کجھور کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ موزوں ماحولیاتی حالات کی بدولت سندھ کا شہر خیرپور کجھور کی ملکی پیداوار میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ خیرپور کی معیشت میں زراعت کافی اہمیت کی حامل ہے اور لوگوں کو ذرائع آمدن فراہم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نہ صرف خیرپور کے مضافاتی علاقوں، بلکہ پنجاب اور بلوچستان سے بھی لوگ خیرپور کا رخ کرتے ہیں اور کھجور کے باغات کے قریبی علاقوں میں قیام پذیر ہو جاتے ہیں۔ مئی کی آواخر میں کھجور کٹائی کا سیزن نزدیک آتے یہ اندرونی ہجرت شروع ہو جاتی ہے۔
کجھور کی کٹائی کو خطے کی معیشت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
ابلی ہوئی کجھور دھوپ میں سکھائے جانے کے لیے تیار ہے۔
کھجور کی کٹائی کے دوران مردوں کے ساتھ صرف عمر رسیدہ عورتیں ہی حصہ لیتی ہیں کیوں کہ نوجوان عورتوں کو باغوں میں کام کرنے سے روکا جاتا ہے۔
ثقافتی پابندیوں کے باعث نوجوان عورتوں کو کھیتوں سے دور رکھا جاتا ہے۔
تمام کام صنفی بنیادوں پر سر انجام دیا جاتا ہے: مردوں کی جانب سے کھجور کے گچھوں کو درختوں سے اتارے جانے کے بعد خواتین ان گچھوں سے کھجور کو نکالتی ہیں۔
مردوں کے درمیان بھی کام تقسیم ہوتا اور اجرت میں فرق ہوتا ہے۔ دہہاڑی انتہائی کم ہوتی ہے، خاص طور پر اگر ہم اس کا مقابلہ کھجور کے باغ سے ہونے والی کمائی سے کریں۔ وہ افراد جو کھجور کو اپنے کاندھوں اور پیٹ پر اٹھاتے ہیں انہیں ایک دن کے صرف 350 روپے کے قریب مزدوری دی جاتی ہے۔
کھجوروں کو درختوں سے اتارے جانے کے بعد مزید پراسیسنگ کے مقام پر لے جایا جاتا ہے۔
کجھوروں کو پانی میں زرد رنگ ملا کر 20 منٹ تک ابالا جاتا ہے اور پھر سکھایا جاتا ہے۔
وہ افراد جو باورچی خانوں میں چھوہارے بناتے ہیں انہیں تقریباً 500 روپے دیے جاتے ہیں۔ وہ افراد جو درخت پر چڑھ کر کھجوریں توڑ لاتے ہیں انہیں سب سے زیادہ، یعنی تقریبً 700 روپے دیے جاتے ہیں، جس کی وجہ اس کام کا سب سے زیادہ مشکل اور پرخطر ہونا ہے۔ عورتیں سب سے کم، یعنی 250 روپے فی دن کما پاتی ہیں۔
چونکہ وہاں بنیادی ٹیکنالوجی کی کمی ہے اس وجہ سے تمام کام ہاتھوں سے ہی کیا جاتا ہے، اس طرح ان مزدوروں کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
درجہ حرارت اکثر اوقات تقریباً 48 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جبکہ مزدور ننگے پاؤں اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔
وہ افراد جو باورچی خانے میں کام کرتے ہیں، وہاں ان کے جلنے کا خطرہ بھی رہتا ہے مگر کسی حادثے کی صورت میں علاقے میں کوئی طبی سہولت موجود نہیں۔
درخت پر چڑھ کر کھجور اتارنا جان لیوا حد تک خطرناک ہے۔
خیرپور میں اصیل جنس کی کھجور کی کثیر تعداد میں پیداوار ہوتی ہے۔ ان میں زیادہ تر کھجور کو خشک کر کے چھوہاروں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
ٹریکٹر وہ واحد جدید چیز ہے جو ان کھجور کے باغات پر استعال ہوتی ہے۔
ایک نوجوان ڈوکے (خام کھجوریں) گچھے سے الگ کر رہا ہے۔ ہر ایک گچھے کا وزن 15 سے 17 کلو گرام ہوتا ہے۔
“