توحید ذاتی:
یعنی توحید در عبادت۔۔
بندگی صرف اسی احد و یکتا کی ھے۔۔۔
لیس کمثلہ شئ۔۔ اور ولم یکن لہ کفواَُ احد۔۔ اللہ اپنی ذات میں وحدہ لا شریک ھے۔۔
کوئی مقرب ترین بھی اسکی ذات کا شریک نہیں ھے۔۔
وہ یکتا ھے۔۔
احد ھے۔۔
گویا اللہ ایک ہے اور اس کے دوسرے کا تصور بھی نہیں ہے، یا دوسرے الفاظ میں کہا جائے کہ پروردگار حقیقی کے لئے کوئی شبیہ و نظیر اور مانند نہیں ہے
نہ ہی کوئی چیز اس کی شبیہ ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز سے مشابہ ھے۔نہ کسی میں حلول کرتا ھے نہ اسمیں حلول ممکن ھے۔وہ جسم و جسمانیات سے مبرا ھے
کتاب التوحید میں شیخ صدق نے نقل کیا ھے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے پوچھا: ”اٴیّ شَیءٍ الله اٴکْبَر“ ( اللہ اکبر کے کیا معنی ہیں؟)
تو اس نے عرض کی: ”الله اکبر من کل شیء“ اللہ تمام چیزوں سے بڑا ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ”فَکَانَ ثمَّ شیءٍ فیکونُ اٴکبرُ مِنْہُ“ کیا کوئی چیز (اس کے مقابلہ میں) موجود ہے جس سے خدا بڑا ہو،؟ صحابی نے عرض کیا: ”فما ہو“؟ آپ خود ہی فرمائیں اللہ اکبر کی تفسیر کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اللهُ اٴکبرُ من اٴنْ یُوصفْ“ خدا اس سے کہیں بلند و بالا ہے کہ اس کی توصیف کی جائے۔ وہ اپنی قدرت میں کامل ھے اور قضا و قدر کا نظام اسی کے اختیار میں ھے۔۔
توحید صفاتی:
امیر المومنین نے فرمایا خطبه 1 نهج البلاغه
الحمد لله الذى لا یبلغ مدحته القائلون و لا یحصى نعماءه العادون، و لا یؤدى حقه المجتهدون، الذى لا یدركه بعد الهمم، و لا یناله غوص الفطن، الذى لیس لصفته حد محدود و لا نعت موجود…
خدا کی تمام صفات ایک دوسرے کا عین ہیں اور اس کی ذات کا عین ہیں بلکہ اس کا وجود ہی اس کا علم ہے اس کی قدرت اور دیگر صفات بھی کما حقہ ذاتی ہیں۔
وضاحت :مخلوقات میں جب انسان ارادہ نہیں کرتا ہے تو وہ مرید نہیں ہوتا ہے۔ یعنی انسان کا نفس الگ ہے اور اس کا ارادہ اسمیں شامل نہیں ہے مگر پھر اس کا ارادہ پیدا ہوتا ہے تو وہ صاحبِ ارادہ ہوتا ہے ۔ لیکن اللہ ایسا نہیں ہے کہ کسی چیز کا اس میں اضافہ ھو جائے یا کمی ھو جائے۔
یا یہ کہا جائے کہ اب یہ صفت اس میں پیدا ہوئی ہے
ملکیت کے لحاظ سے اللہ کی صفات "بالذّات" بھی ہیں اور "ذاتی" بھی ہیں۔۔
(1) صفات بالذات ؛ یعنی اسکی ذات اور اسکی صفات دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں کہ جیسے مخلوقات اپنے اندر بتدریج صفات کو جمع یا زائل کرتی ہیں۔۔ وہ ھمیشہ سے اپنی صفات سمیت موجود ھے۔اسی طرح یہ کہ صفات کیلئے آلاتِ اظہار کا بھی طالب نہیں ھے مثال کے طور پر وہ بصیر ھے تو عضوِ بصارت یعنی آنکھ کا محتاج نہیں ھے بلکہ سراپا اپنی ذات میں ہی بصیر ھونے کا کمال رکھتا ھے۔
چنانچہ اسی لئے اسنے فرمایا کہ وہ "الصمد" ھے کیونکہ اسے کسی بھی شئے کی احتیاج نہیں ھے
(2) صفت ذاتی؛ اللہ کو اسکی صفات کسی دوسرے وجود نے فراھم نہیں کیں اور نہ ہی کسی تجربے اور مشق کے بعد وہ اپنی صفات کا حامل ھوا ھے ۔۔ بلکہ وہ اپنے ہی اختیار سے اپنے لئے اپنی پسندیدہ صفات کو قائم رکھتا ھے۔۔
"معصومین علیہم السلام کی صفات بالذات" :
یہاں پہلی کڑی پر یعنی صفات بالذات پر ایک بہت عاقلانہ بحث مقصود ھے اور وہ یہ کہ اللہ تعالی خود اپنی بالذات صفات کی طرح اپنی بعض چنی ھوئی مخلوقات میں بھی جسے جسے چاھتا ھے اسے اسے بالذات صفات دے کر بھیجتا رھتا ھے۔۔۔مثلا معصومین علیہم السلام کا علم اور انکی عصمت و طہارت انکی صفات بالذات ہیں۔۔۔ معصومین علیہمالسلام بھی دنیا میں آنے کے بعد کسی ریاضت، کسی معلم یا کسی مکتب سے یہ کمالات نہیں سیکھتے۔ بلکہ جو جو صفات اللہ خود چاھتا ھے وہ صفات شروع ہی سے انکی ذوات کا جزو بنا کر انہیں زمین پر بھجتا ھے۔
بعض وھابیت سے متاثرہ شیعہ و غیر شیعہ فرقوں کا عقیدہ ھے کہ صفت بالذات رکھنا صرف اللہ کی شان ھے ایسا ھونا مخلوق کیلئے ممکن نہیں ھے ۔ تو ایسے لوگ بنظرِ غائر نہ تو اسرارِ کائنات کو سمجھ پائے ہیں نہ خالق کائنات کو۔۔ کیونکہ صفت بالذات ھونا اللہ اور مخلوق کی "فصل ِ ممیز" (Distinction) نہیں ھے۔
بلکہ صفات کا صرف صفت ذاتی ھونا اللہ کی فصل ممیز کہلاتا ھے۔۔۔
کیونکہ اپنی صفات کو خود اپنی ہی شان سے ھویدا کرنا یہ صرف اور صرف اللہ کیلئے مختص ھے۔۔باقی ھر مخلوق اپنے جسم و جان اور صفات کے تقرر کیلئے اللہ کی محتاج ھے کہ وہ اسے ذات اور صفات عطا کرے۔۔۔ خود معصومین ع بھی اللہ ہی سے صفات لیکر آتے ہیں ، خود سے اپنے علم و عصمت کے معطی نہیں ہوتے۔
معطئ علم و عصمت صرف اللہ ھے جبکہ یہ طے ھے کہ اللہ نے انکو جب سے بھیجا ھے علم و عصمت و طہارت جیسے سارے اوصاف خود سے عطا کر کے بھیجا ھے۔۔اسلئے محمد وآل محمد ع اپنی صفات میں صفت بالذات تو رکھتے ہیں مگر یہ صفات انکے لئے ذاتی نہیں ہیں غیر ذاتی ہیں کیونکہ انکو انکے خالق و مالک نے ودیعت کی ہیں۔۔ جبکہ اللہ کیلئے سب کچھ ذاتی ھے ۔۔صفات بالذات کا ھونا کوئی ایسا عنصر نہیں ھے کہ کم عقلی کی بنا پر اس عنصر کو شرائط توحید ہی سے منسلک سمجھ لیا جائے۔۔بلکہ اللہ نے تو اپنی کچھ اور مخلوقات کو بھی کئی صفات " بالذات" عطا کر رکھی ھیں مثلا چینی اور رس ازخود میٹھے ھوتے ہیں۔کسی اور چیز یا کسی ریاضت سے میٹھے نہیں ھوتے۔پانی کی تری اسکی صفت بالذات میں سے ھے۔بتدریج پانی نے تر ھونا نہیں سیکھا بلکہ جب سے ھے تری رکھتا ھے۔اسلئے بالذات اپنی صفت کا مالک ھے مگر چونکہ یہ صفت اللہ نے اسے دی ھے اسلئے یہ صفت اسکی ذاتی صفت نہیں کہلا سکتی۔عطا کردہ صفت ھے تو پس ماننا چاھئے کہ وہ صفات جو اللہ نے معصومین ع کو خود سے عطا کی ہیں تاکہ وہ ان صفات میں مظہرِ کبریا بن کر تشریف لائیں تو انکو انکی صفات بالذات نہ ماننا عطائے الہی کے انکار کے مترادف ھے۔۔۔۔ تمام جلال و جمالِ الہی کہ جو کنز مخفی تھا اللہ نے نور محمدیہ ص کو اس کا مظہر بنا دیا اور دنیا کو خالق و معبود وجود کی پہچان کروائی۔۔۔ تمام چہاردہ معصومین ع اسی حقیقت محمدیہ ص کے اجزا ہیں اور اپنی الہی صفات کو اللہ ہی کے اذن سے استعمال فرما رھے ہیں۔۔ لھذا صفات و اختیارات معصوم کا اقرار شرک نہیں ھے بلکہ انکا انکار کرنا عینِ شرک ھے۔۔
توحیدِ افعالی:
توحید افعالی سے یہ مراد ہے کہ خدا اپنے تمام کام انجام دینے میں کسی کی مدد اور تعاون کا محتاج نہیں ہے اور اپنے ہر کام کو انجام دینے میں خود مختار اور مستقل ہے : مگر صرف وہ وسیلہ اور واسطہء قدرت مؤثر ہو سکتا ہے کہ جسے خدا نے خود قدرت دی ہو اور اپنے منصوص امور کی انجام دہی کیلئے منتخب فرمایا ھو ۔ جبکہ وسیلہ کے ذریعہ ظاھر ھونے کے باوجود تمام افعال اپنے اذن کی بنیادوں پر خدا ہی کی طرف منتہی ہوتے ہیں۔۔مثلا معجزہ اپنی فعلیت میں تو فعلِ معصوم ع ہی کہلائے گا مگر مشیت اور اذن میں اللہ کی طاقت کے ماتحت شمار ھو گا ۔۔
جس طرح وہ اپنی ذات میں کوئی شریک نہیں رکھتا ہے اسی طرح اپنی خالقیت،ربوبیت، مالکیت اور حاکمیت تکوینی کی فاعلیت میں بھی اپنا کوئی شریک نہیں رکھتا ہے ۔ قرآن حکیم کے اندر انما ولیکم اللہ و رسولہ والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوات و یوتون الزکوات و ھم راکعون (سورہ مائدہ) کی آیت میں بمطابقِ تفسیر اللہ کی طرف سے اپنے ساتھ ساتھ رسول اللہ ص اور جناب علی ع کو بھی ولی یعنی مختار و حاکم قرار دیا گیا ھے تو صاف ظاھر ھے کہ رسول و امام کا اختیار اللہ کے اختیار ہی کی ذیلی ترتیب کا نام ھے کیونکہ اللہ نے اپنے قول و فعل کے اظہار کیلئے خود اذن دیکر نبی و امام کو ولایت پر متمکن فرمایا ھے۔۔ اور اپنے نظام ولایت یعنی نظام حکومت کی تشریح فرمائی ھے۔اسلئے نبی و امام کے مراتب و اختیارات میں شک کرنا بھی توحید فعلی کے نظام ولایت پر شک کرنے کے مترادف ھے۔اور شرک در توحیدِ فعلی میں شمار ھوتا ھے۔
اللہ بدیع ھے یعنی بغیر نمونے کے تخلیق کرنے کی شان رکھتا ھے
سورہ الروم میں فرماتا ھے کہ :
اللہ یبداء الخلق ثم یعیدھا۔
کہ بس اللہ وہی ھے جو خلقت کی ابتدا کرتا ھے اور پھر یہ تخلیق اپنے آپکو دہراتی رھتی ھے۔
گویا وہی ھے کہ جو جب چاھے کن سے امری مخلوق بناتا ھے اور وہی ھے کہ جو سلسلہء تخلیق کو عام کرتے ھوے ایک نظام اور وسائل کا مرھون بھی بنا دیتا ھے۔
المختصر یہ کہ مجموعی طور پر توحید افعالی علت اور معلول کے قانون یا اسباب کے مؤثر ہونے کی نفی کرنے کے معنی نہیں رکھتی ۔شیعہ نکتہ نگاہ کے مطابق توحید افعالی کا یہ معنی نہیں ہے کہ خداوند تعالی کسی واسطے کے بغیر کسی چیز کو ایجاد کرتا ہے اور تمام علل اور اسباب کی جگہ خود لیتا ہے ۔بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب کوئی چیز ایجاد میں کسی چیز کی محتاج ہوتی ہے تو پرودگار مطلق اس سبب کو بھی ایجاد فرماتا ھے اور اس سبب یا وسیلہ کے ذریعہ اس مقصد کو اسکی تکمیل تک پہنچا دیتا ھے۔مثلا ھدایت دینا اسکے اسم الھادی کا بنیادی تقاضا ھے تو اسکے لئے وہ اپنی مرضی سے مرسلین و اوصیاء و خلفاء کا نظام بناتا ھے اور اس امر میں اپنی ذات کے علاوہ کسی اور کا یا کسی امت کے مشورے یا انتخاب یا شوری کا ھرگز محتاج نہیں ہوتا ۔۔
لھذا ایک مومن کا توحیدِ افعالی پر ایمان کا تقاضا بھی یہی ھے کہ وہ صرف اسکی ذات و صفات کا ہی کلمہ نہ پڑھے ھادی کے انتخاب میں بھی صرف اللہ ہی سے رجوع کرے اور اسی کو اس اختیار پر فائز سمجھے کہ وہ جسے چاھے امام اور ولی و خلیفہ نامزد فرمائے۔ناکہ رسول اللہ ص کے بعد ولایت و خلافت کیلئے امت یا عوام الناس کے اکثریتی فیصلوں کو دین کا جزو قرار دینے لگے
محتاج دعا
نجم سبطین حسنی
و ما علینا الا البلاغ المبین
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...