردی ۔چارہ گر نے خوشی خوشی شادی کرلی۔ایک بیمار نے رقم ادا نہ کئے جانے کے عوض اپنا بیل اسے پیش کردیا۔وہ بیل اتنا خوبصورت تھا کہ اس پر پھگامنڈولی کے نئے نئے خسر کا دل آگیااور اس نے ایک گائے دے کر اس سے بیل کا تبادلہ کرلیا۔
جب تک وہ گاؤں میں رہااس نے جم کر عیش کیا۔جتنےبھی جانور اسے اپنی فیس میں ملے تھے سبھی چٹ کر ڈالے۔ساتھ ہی جم کر بیئر بھی پیتا تھا۔اس کی شہرت آس پاس کے علاقے میں بھی ہونے لگی۔اور دوسرے گاؤں والے بھی اب اسے علا ج کے لئے بلانے لگے۔
ادھر میری طبیعت میں انیس بیس کا بھی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔میرے سینے کا درد قائم تھاگاؤں کے دوسرے مریضوں کا بھی یہی خیال تھا۔ اوگیما تو بے قابو ہوگیا تھا کیوں کہ اس کا مرض تو گیا نہیں الٹا اسے اپنا پیارا بیل گنوانا پڑا۔اس کے خاندان والے سیدھا پھگامنڈولی سے بیل مانگنے چلے گئے لیکن اس نے انہیں دو ٹوک بول دیا کہ بیل تو وہ کب کا ہضم کرچکا ہے۔اس لئے لوٹانے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔دھیرے دھیرے دونوں طرف سے رسہ کشی شروع ہوگئی ۔یہ دیکھ کر پھگامنڈولی دوسرے گاؤں کوچ کرگیا۔اس موڑ پر آکر لینڈا نے لمبی سانس لی اور ایک فوٹو میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔’’ یہ اس بیل کیی تصویر ہے جسے اوگیما نے پھگامنڈولی کو دیا تھا۔‘‘
میں نے تصویر کو بغور دیکھا۔ بیل واقعی اچھا تھا۔تھوڑی دیر لینڈا چپ کھڑا رہا۔ اسے شائد اچھا لگ رہا تھا کہ میں اس تصویر کو پوری دل جمعی سے دیکھ رہا تھا۔
’’جب اوگیما کے خاندان والوں کو پتہ چلا کہ ان کے ساتھ فریب ہوا ہےتو وہ سیدھے محکمۂ جرم پہنچے، اور پھگامنڈولی کے خلاف رپورٹ درج کرادی۔محکمے کے دو افسروں نے اسے ایک پڑوسی گاؤں میں پکڑلیا۔ان میں سے ایک کا نام بنگو اوردوسرے کا لُنگا تھا۔ وہ پھگا کے سامنے ایسے پیش ہوئے جیسے اس کی قابلیت کے قائل ہوں۔
اور ایک بار پھر وہی کہانی دہرائی جانے لگی جو میرے ساتھ ہوچکی تھی۔یعنی اس نے ان کی چھتوں سے انسانی گوشت ہٹانے کی پیش کش کی ۔سب کے سامنے پھر وہ اسے کھانے بھی لگا۔
’’کیا یہ آدمی کا گوشت پھگامنڈولی؟‘‘ بنگو نے پوچھا۔
’’اور نہیں تو کیا؟‘‘
’’اس کا مطلب ہے تم آدمی کا گوشت کھاتے ہو؟‘‘ یہ سوال لنگا کا تھا۔
’’ہاں،ہاں بھائی،اپنے مریضوں کے لئے یہ سب کرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’لیکن یہ انسانی گوشت تم لاتے کہاں سے ہو؟‘‘ بنگو نے پوچھا۔
’’ہمیشہ اپنے مریضوں کے چھتوں سے۔‘‘
’’لیکن وہاں رکھتا کون ہے؟‘‘
’’کالا جادوگر۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں نہیں پتہ،یہ لوگ کتنے خوف ناک ہوتے ہیں؟ میں ذرا بیئر پی لوں۔۔۔۔۔۔۔۔ان کالے جادوگروں کے نام سے ہی میرا گلا سوکھنے لگتاہے۔‘‘
’’جتنی مرضی ہو بیئر پی لو منڈولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے جتنا گوشت کھایا ہے تاکہ وہ ہضم ہوجائے۔‘‘
’’بالکل نہیں!‘‘ یہ کہہ کر پھگا نے لمبا گھونٹ بھرا۔
’’لیکن تمہیں یہ معلوم ہے کہ یہ جادوگر انسانی گوشت لاتے کہاں سے ہیں؟‘‘
’’اجی یہ تو پیدائشی بدمعاش اور خونی ہوتے ہیں۔‘‘
’’لیکن پھگا تم ایسے کسی جادوگر کو جانتے ہو؟‘‘
’’کیوں نہیں،میرا ہی آدمی ہے۔فنگو!اس سے بڑھیا جادوگر کون ہوگا؟ لاجواب چیز ہے وہ!‘‘
’’اور اسے معلوم ہے کہ انسانی گوشت کیسے لیا جاتا ہے؟‘‘
’’اجی اسے معلوم نہیں ہوگا تو کسے ہوگا!اپنے ہنر میں وہ سب سے بہتر شمار کیا جاتا ہے۔تم پر تو کسی بدروح کو سایہ ہے۔میں اس سے کہہ کر تمہیں نجات دلاؤنگا۔‘‘ایساکہہکر اس نے سیٹی بجائی۔سیٹی سن کر فنگو باہر آگیا۔اس نے اس بات کی حامی بھری کہ پھگامنڈولی انسانی گوشت کھاتا ہےاس نے پوچھ تاچھ کے دوران بتایا کہ جادوگر اکثر اپنےے مریض کا ہی گوشت کھاتے ہیں۔اس سے جب یہ پوچھا گیا کہ دنیا میں سب سے بڑھ کرجادوگروں میں گنے جانے کی وجہ سے کیا وہ بھی انسانوں کا قتل کرتا ہے۔تو اس نے خود کو اس برائی سے دور رہنے کی بات کہی۔
لگاتار پوچھ تاچھ کے بعد اس نے قبول کرلیا کہ وہ کوئی جادوگر نہیں ہےبلکہ پھگا کا پالتو نوکر ہے۔پھگا بھی چارہ گر نہیں ہےاور نہ ہی اس کے علاج سے آج تک کوئی ٹھیک ہوا ہے۔اس نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ اس کی تنخواہ بھی پھگا پابندی سے نہیں دیتا۔ساتھ ہی پھگا جو کھاتا ہے وہ آدمی کا نہیں گائے کا گوشت ہوتا ہے۔
’’افسروں نے اب سب باتوں کے بعد پھگا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔‘‘
ایک بار پھر لینڈا نے ایک تصویر میری طرف بڑھائی جس میں پھگا کو دو سادہ لباس والے سپاہی پکڑ کر لے جاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔میں تصویر کو یوں ہی دیکھتا رہا اور لینڈا مجھے۔
’’پھگا کو عدالت لےجایا گیا جہاں مجسٹریٹ نے اسے چھ ماہ کی قید کی سزا سنائی۔اس کورٹ کچہری کے چکر میں پھگا نے جو کچھ کمایا تھا،پھونک ڈالا۔ہاں اس سلسلے میں میرے لینے کے دینے پڑ گئے۔‘‘
اپنی کہانی سنانے کے بعد وہ زور سے کھانس اٹھا۔مجھے اس پر بڑا ترس آیا۔
اسی وقت پرواز کے لئے اعلان ہوا۔میں کھڑا ہوگیا۔لینڈا کے فوٹو کو میں نے اسے لوٹانا چاہا تو اس نے التجا کرکے کہا کہ آپ رکھ لیجئے۔
’’کیوں؟‘‘
’’مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔انہیں دیکھ کر شاید تمہیں میری بدنصیبی اور آدمی کے ذریعہ آدمی کا استحصال یاد آجائے۔‘‘
’’لیکن میں ان کا کیا کروں گا؟‘‘ یہ کہہ کر میں نےوہ فوٹو اسے پکڑا دیئے۔
’’تھینک یو۔۔۔۔۔۔۔لیکن میرے سینے کے درد کا علاج کرنےکے لئے کچھ پیسے مل سکیں گے۔‘‘
لاؤڈاسپیکر پر مسافروں کے لئے آخری اعلان ہورہا تھا۔لانج میں پوری سرگرمی جاری تھی۔لینڈا میرے آگے لاچاری کی حالت میں کھڑا خر۔۔۔۔۔۔خر ۔۔۔کئے جارہاتھا۔
میں نے اپنا پرس نکالا۔ اس میں دو سو نیراتھے۔میں نے سب نکال کر اسے تھما دیئے ۔اس نے بڑی عاجزی سے وہ پیسے قبول کئے اور خدا سے میرے لئے کئی دعائیں کرنے لگا۔میراسفر خیریت سے پورا ہو،خد مجھے محفوظ رکھے وغیرہ۔
اس کے ساتھ ہی ہم نے ایک دوسرے سے الوداع کہا ۔
جہاز نے جیسے اڑان بھری تبھی یک بہ یک خیال آیا کہ مجھے کسی نئے بھکاری نے الو بنادیا ہے۔اس سے میں نے جو بھی سنا اور محسوس کیا یقیناً وہ کوئی من گھڑت کہانی تھی۔۔ورنہ لینڈا کے پاس وہ فوٹو کہاں سے آئے۔ پورےواقعات اور حادثات کی تصویر کے ساتھ کہانی بیان کرنے کی فرصت اس کے پاس کیسے آئی ۔اسے کیا پتہ تھا کہ علاج کے دوران جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی کو سناناپڑے گا۔مجھے بڑے اعتماد سے لوٹا گیا تھا۔اب پتہ چلا کہ میرا علم بھکاریوں کےبارے میں محدودتھا۔
لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ لینڈا نے جو بھی کمائی مجھ سے کی اس کے لئے کڑی محنت کی تھی۔ایسی کہانی بنانے کے لئے کچھ تو محنتانہ ہونا چاہئے۔ وہ مجھے کیسے بے وقوف بناکر چلا گیا مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔
جب میں اپنے سفر سے واپس لوٹا تو وہ ابھی بھی ہوائی اڈے پر تھا۔اپنے معصوم شکار کے قریب بیٹھا ہوا۔وہ ایک عورت تھی۔ اس کے ہاتھ میں کئی تصاویر تھیں،مجھے دیکھ کر وہ چھپنے کی کوش کررہاتھا۔مجھے پتہ تھا ،ایک روز میں اس پر کہانی لکھوں گا ہی ،اس لئے اس واقعے کو میں نے خام مال کی طرح سنبھال کررکھا تھا۔دراصل ہر کہانی کاراپنی کہانی اور قاری کے ایک سکریٹری کے سوا کچھ ہوتا بھی نہیں ہے۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی میں نے اس پر کہانی لکھ ماری اوراسے شائع کرنے کے لئےمدیروں اور ناشروں کے دروازوں پرٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہوں۔ہر بار وہ ڈاک سے لوٹ آتی ہے اور جب بھی ایسا ہوتا ہےمجھے لینڈا کی چالاکیوں پر گلہ ضرور ہوتا ہے۔اسے تو اپنی کہانی پر فوراً انعام مل گیااور ایک میں ہوں جو ابھی بھی یوں ہی بھٹک رہا ہوں۔ ہوسکتا ہے،کسی دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بہ شکریہ اردو چینل ۳۰)
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1695780497355317/
“