اٹھارہویں صدی میں امریکا کی نوآبادیاں تیزی سے قائم ہوئیں۔ انگریز وں کے بعد، اسکاٹ، آئرش، اور جرمن بھی نوآبادکاری میں بتدریج شامل ہوئے۔ سیاہ فام غلاموں کی بھرمار تھی؛ وہ 1690میں مجموعی آبادی کا آٹھ فیصد حصہ بن چکے تھے؛ 1770میں اکیس فیصد پر پہنچ گئے تھے۔ اس عرصہ میں کالونیوں کی مجموعی آبادی ڈھائی لاکھ سے سولہ لاکھ پرپہنچ چکی تھی۔ یہاں کی زراعت بھی ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی تھی۔ چھوٹی صنعتیں بھی قائم کی جارہی تھیں۔ سمندری تجارت وسعت اختیار کررہی تھی۔ بڑے شہربوسٹن،نیویارک، فلاڈلفیا، اورچارلسٹن کے رقبے دد تین گنا پھیل چکے تھے۔ پیداوار اور وسائل کی فراوانی سے مال دار طبقہ سب سے زیادہ فوائد سمیٹ رہا تھا، اوراپنی سیاسی اجارہ داری مستحکم کررہا تھا۔ایک مؤرخ، جس نے 1687 سے1771تک کی بوسٹن ٹیکس فہرست کا جائزہ لیا، لکھتا ہے کہ 1687میں آبادی کا ایک فیصد یعنی پچاس امراء مجموعی دولت کے پچیس فیصد کے مالک تھے۔ سن1770 تک، یہ ایک فیصد چوالیس فیصد دولت کے مالک بن چکے تھے۔ اس دورمیں، بوسٹن کے وہ غریب نوجوان جوبہ مشکل ایک کمرہ کرایہ پر رہائش پذیر تھے، کسی جائیداد کے مالک نہ تھے، چودہ فیصد سے بڑھ کر انتیس فیصد پرپہنچ گئے تھے، اور اس دور میں جائیداد نہ ہونے کا مطلب ووٹ کے حق سے بھی محروم ہونا تھا۔
یہاں ہر طرف غربت، بے سروسامانی، اور خون جمادینے والی سردی تھی۔
سن 1730کی دہائی میں حالات یہ ہوگئے تھے، کہ تمام شہروں میں غریبوں کی الگ بستیاں بسادی گئی تھیں۔ ان بستیوں میں نہ صرف بوڑھے، بیوائیں، نادار، اور یتیم آبسے تھے بلکہ بے روزگار، سابق فوجی، نئے تارکین وطن بھی گزربسر کررہے تھے(۱)۔ نیویارک کی ایک غریب بستی جس میں سو افراد کی گنجائش ہوتی تھی، چار پانچ سو نفوس رہائش پذیر تھے(۲)۔ سن 1748میں فلاڈلفیا کا ایک شہری لکھتا ہے،”یہ بات قابل ذکر ہے کہ شدید سردیوں کے ان دنوں میں، اس قصبہ میں بھکاریوں کی تعدادبہت زیادہ بڑھ چکی ہے“۔سن 1757میں، بوسٹن کے حکام خود یہ کہہ رہے تھے، کہ ”اس شہر کے غریبوں کی ایک بہت بڑی تعدادہے۔۔۔ جوبہ مشکل ہی خود سے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرسکتی ہے“۔
کینیتھ لوکریج، نوآباد نیوانگلینڈکی بابت لکھتا ہے، اٹھارہویں صدی کے وسط میں یہاں آوارہ بدمعاش عام تھے، ہرجانب بے کار غریب گھومتے پھرتے نظرآتے تھے۔ کیمس لیمن اور گیری نیش کہتے ہیں کہ دولت کا ارتکاز چند انگریز امراء کی طرف تھا، امیر اور غریب کے درمیان بہت بڑی تفریق قائم ہوچکی تھی، چیسٹر کاؤنٹی کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوا، کہ یہ انگریزمعاشرہ صرف مالدار طبقہ پرمبنی تھا، اس حقیقت کو روایتی تاریخوں میں کافی چھپایا گیا ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ انگلینڈ کے خلاف نوآبادیوں کا اتحاد انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا تھا۔ اب تک کی حقیقت یہی تھی کہ یہاں پیدا ہونے والا ہرفردپیدائشی طورپر آزاد نہ تھا بلکہ ”غلام“ یا ”آزاد“، ”خادم“یا ”آقا“،اور ”مزارع“ یا ”جاگیردار“ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی قوتوں کی مسلسل اور پرزورمخالفت بڑھتی چلی گئی، نیش کے مطابق”سترہویں صدی کے آخر میں بدنظمی بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔ میساچیوسٹس، نیویارک، میری لینڈ، ورجینیا، اور شمالی کیرولائنا میں مستحکم حکومتیں ڈھائی جارہی تھیں۔
سفید فام آزاد مزدورسیاہ فام غلاموں کی نسبت بہتر حالت میں تھے، مگر سرمایہ داروں کے نا مناسب سلوک پروہ بھی بہت شاکی تھے۔سن 1636کے آس پاس، ایک آجرنے، جو میری لینڈکی ساحلی پٹی پرکام کرتا تھا، شکایت کی کہ بہت سے مچھیرے اور مزدور صرف اس لیے بغاوت پر اتر آئے ہیں، کہ اُن کی تنخواہیں روک لی گئی ہیں، وہ بڑی تعداد میں کام چھوڑگئے ہیں۔ پانچ سال بعد، ریاست مین میں بڑھئی اور ترکھانوں نے نامناسب خوراک ملنے پر احتجاج کیا، اور کام سے ہاتھ اٹھالیا۔ یہ مزدوروں، قصابوں، ترکھانوں، اور بیکرز وغیرہ کی جانب سے احتجاج کی ابتدا تھی۔ یہ حکومتوں کی جانب سے بھاری اُن محصولات اور کرایہ کا ردعمل تھا، جو وہ ان محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی سے نچوڑ رہی تھیں۔ سن 1741میں، بیکرز نے حکومت کی جانب سے انتہائی مہنگی گندم فراہم کیے جانے پرشدید احتجاج کیاتھا۔ غرض انگریز تاجر اور سرمایہ کار منافع خوری کی خاطر عوامی معیشت کچل رہے تھے۔
سن 1730کی دہائی میں، بوسٹن کے لوگ تاجروں کی جانب سے اشیاء کی مہنگائی کے خلاف شدید احتجاج کررہے تھے، جس سے ڈاک اسکوئر کی منڈی مندی ہوگئی تھی۔ وہ اب واضح طورپر تاجروں کومنافع خوری سے باز رہنے کی دھمکی دے رہے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن گورنر کے گھر پر حملہ کردیاگیا، شیرف کی پٹائی کردی گئی، اورقصبہ کی جنرل کورٹ میں گھُس کرتباہی مچائی گئی، گورنر فرار ہوگیا۔ تاجروں نے مزدوروں اور غلاموں کی اس بغاوت کی بڑی مذمت کی، انھیں بدمعاش، کمینہ، اور بدخصلت وغیر وغیرہ کہا۔
سن 1750اور اس سے پہلے، نیوجرسی میں، جب زمین داروں نے بھاری بھاری بھاڑے مانگنے شروع کیے، غریب کسانوں نے اراضی پر قبضہ کرلیا، وہ غصے سے بپھر گئے تھے۔ سیموئیل بالڈون، جسے کرایہ ادا نہ کرنے پرگرفتار کرکے نیوارک جیل پہنچادیا گیا تھا، ایک عینی شاہد لکھتا ہے”کہ عام لوگ جیل پہنچے اور اُسے چھڑا لائے“۔ جب بالڈون کو آزاد کرانے والے دو افراد گرفتار کیے گئے، تواُنھیں چھڑانے سیکڑوں شہری جیل جا پہنچے۔ لارڈز آف لندن کو بھیجی گئی نیوجرسی حکومت کی ایک رپورٹ کہتی ہے، ”شیرف کے حکم پر دوکمپنیوں کے کپتان ڈھول بجانے والوں کو ساتھ لے کرلوگوں کے پاس پہنچے، اورجیل کے تحفظ کے لیے انھیں ساتھ چلنے کوکہا، مگر ایک بھی فرد اُن کے ساتھ نہ ہوا۔“
اس تمام عہد میں، انگلینڈ مسلسل حالت جنگ میں رہا، کوئین این کی جنگ اور کنگ جارج کی جنگ دہائیوں چلتی رہی۔ چند تاجروں نے ان جنگوں سے خوب مال بنایا، مگر اکثر لوگوں کے لیے ان جنگوں کا مطلب بھاری بھاری محصولات، بے روزگاری، اور غربت تھی۔ میسا چیوسسٹس کاایک بے نام پمفلٹر، کنگ جارج جنگ کے بعد انتہائی غصہ میں لکھتا ہے ”غربت اور بے اطمینانی ہر چہرے پر ہویدا تھی، ہر زبان شکوہ کناں تھی“۔ وہ چند ایسے افراد کے بارے میں بات کررہا تھا کہ جن پر”طاقت، شہرت، اور پیسے کی ہوس سوار تھی“، یہ وہ لوگ تھے جو ان جنگوں میں مزید مالدار ہوگئے تھے، یہ اب بڑے بڑے بحری جہاز بناسکتے تھے، اونچے مکان اٹھاسکتے تھے، اورشاندار سواریاں حاصل کرسکتے تھے۔ وہ ان جنگی سوداگروں کو”معصوم پرندوں کے شکاری“ لکھتا ہے۔
انقلابی بحران کے سالوں میں، وہ اشرافیہ جس نے برطانوی نوآبادیوں میں سکونت اختیار کی تھی، ڈیڑھ سو سال کا تجربہ رکھتی تھی اور حکمرانی کے چند کامیاب ہتھکنڈوں کی ماہر ہوچکی تھی۔یہ گورے آقا اچھی طرح سمجھ گئے تھے، کہ ریڈ انڈینز مستقل مزدور ثابت نہیں ہوئے تھے، وہ باغی طبیعت کے تھے۔ البتہ سیاہ فام غلاموں کو قابو میں رکھنا آسان تھا، اورجنوب کی کھیتیوں میں اُن کی افادیت بھی سامنے آرہی تھی، اوریوں سیاہ فاموں کی درآمد دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی، وہ اب بہت سی نوآبادیوں میں اکثریت بنتے جارہے تھے، اور مجموعی آبادی کا ایک پانچواں حصہ بن چکے تھے۔ تاہم سیاہ فام بھی سب تابعدار نہ تھے، جیسے جیسے اُن کی تعداد بڑھی، بغاوت کے امکانات بھی بڑھ گئے۔
ریڈ انڈینزکی دشمنی اور سیاہ فاموں کی بغاوت کا خوف، انگریز اشرافیہ نے غریب سفید فام طبقہ کے بارے میں ازسرنوغور کیا، سوچا کہ تینوں متحد ہوگئے، توپھر کیا ہوگا؟ یہ توہم پر غالب آجائیں گے؟ جنوبی اور وسطی امریکا کی نسبت، شمالی امریکا میں ریڈ انڈینز اورسفید فاموں کے اتحاد کا امکان کم تھا۔صرف جارجیا اور جنوبی کیرولائنا میں ہی ان دونوں کا کچھ میل جول بڑھا تھا۔ عمومی طورپر گورے ریڈ انڈینزکو دور رہی رکھتے تھے۔ مگر دستاویزی حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں یورپی ریڈانڈین کی نئی نسل بن کرسامنے آئے، جبکہ کوئی بھی ریڈ انڈین اپنی خوشی سے یورپی یا امریکی بن کر سامنے نہ آیا۔
غرض گورے آقاؤں نے تقسیم کرو اور لڑاؤ کے فارمولے پر عمل کیا، گورے مزارعوں کی زمینیں چھین کرانھیں سرحدوں کی جانب دھکیل دیا، جہاں ریڈانڈینزکی زمینیں تھیں، اور پھر یہ سب باہم لڑتے رہے، یہ صورتحال بیکن کی بغاوت میں واضح طورپر سامنے آئی۔ سیاہ فام اور ریڈ انڈینز متحد ہوکرسفید فام کسانوں سے لڑگئے تھے۔ شمال میں نیویارک سب سے بڑی غلام آبادی والا علاقہ تھا، یہاں چند سیاہ فاموں اور ریڈ اینڈینز میں رابطے بھی تھے۔ ان لوگوں نے 1712میں بغاوت برپا کردی تھی، جسے جلد ہی کچل دیا گیا تھا۔ تاہم کیرولائناز میں سیاہ فام غلاموں اورریڈ اینڈینز کی تعداد گورے آقاؤں کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھی۔ سن 1750کی دہائی میں پچیس ہزار گوروں کا سامنا چالیس ہزار سیاہ فام غلاموں اورساٹھ ہزار ریڈ انڈینز سے ہوگیا۔ اس بارے میں گیری نیش لکھتا ہے، ریڈ اینڈینز کی مسلسل بغاوتیں اور پھر غلاموں کی شورشیں جنوبی کیرولائنا کے آقاؤں کو مسلسل خبردارکررہی تھیں،کہ ان دونوں کو کسی صورت متحد نہ ہونے دیا جائے،اور ایک کو دوسرے کے ذریعہ کچل دیا جائے۔ یوں نئے قوانین بنائے گئے: آزاد سیاہ فام کی کسی بھی انڈین علاقہ کی طرف سفر پر پابندی عائد کی گئی، انڈین قبائل سے معاہدے کیے گئے کہ اگرکوئی مفرور غلام ان کے علاقوں میں پایا جائے، تو اُسے پکڑکر آقاؤں کے حوالے کیا جائے گا، جنوبی کیرولائنا لٹل ٹاؤن کے گورنر نے 1738میں لکھا: ”نیگروز اور انڈینز میں دشمنی کے بیج بوتے رہنا ہی اس حکومت کی مستقل پالیسی ہے۔“ جنوبی کیرولائنا میں اس پالیسی کے تحت سیاہ فام غلاموں کی ملیشیا کوریڈ انڈینز کے خلاف استعمال کیا گیا۔ تاہم، سیاہ فاموں سے بھی بغاوت کا خطرہ موجود تھا، اور یہی وجہ تھی کہ’جنگ چیروکی‘کے دوران، کیرولائنا اسمبلی میں ’پانچ سو سیاہ فاموں کوریڈ اینڈینز کے خلاف مسلح کرنے‘کی قرار داد ایک ووٹ کی کمی سے منظور نہ ہوسکی تھی۔ اس زمانہ میں بہت سے سیاہ فام غلام فرار ہوکر ریڈ انڈینزکی بستیوں میں جا چھپے تھے، کتنے ہی سیاہ فاموں کوریڈ انڈینز نے فرار میں مدد فراہم کی تھی، اور کتنے ہی سیاہ فام ریڈ اینڈینز کے قبائل میں جمع ہوگئے تھے،انھوں نے آپس میں شادیاں کیں، اور نسل آگے بڑھائی۔ تاہم سیاہ فاموں کے خلاف سخت قوانین اور بہت سے ریڈ انڈینز کوبھاری بھاری رشوتوں سے معاملات کسی قدر قابو میں رکھے گئے۔
بعدازاں، یہ سیاہ فام غلاموں اور سفید فام غریبوں کا اتحاد تھا، جس نے گورے آقاؤں کی نیندیں اڑائیں تھیں۔ یہ لوگ باہم شادیاں کررہے تھے، اور مخلوط نسل کی افزائش گورے آقاؤں کے لیے بڑا مسئلہ بنتی جارہی تھی۔ انسدادی قوانین بے اثر ثابت ہورہے تھے۔ ورجینیا، میساچیوسٹس، میری لینڈ، ڈیلاوئیر، پنسلوینیا، اور کیرولائناز میں پابندی کے باوجود کالے گورے آپس میں شادیاں کررہے تھے۔ گورے آقاؤں نے ان جوڑوں کی اولادوں کوناجائز قرار دے کرسیاہ فام خاندانوں تک مقید کردیا تھا، تاکہ سفید فام آبادی ”خالص“ رہے، اور اس میں سیاہ فام نسل کی ملاوٹ نہ ہونے پائے۔
ان سالوں میں، قوانین سے بچنے کے لیے، سیاہ فام غلام اور سفید فام مزدور مل کر فرارکی کوششیں کررہے تھے۔سن 1698میں، جنوبی کیرولائنا میں ایک قانون“deficiency law”منظور کیا گیا، جس کے تحت زمین داروں پرہر چھ نیگروز کی نگرانی کے لیے ایک سفید فام ملازم رکھنا لازمی قرار دیا گیا، تاکہ ممکنہ سرکشی کی بیخ کنی کی جاسکے۔ اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ ورجینیا اسمبلی نے بیکن بغاوت کے سیاہ فام ملزموں کوسزائیں دیں مگر سفید فام ملزمان کوچھوڑدیا تھا۔ نیگروز پرہتھیار ساتھ رکھنے کی سختی سے ممانعت تھی مگر سفید فاموں کو نہ صرف ہتھیار فراہم کیے گئے، بلکہ کیش اورخوراک بھی مہیا کی گئی تھی۔ سیاہ فام غلاموں اور سفید فام مزدوروں میں تفریق کو زیادہ سے زیادہ قائم رکھنے کی کوشش کی گئی۔
انگریز نوآبادیوں میں نسلی تعصب زیادہ سے زیادہ عملی بنایا جارہا تھا۔ ایڈمنڈ مورگن کی تحقیق کہتی ہے کہ ورجینیا میں غلامی ”فطری“ نسل پرستی سے زیادہ طبقاتی تفریق نظر آتی ہے، جولوگوں پر قابوپانے کا کارگر نسخہ ہے۔ اگرمایوس مزدور اور مایوس غلام متحد ہوجاتے، تباہی مچادیتے۔ اس لیے خطرناک سفید فام مزدوروں کوخطرناک سیاہ فام غلاموں سے الگ کرنا ضروری تھا، اور اس کے لیے نسلی تعصب کی پرورش ناگزیر تھی۔
ایک اور طریقہ تھا، جس نے امریکا کی پوری تاریخ میں اشرافیہ کی حکمرانی مستحکم کی: بہت امیر اور بہت غریب طبقات کے درمیان ایک سفید فام متوسط طبقہ پروان چڑھایا گیا؛ یہ چھوٹے زمیندار، آزاد کسان، اور شہروں کے وہ فنکار تھے، جنھیں اشرافیہ نے اپنے آس پاس کافی جگہ دی، مالی فوائد پہنچائے، اوراپنا معاون بنائے رکھا۔ یہ طبقہ اُن دنوں سیاہ فام غلاموں، ریڈ انڈینز، انتہائی غریب مزدوروں، اور اشرافیہ کے درمیان مضبوط ”بفر زون“ بنا رہا۔
شہرجوں جوں ترقی کررہے تھے، مزید ہنرمند اورکاریگر سامنے آرہے تھے۔ اشرافیہ سفید فام متوسط طبقہ کوآزاد اور غلام سیاہ فام کاریگروں پرترجیح دے رہے تھے۔ سن 1764میں، جنوبی کیرولائنا میں قانون سازوں نے نیگروز کوبطور ”مکینک“ملازم رکھنے پر پابندی عائد کردی تھی،غلام کاریگروں، دستکاروں، اور ہنر مندوں کی منظم حوصلہ شکنی کی گئی۔
”متوسط طبقہ“ کی اصطلاح نے طویل عرصہ تک اس ملک کے بارے میں یہ”حقیقت“ چھپائے رکھی ہے، جیسا کہ رچرڈ ہوفس ٹیڈرنے لکھا ”یہ ایک ایسے متوسط طبقہ کا معاشرہ ہے، جس کی اکثریت پراشرافیہ حکومت کرتی ہے۔“
حکمرانی کے لیے یہ ضروری تھا، کہ اشرافیہ متوسط طبقہ کے لیے رعایتوں کا اہتمام کچھ اس طرح کرے، کہ اُس کی بے پناہ دولت اوربے اندازہ طاقت کوگزند نہ پہنچے۔ یہ خاص رعایتیں غلاموں، ریڈ اینڈینز، اور غریب سفید فام مزدوروں پرزیادتی اوراستحصال کی قیمت پر تھیں۔ اشرافیہ سے متوسط طبقہ کی یہ وفاداری ”مادی مفادات“ سے بھی کچھ بڑھ کر تھیں، اس وفاداری کو ”آزادی“ اور ”مساوات“ کے فریب میں لپیٹ کراُن سفید فاموں کے سامنے پیش کیا گیا، جوامریکی انقلاب میں مؤثر متحد قوت بھی ثابت ہوں، اور اس سارے عمل میں ”غلامی“ اور”عدم برابری“ بھی ختم نہ ہو۔(۳)
حواشی
۱)آج بھی امریکا یورپ میں تارکین وطن ملازم، ہرقسم کے بوڑھے، اور سابق فوجی غریب بستیوں اوراولڈ ہاؤسزمیں رہتے ہیں۔ جب کورونا کی وبا پھیلی، توسب سے زیادہ یہی لوگ متاثرہوئے۔ یورپ اور امریکا کی کئی ڈورمایٹریزمیں کورونا سے مرنے والے کتنے ہی بوڑھے افراد کی لاشیں کئی دن تک اٹُھائی نہ گئی تھیں۔
۲) عجیب اتفاق ہے کہ جب امریکا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی، نیویارک شہر میں تارکین وطن کی غریب آبادی کوئنس سب سے زیادہ متاثرہوئی، یہ علاقہ کورونا کا حب کہلایا، تارکین وطن کی اس بستی کے بارے میں کہتے ہیں، کہ یہ زیرزمین وہ دنیا ہے جہاں سورج کی کرنیں نہیں پہنچ پاتیں۔ یہاں ایک ایک فلیٹ میں درجنوں تارکین وطن رہتے ہیں، اورمل جل کرگزارہ کرتے ہیں۔ جنھیں فلیٹس میں جگہ نہیں ملتی، وہ تہ خانوں میں بھی رہتے ہیں۔
۳)امریکا نے پوری دنیا میں ”آزادی“ اور ”مساوات“ کے نام پر”غلامی“ اور ”عدم برابری“ پھیلائی ہے۔ یورپ کے نوآبادیاتی نظام اورامریکی انقلاب نے بتدریج انسانی تہذیب کوناقابل تلافی نقصان پہنچائے ہیں۔
ہاورڈ زن
ترجمہ: ناصر فاروق
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...