ادبی فائل : آٹھ
انور عظیم : یادوں کا گم ہوتا ہوا سرمایا
انور عظیم کون ؟ آپ فلم اداکار شاہد کپور کو جانتے ہیں .؟ انور عظیم انکے نانا ہیں . میں نے دو تین موقعوں پر شاہد کو انکے گھر میں دیکھا تھا .تب شاہد ا سٹار نہیں بنے تھے .اور یہ بات کس قدر رنجیدہ کرنے والی ہے کہ انور عظیم کے تعارف کے لئے شاہد کپور کے نام کا سہارا لینا پڑ رہا ہے ..انور عظیم ادیب تھے ، صحافی تھے .کالم نگار تھے ..کیا نہیں تھے . ترقی پسند تھے ..جوش میں آتے تو سجاد ظہیر سے بھی دو دو ہاتھ کر لیتے ..اس زمانے میں سجاد ظہیر بھی انور عظیم سے خائف رہتے تھے .. اور انکی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ شخص ترقی پسند ہے یا ترقی پسندی کا مخالف ؟ انور عظیم سچے نیک انسان تھے بلکہ کھرے اور اس لئے اکثر احباب بھی ان سے ناراض ہی رہتے تھے ..
اکتارا والا بچہ:
یادوں کا میری زندگی سے عجیب سا رشتہ ہے۔ آنکھیں بند کروں تو وہ ننھا منا سا شہزادہ اکتارہ بجاتا ہوا میرے سامنے آجاتا ہے۔ میں دروازہ پر کھڑا ہوں۔ گندے میلے کچیلے کپڑوں میں لپٹا ہوا بچہ جھوم جھوم کر اکتارہ بجائے جارہا ہے۔
اکثر سناٹے میں وہ بچہ اور اکتارے کی آواز میرے کانوں میں گونج جاتی ہے۔
پہلی بار قلم تھامتے ہوئے بھی وہ بچہ میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ میں لکھ رہا تھا، مگر اکتارہ کی دھن لگاتار میرے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔
ننھی منی چڑیوں کی طرح عمر کے پر نکل آئے تھے….
ننھے منے ڈینوں کے ساتھ عمر نے اڑنا سیکھ لیاتھا….
نئی نئی اڑانیں…. نئی نئی دنیائیں…. اجنبی دیس کی اور کبھی اپنی دنیائیں—
اکتارہ بجانے والا بچہ پوچھتا ہے…. ”کیا لکھ رہے ہو؟“
”…. جو بھی اڑنے میں دکھائی دے جائے۔“
”…. اچھا، تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے؟“
”…. پیڑ، پتے، چھوٹی سی کٹوری میں تیرتا ہوا ننھا منا چاند— نیلے آسمانوں میں رہنے والی سدا سہاگن راتیں اور….“
”…. تم سب کو لکھ ڈالتے ہو؟ ہے نا—؟“
”…. ہاں، کبھی نہ مرجھانے والا دن، عطر کی خوشبو میں ڈوبی دو پہریں۔ تم میرے ساتھ رہو۔ میں قلم کو کبھی تھکنے نہیں دونگا۔“
”…. قلم کے چہرے پر پرچھائیاں اگ آئیں تو؟ جھریاں پڑ گئیں تو….؟
اکتارہ والے بچے کے چہرے پر ہنسی تھی۔ وہ جھوم جھوم کر اکتارہ بجارہا تھا۔ مورنی کی طرح مست، ندی کی موجوں کی طرح اپنے آپ میں الجھا ہوا۔
پھر عمر کے ’ڈینے‘ بڑے ہوگئے۔
چھوٹے سے شہر آرہ سے ، دل والوں کی نگریا تک کا سفر….
عمر کے ’ڈینے‘ بڑے ہوگئے مگر عمر…. تھکنے لگی تھی۔ اکتارہ والا بچہ، ابھی تک بچہ تھا۔ ویسا ہی کھلنڈرا، مست ۔ یادوں کے گلیارے سے چلتا چلتا سناٹے میں اکتارہ بجانے لگتا….
زندگی کے شب وروز میں کتنے ہی کانٹے چبھے، کتنے ہی اندھڑ آئے۔ خوفناک طوفان۔ ’پوٹلی والا بوڑھا بابا، کھٹی میٹھی داستانوں کی کیسی کیسی پوٹلیاں لے کرآتا رہا۔ دکھ کی اور سکھ کی پوٹلیاں۔ اورصرف…. کبھی کبھی صرف پت جھڑ کے موسم….
’تم لکھ رہے ہو نا۔‘ اکتارہ والا بچہ پوچھتا ہے۔
”…. ہاں— میں موسموں میں نہیں گھبراتا۔ کہ جب تک سدا سہاگن راتیں ہیں اور عطر کی خوشبوﺅں میں ڈوبے دن…. اور میرے قلم کا سینہ نور سے پر ہے۔ گھبراﺅ مت۔ میں لکھتا رہوں گا۔“
”کاش ! ایسا ہی ہو۔“ اس بار اس کی آواز دکھ میں ڈوبی تھی۔
”مگر کیوں؟ تم اداس کیوں ہو؟“
”تم نے آخری پتہ والی کہانی سنی ہے…. تمہارے قلم کا آخری پتہ، پت جھڑ سے ٹوٹنے والا ہے۔“
”نہیں…. “ میں ڈر گیاتھا۔
”ڈرو مت۔محض ایک زرد سا پتہ، زندگی نہیں ہوتا…. پتہ کے ٹوٹنے سے….“ وہ اکتارہ بجاتے بجاتے ٹھہر گیا تھا۔
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
یہ وہ بچہ نہیں تھا۔ میرے بچپن والا ننھا منا شہزادہ۔ جو محلہ مہادیوا، میرے گھر کی چوکھٹ سے لگا، آنکھیں بند کیے، جھوم جھوم کر اکتارہ بجا رہا تھا….
اس کے چہرے پر اچانک جھریوں نے اپنا بسیرا کرلیاتھا۔
”گھبراﺅ مت ۔اب میں آخری بار تمہارے پاس آﺅں گا…. آخری بار….“
عمر کے ڈینے سخت ہوگئے تھے۔
زندگی کے پاﺅں خاردار جھاڑیوں میں الجھ گئے تھے…. قلم اچانک چلتے چلتے ٹھہر گیا تھا۔ اک بادِ سموم تھی۔ فضا ساکت….
اکتارہ بجانے والے بچے کا چہرہ دھند میں کھو رہاتھا۔
”اب میں نہیں آﺅنگا۔“
”کیوں….؟“
” تمہارے ادب میں برسوں پہلے خوشیوں کا ایک پودا لگایا گیاتھا۔“
”ہاں، مگر تم کیسے جانتے ہو….؟“
”میں سب جانتا ہوں— وہ ان لوگوں میں سے ایک تھا جس نے سب سے زیادہ اس پودے پر دھیان دیا— وہ پودے کو خوش رکھنے کا ہنر جانتاتھا۔ پودا ہنستا تھا، تو میرے گیت بھی ہنستے تھے۔ مگر اچانک وہ پودا۔ وہ پودا کمھلا گیا ہے، اور میرے گیت…. “ وہ اکتارہ بجانے کی کوشش کرتا رہا….
مگر…. اکتارہ گیت سے محروم تھا….
دھندلاہوتے ہوتے بچے کا چہرہ ایک دم سے گم ہوگیا….
”مگر وہ پودا….؟“
” اس پودے کو کھلکھلانا انور عظیم نے سکھایا تھا۔“
اس کی آواز کہیں کھو گئی تھی….
”انور عظیم….“
سناٹے میں اچانک زور زور سے یہ نام گونج جاتا ہے۔ کہانیاں لکھنے کا شوق پیدا ہوا، تو ادب میں انور عظیم کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا…. پریم چند سے انور عظیم تک…. یہ تذکرے کچھ اس طرح ہونے لگے تھے کہ انور عظیم کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہونے لگی تھی….
کہانیاں…. کہانیوں کے آسمان سے جھانکتا ہوا ایک چہرہ۔
اور….
وقت کی ذنبیل میں دفن کہانیاں….
یہ کہانیاں اچانک میرا راستہ روک لیتی ہیں….
ایک جانی پہچانی سی، شفقت آمیز آواز میرا پیچھا کرتی ہے….
”آپ آئے نہیں؟“
”نہیں…. میں نے فون کیاتھا۔“
”آجاتے…. اکیلا آدمی جاتا ہی کہاں ہے۔ اکیلے آدمی کو آنے والوں کا انتظار رہتا ہے۔ “
وہ بولتا ہوا سدا بہار چہرہ— وہ گنگناتا ہواچہرہ— وہ بچوں سی مسکان لٹاتا ہوا چہرہ — وہ ہر پل بچہ بن جاتا ہوا چہرہ….
کیا یہی چہرہ قومی آواز کا ہفتہ وارکالم ’باتیں‘ لکھا کرتا تھا۔
کیا یہی چہرہ بلٹز جیسے انتہائی سنجیدہ رسالہ سے جڑا ہوا تھا۔
کیا اسی چہرے نے لابوہیم جیسی کہانیاں ادب کو دی تھی۔
اکتارہ والا بچہ خاموشی سے کہتا ہے…. ”بچپن میں، بچپن والا سدا بہار چہرہ کسی نوٹ بک میں رکھ کر انہوں نے اپنے بڑھاپے کے لیے محفوظ کردیاتھا۔ پھر بڑھاپا آیا ہی نہیں۔“
میں نے جب دیکھا ،وہ بچپن والے چہرے کا ماسک لگا چکے تھے۔
ll
(۲)
نعش گاڑی
تاریخ….؟
میں گھر میں داخل ہوا ہوں۔ تبسم مجھے بتار رہی ہیں۔ ”انیس بھائی (انیس امروہوی) کافون آیا تھا۔ آپ جلدی سے ان کے پاس چلے جائیں۔“
”کیوں کیا ہوا؟“
تبسم کی آواز لڑکھڑا رہی ہے…. ”انور عظیم گزر گئے….“
مجھے لگتا ہے…. نہیں، کہانیاں گزر گئیں….کہانیاں کھو گئیں….
پریم چند کی وراثت کو زندہ رکھنے والا، ویرانیوں کی خاموشی میں کبھی ختم نہ ہونے والی گپھاﺅں میں۔ اپنے قصے کہانیوں کی پوٹلی اٹھا کر چلاگیا….
”میں جارہاہوں۔“
آواز ٹوٹ رہی ہے۔ آواز برف میں دب گئی ہے….
میں تبسم کی آنکھوں میں ان سسکیوں کو پڑھ سکتا ہوں۔ آپ جانتے ہیں وہ مجھے کتنا مانتے تھے….“
مجھے یاد ہے…. پیرا ڈائز اپارٹمنٹ ۔ ہر بار ان کے گھر کے دروازے پر قدم رکھتے ہی پہلا سوال ہوتا تھا۔
”تبسم نہیں آئیں۔“
”نہیں۔ اگلی بار ضرور لے کر آﺅں گا۔“
”لے آﺅ یار، اگلی بار کا کیا ٹھکانا۔ زندگی ساتھ دے نہ دے۔“ زندہ دل مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے ان کا دوسرا جملہ ہوتا…. ”آپ لوگوں کے لیے چائے بناتاہوں….“
ll
وہی پیراڈائز اپارٹمنٹ….
یہاں سے جنت کے لیے بھی کوئی کھڑکی کھلتی ہے کیا؟
ضرور کھلتی ہوگی۔
آج ہمیشہ کی طرح دروازہ بند نہیں…. دروازہ کھلا ہے۔
شناسائی کے قدموں کی چاپ سننے والا، دستکیں پہچاننے والا اور بند دروازے کھولنے والا، کسی اجنبی روزن سے پیرا ڈائز اپارٹمنٹ کے اپنے کمرے سے نکل کر، انجانی جنت کے خوبصورت راستوں کی طرف مڑ گیا ہے۔
کمرے میں اداسی ہے….
کتنے لوگ ہیں….
نہیں…. مجھے گنتی نہیں آتی۔
لیکن یہاں تو گنتی کی ضرورت بھی نہیں…. ایک دو۔ تین چار….
خدیجہ عظیم آہستہ سے ہماری طرف بڑھتی ہیں۔ ”اچھا کیا آپ لوگ آگئے۔ ایسے موقع پر جو پڑھا جاتا ہے۔ جلدی جلدی پڑھ ڈالیے۔ تاکہ جنازے کو جلدی جلدی قبرستان پہنچایا جاسکے۔ نند کشور وکرم خاموشی سے میرا ہاتھ دباتے ہیں…. انیس بھائی میری طرف دیکھتے ہیں۔
سب سے پہلے وہی دعا میں ہاتھ اٹھاتے ہیں۔
دعا میں ہاتھ میرے بھی اٹھے ہیں….
میں خاموشی سے سناٹے میں گم چہروں کو تکتاہوں…. اللہ یہاں سے جنت کو جانے والا رستہ کون سا ہے مولا—؟ وہ اپنی کہانیوں کی پوٹلی لے کر چلا گیا ہے….
میرے اندر ایک چیخ اٹھتی ہے….
”سن رہے ہو تم۔ آہ، اردو افسانہ یتیم ہوگیا۔“
جنازہ ایمبولینس میںرکھ دیاگیا۔ انیس بھائی جنازے کے ساتھ ہی ایمبولینس میں بیٹھ گئے۔ میں اور نند کشور وکرم دوسری گاڑی میں ہیں۔ خدیجہ عظیم نے کہا ہے۔ یہاں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ آخری غسل تجہیز وتکفین کے لیے ہم سب اوکھلا کے کسی مدرسے میں چلیں گے…. اتنی جلدبازی کیوں ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ انور عظیم تو کبھی بھی اپنی کہانیوں کے معاملے میں جلدباز نہیں رہے…. لمبی لمبی، نہ ختم ہونے والی کہانیاں۔ لیکن شاید موت کے بعد…. نہیں، مجھے اپنے الفاظ کے ساتھ شاید نرم رویہ اپنانا چاہئے۔ دیکھتے نہیں، نیلما عظیم آچکی ہیں۔ ان کا ہیرو بیٹا شاہد بھی ہے۔ انور عظیم کا وہ بیٹا بھی ہے جو جے این یو میں پروفیسر ہے…. میگھا بھی ہے۔ جو انور عظیم کے یہاں گفتگو میں ہمیشہ ہمارے درمیان شریک ہوجایا کرتی تھی۔ممکن ہے، سب کو ہی جانے کی جلدی ہو…. آخرکون انتظار کرے…. لابوہیم جیسی انوکھی کہانیاں تخلیق کرنے والا تو گزر چکا ہے….
جنازہ اوکھلا کی تنگ گلیوں سے گزر رہا ہے— مسجد کہاں ہے، کسی کو نہیں معلوم— کسی کے پاس مکمل پتہ نہیں ہے۔
میری گاڑی کے آگے وہی ایمبولینس ہے جس پر ہندی میں لکھا ہے۔ (شو چالن) یعنی نعش گاڑی۔
اکتارہ والا بچہ اچانک دونوں گاڑیوں کے درمیان آجاتا ہے۔
وہ افسردہ ہے۔
وہ خوفزدہ ہے۔
وہ سہما سہما سا مجھ سے پوچھتا ہے….
”یہ کیا ہورہا ہے؟ ان لوگوں کو منزل، کیوں نہیں ملتی؟“
”تم اپنے لب بند ہی رکھو تو بہتر ہے۔ جسے آخری منزل، مل چکی ہے۔ میں ابھی اس کے بارے میں بھی نہیں سوچ رہا….“
”کیا ان کے پاس مکمل پتہ نہیں ہے؟“
”نہیں….“
اکتارہ والے بچے کے چہرے پر سہمی سی ہنسی امڈتی ہے….
”کیا قبرستان کے پتے کے لیے بھی بھٹکنا پڑتا ہے۔؟“
ایک بار پھر اس کا چہرہ گم ہوگیا ہے…. مجھے اس اکتارہ والے، ننھے منے شہزادے کے چہرے کے کھونے کا صدمہ ہے…. کہ یہی چہرہ سدا سے ادب کا چہرہ رہا ہے۔ صاف شفاف۔ ریا، مکاری، دغابازی اور خود غرضی سے الگ کا چہرہ…. ایک پاکیزہ، پرنور چہرہ…. اپنی تنہائیوں سے گھبراکر جب میں خود کو ادب کی آغوش میں پاتا، تو وہی سدا بہار نغمہ، وہی اکتارہ کی مدھر دھن میرے کانوں میں گونج کرتی تھی….
اوراس رات بھی وہی ہوا….
کیا بجا تھا، یاد نہیں…. انور عظیم کی یادیں لیے میں اپنے کمرے میں واپس آگیاہوں۔ اکتارہ والا بچہ بھی ہے…. لیکن گم سم…. ہاتھ میں اکتارہ بھی ہے….
”آج نہیں گاﺅ گے؟“
”نہیں“
”سمجھ سکتاہوں۔“ میںپھر پو چھتا ہوں۔
”کبھی نہیں گاﺅ گے؟“
”میں نے یہ تو نہیں کہا۔“
”ہاں ۔ شاید۔ تمہیں یاد ہے۔ شاید تم اس درمیان بھی وہاں موجود ہوتے تھے۔ ہے نا— وہ کتنی محبتیں کرتے تھے۔ انیس بھائی اور میں ان کی بے تکلف دوستی کے گواہ تھے۔ وہ اکیلے ہوتے تھے، مگر کسی کو بھی تکلیف دینے کے قائل نہیں تھے۔ خود چائے بناتے تھے۔ ناشتہ لگاتے تھے اور…. ریاکاری سے الگ کی باتیں۔“
”اچھا ادب تبھی تخلیق ہوتا ہے…. آہ!“
میں چونک اٹھتا ہوں….
”وہ مصلحتوں سے الگ ایک شہنشاہ تھے—“ وہ آہستہ آہستہ اکتارہ کو سہلائے جارہا ہے۔
”یاد کرو۔ تمہارے ساتھ کتنا بڑا حادثہ ہوگیا تھا…. مگر وہ ایسے بھول گئے، جیسے کچھ بھی نہیں ہوا ہو…. یاد کرو….“
وہ ایک بار پھر نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ یادوں کی پگڈنڈی پر میں ذرا دور نکل جاتاہوں۔ اس حادثہ نے جیسے پیر تسمہ پا کی طرح مجھے جکڑ لیا ہے….
میں اپنے آپ کو ایک ایسا مقروض محسوس کررہاہوں، جو وداع کی پہاڑیوں میں گم ہوگئی معصوم آنکھوں کے آگے بالکل ہی ننگ دھڑنگ پڑا ہو….
اور وداع کی پہاڑیوں میں گم ہونے والی آنکھوں نے کہا ہو….
”ذوقی، ایسا ہوجاتا ہے۔ ایسا کبھی کبھی ہوجاتا ہے۔ گھبراتے کیوں ہو؟“
انتقال سے کچھ ماہ قبل کی بات ہے۔ ہندی میں ترجمہ کی گئی کچھ کہانیاں انہوں نے میرے حوالے کی تھیں۔ کسی پبلشر سے بات کرلینا…. یہ ساری کہانیاں وہی تھیں، جو کتابی شکل میں اردو میں موجود تھیں…. انور عظیم اپنی پسندیدہ کہانیوں کو ہندی میں دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر وہ مسودہ میرے پاس سے کہاں چلاگیا، مجھے یاد نہیں۔ وہ پبلشر کون تھا؟ یا میں نے دیا ہی نہیں۔ مجھے یاد نہیں، میں نے، ان کی ، بار بار کی یاد دہانی کے بعدکئی کئی دن تک گھر سر پر اٹھائے رکھا۔ مگر مجھے مسود نہیں ملا…. میرے گھر ہندی کے پبلشر بھی آتے رہتے ہیں۔ ایک ہلکا سا شبہ مجھے یہ بھی ہے کہ مسودہ اٹھا کر میں نے ان میں سے ہی کسی ایک پبلشر کے حوالے نہ کردیا ہو۔
…. کہ اچانک ایک دن ہندی میں چھپی ہوئی ان کی کتاب سامنے آجائے…. لیکن اگر ایسا ہو بھی گیا تو اب پسندیدہ نظروں سے دیکھنے والی وہ آنکھیں کہاں سے لاﺅں گا، جو انہیں دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہوجائیںگی…. آخری چند ملاقاتوں میں کہی گئی ایک چھوٹی سی بات میرے ذہن میں محفوظ رہ گئی ہے۔
”کبھی کبھی کچھ گم ہوجانا بھی بہانا بن جاتا ہے…. بہانا…. اور اسی بہانے ہم اپنی یادوں کو ٹٹولتے رہتے ہیں۔“
مجھے ابھی بھی لگتا ہے۔ وہ کہیں گئے ہی نہیں۔ وہ ابھی بھی پاس میں بیٹھے ہیں…. اوکھلا اور جامعہ کی گلیوں میں بھٹک رہی لعش لاڑی کو منزل ملی ہی نہیں اوروہ اکتا کر ، گھبرا کر اٹھ گئے۔
”گھر لے چلو۔ مجھے کالم لکھنا ہے۔ کچھ کہانیاں مکمل کرنی ہیں۔“
اکتارہ والے بچے نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ہے۔
وہ ہاتھوں میں قلم لے کر اپنے لکھنے والی میز پر، پھر سے شروع ہوگئے۔ اور اکتارہ والے، ننھے منے شہزادے نے پھر سے ا پنے سریلے نغمے کی دھن تیز کردی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“