روز اول سے ہی انسان آپس میں تبادلہ خیال کے لیے الفاظ کا محتاج رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ الفاظ ہی ہیں جو انسان کو دنیا پر پائی جانے والی دیگر تمام مخلوقات سے افضل بناتے ہیں۔
خوشی، غمی، بھوک، تحفظ وغیرہ جیسے احساسات جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق وہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے احساسات کی ترسیل بھی کرتے ہیں۔ تاہم انسان واحد جاندار ہے جو اپنے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے احساسات و جذبات کو کسی مخصوص زبان کے الفاظ کا روپ دینے پر قادر ہے۔ شاید اسی لیے اسے اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔
الفاظ کے زبانی بیان یعنی بولنے کی حد دنیا کا تقریباً ہر ذی شعور انسان قدرت رکھتا ہے۔ تاہم ان الفاظ کو مناسب طریقہ سے ضبطِ تحریر میں لانا کسی کسی کا ہی خاصہ ہے۔ اور جو شخص اپنے خیالات کو قلم کے راستے احسن پیرائے میں کاغذ پر منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اسے دنیا مصنف یا لکھاری کے نام سے جانتی ہے۔
ایک مصنف کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی کوئی نا کوئی تصنیف منظر عام پر آئے اور درجہ قبولیت بھی پائے۔ تاہم یہ ہمیشہ ضروری نہیں ہوتا۔ کچھ اشخاص ایسے بھی ہوتے ہیں جو شاہکار الفاظ کی تخلیق کرتے ہیں اور انہیں نہایت احسن طریقہ سے ضبط تحریر میں لانے کی قدرت رکھتے ہیں تاہم بوجوہ ان کی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آتی۔ یہ ایسے عظیم لوگ ہوتے ہیں جن سے اکتساب حاصل کرنے والے اور ان کی صحبت میں رہنے والے بذات خود عظیم مصنف کے درجے پر فائز ہو جاتے ہیں۔
راقم الحروف کے والد محترم عبدالرزاق کھوہارا شہید ایسی ہی عظیم شخصیات اور مصنفین میں سے ایک تھے۔ میں اس تحریر کے ذریعے چند مثالوں کی مدد سے واضح کروں گا کہ کیسے وہ کوئی کتاب یا کالم نا لکھتے ہوئے بھی ایک عظیم مصنف کا درجہ رکھتے تھے۔
ویسے تو عبدالرزاق کھوہارا شہید کی کوئی تصنیف کسی مجلہ میں شائع نہیں ہوئی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ الفاظ کی تحریر پر اتنا زبردست عبور رکھتے تھے کہ ان کے لکھے ہوئے خط اور ڈائریوں کو پڑھ کر مجھ سمیت کئی لوگ نا صرف لکھنے لکھانے سے شناسا ہوئے بلکہ بحیثیت لکھاری بھی مشہور ہو گئے۔
زمانے کی ستم ظریفی، غمِ روزگار، اولاد کی تربیت اور وقت کی کمی جیسے مسائل کی وجہ سے والد صاحب ایک کہنہ مشق لکھاری کے طور پر اپنے آپ کو نا منوا سکے لیکن جیسے بادشاہوں کو مسند پر بٹھانے والے بادشاہ گر کہلاتے ہیں اسی طرح عبدالرزاق کھوہارا شہید بھی لکھاری گر کہلائے۔ جن کی لکھی تحریریں آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
عبدالرزاق کھوہارا صاحب بچپن سے ہی اردو زبان کی تحریر و تقریر پر مہارت رکھتے تھے۔ اس کی ایک مثال وہ اکثر ہمیں سنایا کرتے تھے۔ جسے میں یہاں تحریر کرنا چاہوں گا۔
والد صاحب کے بقول وہ تیسری جماعت میں پڑھتے تھے جب انہیں ایک نئے اسکول میں داخلہ لینا پڑا۔ داخلے کے وقت اینٹری ٹیسٹ کے طور پر ہیڈ ماسٹر صاحب نے "شیشم کا درخت" کے موضوع پر مضمون لکھنے کو کہا۔ والد صاحب قلم دوات اور کاغذ لے کر وہیں ماسٹر صاحب کے سامنے بیٹھ گئے اور جو ذہن میں آیا لکھنے لگے۔ مضمون تیار ہوا۔ ماسٹر صاحب نے جب پڑھا تو عش عش کر اٹھے اور فوراً اسکول کے تمام اساتذہ اور کلاس کو بلا کر وہ مضمون دکھایا سب نے بے انتہا تعریف کی۔ فوری طور پر داخلہ ہوا اور پھر والد صاحب جتنے سال وہاں رہے ان کی عزت کی جاتی رہی۔
والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ اس مضمون میں انہوں نے اس خوبصورتی سے تشبیہات دیں تھیں کہ بعد میں خود بھی حیران ہوتے تھے کہ یہ جملے انہوں نے لکھے۔ ایسے ہی چند جملے پڑھیے اور سر دھنیے۔۔۔ خیال رہے کہ یہ چھ سات سالہ بچے کی اس دور کی تحریر ہے جب اس عمر میں بچوں کو الف انار اور بے بکری کے رٹے لگانے سے فرصت نہیں ہوتی تھی۔ ان کے لکھے مضمون سے چند جملے درج ذیل ہیں۔
"ہوا چلتی ہے تو شیشم کے پتے یوں لہراتے ہیں جیسے خوشی سے جھوم رہے ہوں۔ اور شیشم کی ٹہنیاں مستی بھری کیفیت میں سر ہلاتی نظر آتی ہیں"
"شیشم کے درخت پر لگی ڈالیاں یوں محسوس ہوتی ہیں جیسے دلہن کے کانوں میں بالیاں"
ذرا تصور کیجیے چھوٹی سی عمر میں ایسا لکھ سکتے تھے تو پختہ عمر میں تحریر کا کیا عالم ہو گا؟
الحمدللہ آج جب راقم الحروف ایک لکھاری خصوصاََ سائنسی صحافی کے طور پر جانا جاتا ہے اور میری تحاریر پاکستان کے تمام آن لائن پلیٹ فارمز اور بڑے اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔۔۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں آج جس مقام پر بھی ہوں اوپر بیان کیے گئے ان دو جملوں کی وجہ سے ہوں۔ کیونکہ میرے بچپن سے ہی والد صاحب نے یہ مثال اور جملے اتنی بار دہرائے کہ میں اردو زبان کی چاشنی کا گرویدہ ہو گیا۔
پاک فوج میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے والد صاحب نے پاکستان کے تقریباً ہر کونے اور دوردراز علاقوں میں قیام کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گھر والوں اور عزیز و اقارب سے رابطے کا واحد ذریعہ خط وکتابت ہوا کرتی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ والد صاحب ایسے دل نشین پیرائے میں خط لکھتے تھے کہ دل عش عش کر اٹھتا۔ ان کے لکھے خطوط آج تک میرے تمام ننھیال اور ددھیال والوں حتی کہ والد صاحب کے دوست احباب نے بھی سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔
ایسا ہی ایک خط جو انہوں نے کوئٹہ قیام کے دوران میرے ماموں جان کو لکھا تھا اس سے ایک افتباس ہے۔۔۔
"میں اس وقت جس کوارٹر میں قیام پزیر ہوں اس کے عین سامنے ایک برف پوش پہاڑی سربفلک کھڑی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ اور اس پر جمی برفیں مجھے کہ رہی ہیں کہ۔۔۔۔ "اے ہموار میدانوں کے باسی ذرا دیکھ تو سہی میرا حسن، جس کی تاب نا کر تیری آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں۔تم دم بخود مبہوت ہوئے جاتے ہو۔ تیری آنکھوں میں چمکتے آنسو میری عظمت کا اعتراف ہیں"
جبکہ میں ان برفوں کو کہتا ہوں کہ۔۔۔
"اے بلندیوں کو چھوتے برفانی تودو۔۔۔۔ میرے تمہارے حسن کا گرویدہ نہیں ہوں بلکہ میں تمہارے اندر رشتوں کی اس مٹھاس کو تلاش کرتا ہوں جو میرے اور میدان والوں کے ساتھ جڑے ہیں۔ میں تمہاری پرشکوہ بلندی میں محبتوں کی ان عظمتوں کو تلاش کرتا ہوں جو میرا سرمایہ حیات ہیں۔ مگر افسوس وہ تم میں کہیں نظر نہیں آتیں۔ میری آنکھوں سے چھلکتے آنسو تمہاری عظمت کے سبب نہیں بلکہ اپنوں کی تلاش میں ناکامی کے سبب ہیں"
یہ ایک پردیسی کا خط تھا۔ اس ایک افتباس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عبدالرزاق کھوہارا شہید کس قدر خوبصورتی سے اپنے جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنانے میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کی تحریر میں ہر عنصر نمایاں ہوتا تھا۔ رومانویت سے لے کر حقیقت پسندی، درویشانہ حکایتیں، زندگی کی تلخیوں سے روشناسی، حتی کہ دور اندیشی و پیش بینی تک جیسے عناصر شامل ہوتے تھے۔
تحریر کی طوالت کے باعث مختصراً اتنا لکھوں گا کہ ایک ناگہانی حادثے کے نتیجے میں والد محترم جناب عبدالرزاق کھوہارا شہید اب ہم میں نہیں رہے۔ لیکن ان کے لکھے الفاظ آج بھی قدم قدم پر ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔ اور ان کے عظیم و مثالی مصنف ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مثبت الفاظ کے موتی بکھیرنے کی صلاحیت عطاء فرمائے آمین۔