مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
— میر تقی میر
پنڈت دیا شنکر نسیم نے مثنوی گلزار نسیم میں محبت اور انسانیت کا تاج ، بادشاہ کے پانچ بیٹوں میں سے ایک تاج الملوک کے سر رکھا . تاج الملوک جو حساس اور فرشتہ صفت انسان ہے .جب بادشاہ کی بینائی جاتی رہی تو تاج الملوک بادشاہ کی خدمت میں مصروف رہا . غلامی کا دور ، جب اردو زبان کو کچھ کر دکھانے کی ضرورت تھی ، وہ تاج الملوک کی طرح آیا . ظرافت اور ڈراموں کا راستہ دکھایا . کم عمری میں ہی ادب کا سلطان کہلایا .
میرے بڑے بھیا کا نام مسرور آروی ہے .انشایہ لکھتے ہیں . ایک زمانہ میں ان کے نام کی بھی دھوم تھی .پھر بھیا نے ١٩٩٠ کے بعد لکھنا کم کر دیا . ایک دن بولے ، خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے ..
خلیل میاں کون ؟ میں نے پوچھا . خلیل میاں نے فاختہ اڑانا بند کیا تو ماسٹر بے دھڑک بن گئے . میں اسکول میں تھا . اس زمانے میں بھیا مسلسل اخباروں میں لکھ رہے تھے . ماسٹر بے دھڑک نے ایک منایی ،ماسٹر بے دھڑک نے قربانی کی .
میں نے ایک دن پوچھ ہی لیا ..ماسٹر بے دھڑک کون ..؟
جواب ملا ..امتیاز علی تاج .
پہلی بار میں نے بھیا کے منہ سے امتیاز علی تاج اور چچا چھکن کا نام سنا . میں دل ہی دل میں ہنسا ..تو ماسٹر بے دھڑک چچا چھکن کے چھوڑ دروازے سے طلو ع ہوئے تھے . ؟ پھر میں نے چچا چھکن کو کھوج نکالا . کالج میں پنہچا ، تو امتیاز علی تاج کے ڈرامے پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا . اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی شادی حجاب امتیاز علی سے ہوئی ہے .. میں خوب ہنسا ..بھلا گھر میں ان دونوں کے ما بین کیا مکالمے ہوتے ہوں گے .. ایک مشرق تو دوسرا مغرب ..
امتیاز علی تاج نے پوچھا ، بانو ، چائے بن گیی ؟
حجاب نے جواب دیا .و .ہ بچھڑے ہوئے وقت کی ایک بہت پرانی مگر بہت ہی اداس اورالمناک رات تھی جس کی سیاہی، جس کی خاموشی اور جس کی اداسی آج بھی، آج اتنے سالوں بعد بھی میری روح کو آمادہ گریہ کر رہی ہے اور قلب پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دیتی ہے۔
بانو ، چائے بنی ؟
حجاب خیالوں میں گم …۔ مصور لبریزی کا وطن واپس آنا، دشت کیباس میں مجادلہ عشق، سیاح زرنور۔شرق سے نیلی نیلی گھٹائیں اٹھ رہی تھی۔ .. شمشاد کا درخت ..خاتون روحی.. زونا ش قہوہ براہ کرم..
قہوہ نہیں چائے بانو ..
’بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے‘..حجاب .اپنے ہی خیالوں میں غلطاں ق پیچاں .. طبی مشیر بوڑھے ڈاکٹر گار نےآپ کو کسی ایسے شہر میں تبدیل آب و ہوا کے لیے جانے کی رائے دی ہے ..جو سمندر کے کنارے آباد ہو۔زوناش سہمی ہوئی تھی..سمندری نیلے رنگ کا ڈریسنگ گون کندھے پر ڈال کر لباس نکالنےکے لیے الماری کی طرف گئی۔ دفعتاً باغ کی راہ سے باورچی خانے کی طرف سے زوناش کے زور سے رونے کی آواز آئی..
— سمجھ گیا ..اب چائے نہیں ملے گی ..
مگر اس شادی کے لئے غلطی کس کی تھی .. کہاں خاتون زوناش ..کہاں چچا چھکن ..
مگر چچا چھکن بھی کم کہاں تھے . آسیبی کہانی بھی لکھی .ڈرامے بھی . ظریفانہ رنگ بھی ، اور سنجیدہ رنگ بھی .
امتیاز علی تاج معروف طنز و مزاح نگار اور ڈراما نگار تھے۔ 13 اکتوبر 1900ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ بچپن ہی سے ڈراما سے دلچسپی تھی . یہ ان کا خاندانی ورثہ تھا۔ ابھی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک ادبی رسالہ (کہکشاں) نکالنا شروع کر دیا۔ اس زمانے میں ڈراما کے فن نے کوئی خاص ترقی نہیں کی تھی .مگر اس کے باوجود عوام میں دلچسپی برقرار تھی . مرد عورتوں کا کردار ادا کرتے تھے . اور پنڈال سے تالیوں کی آوازیں گونجا کرتی تھیں . بائیس برس کی عمر میں امتیاز علی تاج نے ڈراما انار کلی لکھا جو آج بھی اردو ڈراما نگاری کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے .انہوں نے بچوں کے لیے کئی کتابیں لکھیں۔ کئی ڈرامے اسٹیج، فلم اور ریڈیو کے لیے تحریر کیے۔ انگریزی اور فرانسیسی زبان کے ڈراموں کا ترجمہ کیا . بچوں کے لیے ایک جاسوسی سیریز انسپکٹر اشتیاق شروع کی. مگر چچا چھکن آئے تو ہنگامہ ہو گیا . محاصرہ غرناطہ (ناول) بھی تخلیق کیا .۔ان کے کامیاب ڈراموں میں ، آخری رات، پرتھوی راج، گونگی، بازار حسن اور نکاح ثانی کا نام لیا جا سکتا ہے .
بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا ’.سحر البیانی ایسی کہ قاری کے ہوش غائب .’چچا چھکّن‘ایک دور کا نام تھا . ’خوجی‘‘(رتن ناتھ سرشار)اور ’’حاجی بغلول‘‘(منشی سجّاد حسین،مُدیر اودھ پنچ) کے کرداروں کے ساتھ چچا چھکن کا نام بھی اردو دنیا کی تاریخ میں امر ہے .ادبی گھرانے سے تعلق اور ایسا ادبی گھرانہ جو ہمیشہ اردو کے فروغ کے بارے میں سوچتا تھا . بچوں کی تربیت کا خیال آیا تو ان کے والد سیّد ممتاز علی نے رسالہ پھول جاری کیا .تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔ دلچسپ یہ کہ پھول کے ذریعہ وہ بیٹے امتیاز علی کو خوابوں اور افسانوں کی دنیا میں لے جانے کے خواہشمند تھے . یعنی بیٹے کی علمی و ادبی لیاقت کو باپ نے کم عمری میں ہی پہچان لیا . اور بیٹے نے کم عمری میں ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کہ ایک دنیا حیران رہ گیی .انار کلی ڈرامہ بھی کم عمری میں لکھا .شیکسپیئر کے ڈراموں کو اُردو کے قالب میں ڈھالا . 1918، عمر کا اٹھارہواں سال ..وہی پندرہ کے یا کہ سولہ کا سن ..جوانی کی راتیں مرادوں کے دن ..مرادوں کے دن ’’کہکشاں‘‘ کے نام ہو گئے .یہ ادبی رسالہ تھا جس کو امتیاز علی تاج نے جاری کیا . مولانا عبدالمجید سالک بھی پرچے سے منسلک تھے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے کہکشاں نے ادب میں پرچم لہرا دیا . اس میں اس وقت کے تمام بڑے لکھنے والے شامل تھے . پریم چند بھی اس قطار میں تھے .
ڈرامہ انار کلی لکھا تو جیسے طوفان آ گیا .ادب میں جو مقبولیت اس ڈرامے کو ملی وہ ایک مثال ہے .یہ ڈراما جہانگیر اور انارکلی کے فرضی معاشقے پر مبنی تھا . اور یہ محض قیاس نہیں کہ کے آصف نے مغل اعظم کی بنیاد رکھنے سے قبل اس ڈرامہ کو ضرور پڑھا ہو گا . امتیاز علی تاج نے ڈرامے میں ہر کردار کو زندہ جاوید بنا دیا .مکالمے ایسے کہ سیدھے دلوں میں اتر جائیں . اور تماشا یہ کم عمر میں شہزادے نے مقبولیت کے چاند کو چھو لیا .ڈرامہ نے حکیم محمد یوسف حسن کو بھی متاثر کیا . نیرنگ خیال نکالتے تھے . ان دنوں وہ Jerome K Jerome کی کتاب ’’تھری مین ان ا ے بوٹ‘‘ کا مطالعہ کررہے تھے۔ ایک کردار ’’انکل بوچرانہیں پسند تھا. حکیم صاحب جانتے تھے کہ اگر اردو میں اس کردار کو کوئی ڈھال سکتا ہے ، تو وہ نام امتیاز علی تاج کا ہے . امتیاز علی کو آئیڈیا پسند آیا اور چچا چھکن ایسے اچھلے کہ کبھی تصویر ٹانگی جا رہی ہے ، کبھی کوئی دوسری حماقت افسانہہو رہی ہے . ’ڈاکٹر وزیر آغا کو کہنا پڑا — ’’چچا چھکّن میں ہم پہلی بار اپنے ادب کے صحیح ترین مزاحیہ کردار سے متعارف ہوئے ہیں کہ یہاں لفظی بازی گری، عملی مذاق اور مضحکہ خیز حلیے کے بجائے صرف فطری ناہم واریوں سے مضحکہ خیز واقعات کو تحریک ملی ہے۔
چچا چھکن سے ایک اقتباس دیکھئے ، وہ ماحول سے واقعات ، واقعات سے مزاح ، مزاح سے تیر و نشتر کی بارش کرتا ہے ..
باقر علی صاحب خاموش ہو گئے۔ خان صاحب کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ بولے۔ ”آپ سا منصف مزاج بزرگ پوچھے گا تو بیان کروں گا ہی، آپ سے کیا پردہ ہے۔ ‘‘
چچا پھول گئے۔ کچھ کہنا ضروری معلوم ہوا۔ ”نہیں نہیں کوئی بات نہیں۔ آپ بلا تکلف کہئے۔ ‘
خان صاحب نے کہا۔ ”آپ کو علم ہی ہے کہ اس سامنے کے مکان کی نچلی منزل میں ہم رہتے ہیں اور اوپر کی منزل میں ایک کھڑکی ہے جس سے ہمارے مکان کے صحن میں نظر پڑتی ہے۔ ‘‘‘‘
چچا نے با ت کاٹ کر فرمایا۔ ”جی ہاں جی ہاں، میری دیکھی ہوئی کیا، میرے سامنے بنی اوراس ایک کھڑکی کا کیا ذکر، اس سارے مکان کی تعمیر میں میرا بہت کچھ دخل رہا۔ مالک مکان فضل الرحمن خان کے مجھ سے مراسم تھے۔ حیدر آباد جانے سے پہلے ہر روز شام کو ملنے آتے تھے اور سچ پوچھئے اُنہیں یہ مشورہ بھی میں نے ہی دیا تھا کہ خالی زمین پڑی ہے اور کوڑیوں کے مول بک رہی ہے۔ تو کچھ ایسی صورت کرنی چاہیے کہ کرائے کی ایک سبیل نکل آئے۔ تو انہوں نے یہ گویا مکان بنایا۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا، آپ بات کہئے۔ ‘‘
خان صاحب نے سوچا کہ بات کہاں تک کی تھی۔ بولے”جی تو اوپرکی منزل میں ایک کھڑکی ہے کہ اس سے ہمارے ہاں کے صحن میں نظر پڑتی ہے۔ ہم اس مکان میں پہلے سے رہتے ہیں۔ یہ حضرت بعد میں آئے۔ آتے ہی ہم نے ان سے کہہ دیا کہ مولوی صاحب اس کھڑکی میں اگر آپ تالا ڈلوا دیں تو مناسب ہے۔ ورنہ عورتوں کاسامناہوا کرے گا اور مفت میں کوئی نہ کوئی قصہ کھڑا ہو جائے گا۔ ‘‘
چچا نے داددی۔ ”بہت مناسب کارروائی کی آپ نے۔ قانونی نقطۂ نظر سے گویا آپ نے ایک ایسی پیش بندی کر لی کہ بعد میں اگر کسی قسم کی بھی شکایت پیدا ہوتو آپ کو گرفت کا جائز موقع ملے۔ بہت ٹھیک۔ جی تو پھر؟ ‘‘
— چچا چھکن نے عدالت لگایی
چچا چھکن ہی نہیں ، تاج نے ناول بھی لکھے .زہرا ناول کو مقبولیت ملی . وہ ہر میدان میں خود کو آزمانا چاہتے تھے .اور جس میدان میں بھی قدم رکھتے . بازی ان کے ہاتھ
رہتی . ایک دنیا کم عمر میں ہی انکا اعتراف کر چکی تھی .1935ء میں امتیاز علی تاج کی شادی حجاب اسماعیل سے ہوئی . ہندوستان میں آزادی کے نعرے گونجنے لگے تھے . تقسیم کی سیاست حاوی ہو چکی تھی .امتیاز علی تاج یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے . تقدیر و تدبیر کے کھیل میں ہندوستان الجھ گیا تھا . انگریزوں کی تقدیر بلند اور ہندوستانیوں کی تدبیر کے جام شکستہ . تقدیر و تدبیر کا یہی کھیل انار کلی اور سلیم کی محبت کا بھی حصّہ تھا . تاج نے اس کشمکش کو زندگی کا نام دیا اور ایسے روح فرسا حقائق کو بیان کرنے والے مکالمے لکھے کہ اس دور کے بڑے بڑے مہارتھی ششدر رہ گئے ..
” چمپئی رنگ میں اگر سرخی کی خفیف سی جھلک نہ ہو تو شائد بیمار سمجھی جائے خدوخال شعراءکے معیار حسن سے بہت مختلف، اس کا چہرہ دیکھ کر ہر تخیل پسند کو پھولوں کا خیال ضرور آتا ہے۔ “
"کیا معلوم تھا یوں ہو گا شیخو! میرے مظلوم بچے! میرے مجنون بچے! اپنے باپ کے سینے سے چمٹ جا! اگر ظالم باپ سے دنیا میں ایک بھی راحت پہنچی ہے تیرے سر پر اس کا ایک بھی احسان باقی ہے تو میرے بچے اس وقت میرے سینے سے چمٹ جا اور تو بھی آنسو بہا اور میں بھی آنسو بہاؤں گا"
” گھنے پیڑ وں کے طویل سلسلے میں کھجوروں کے کم بلند اور ساکت درخت کالے کالے نظرآ رہے تھے راوی ان دور کی رنگینیوں کو اپنے دامن میں قلعے کی دیوار تک لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ “
"آہ! میرے خواب۔ وہ ایک عورت کے عشووں سے بھی ارزاں تھے۔ فاتح ہند کی قسمت میں ایک عورت سے شکست کھانا لکھا تھا۔"
مجھے چھو مت! ایک دفعہ باپ کہہ دے۔ صرف ابا کہہ کر پکار لے! میں تجھے خنجر لا دوں۔ ہاں خنجر لا دوں، بیٹا یہ بد نصیب باپ جسے سب شہنشاہ کہتے ہی ن، اپنا سینہ شگاف کر دے گا، خنجر اس کے سینے میں گھونپ دینا، پھر دیکھ لے گا اور دنیا بھی دیکھے گی کہ اکبر باہر سے کیا ہے اور اندر سے کیا ہے۔"
— انار اکلی سے
اردو ادیب کی بے بسی اور لاچاری کا عالم یہ ہے کہ اُس نے بہت کم اپنی زمین سے جڑنے کی کوششیں کی ہیں___ تقسیم سے قبل عمدہ قسم کی، حقیقت نگاری کی مثالیں تو مل جاتی ہیں لیکن آزادی کے بعد ’زمین‘ ہمارے زیادہ ترفکشن رائٹر کے پاس سے گم ہوگئیں یا دانستہ طور پر گُم کردی گئی___ اس واپسی میں ایک خاص طرح کی بے حسی اور اُداسی کو بھی دخل تھا جو آزادی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی___ اس المیہ کو اردو نے کچھ زیادہ اس لئے بھی محسوس کیا کہ پاکستان کی تعمیر میں، غریب زبان اردو بھی موردِ الزام ٹھہرائی گئی۔ تقسیم کا زخم، ہندومسلم فسادات، ماحول میں خوف کے اثرات___مگر ایک وہ بھی تھا ، جو غلام ہندوستان میں چچا چھکن لکھ رہا تھا . ڈرامہ انار کلی تحریر کر رہا تھا . میں دوبارہ انار کلی کی طرف واپس آتا ہوں ..وہ فکر کیا تھی جس نے ڈرامہ انار کلی کو لافانی زندگی دی .مت سہل ہمیں جانو . اس نے غلام ہندوستان سے علامتیں اور استعاروں کے نگینے قبول کیے اور تقدیر و تدبیر کی عظیم داستان انار کلی میں یہ نگینے جڑ دیے .ڈرامہ بغیر مکالموں کے نہیں کھیلا جاسکتا___ اور حقیقتاً انسانی قدروں کے ابلاغ کے اس موثر ذریعہ سے وہ واقف تھا . اور آج کی تاریخ میں اس تاریخ کے ہزاروں شو ہو چکے ہیں . اور آج بھی یہ ڈرامہ ہماری زندگی ، معاشرہ ، سیاست کا آئینہ دار ہے . برجستہ اور حسین مکالموں نے ڈرامہ انارکلی کو وہ مقبولیت دی کہ آج بھی ڈرامہ کا سحر طاری ہے .
پریم چندنے لکھا ” مجھے جتنی کشش انار کلی میں نظرآئی، کسی اور ڈرامے میں نہیں “
پطرس بخارینے کہا ”انار کلی اور اردو ڈراما کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی۔ “
عباد ت بریلوینے لکھا ” انار کلی کی اشاعت ایک تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ “
حفیظ جالندھریکو کہنا پڑا ” یہ تصنیف ڈراما کی تاریخ میں نہ صرف ایک اہم کردار کے طور پر زندہ رہے گی بلکہ ڈراما نویسوں کے ليے مشعل راہ کا کام دے گی،
وہ تخیلاتی سفیر تھا . اس کی زندگی عشق اردو کی تفسیر اور وہ اعتمادِ ذات سے نگینے تراشتا تھا .
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا ہو دیا سومنات کا
امتیاز علی تاج کے فروغ حسن سے دیے آج بھی روشن ہیں .. اردو ہمیشہ زندہ رہے گی اور دیے کی روشنی میں کبھی کمی نہ ایگی ..
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...