ایک نیا خلائی جہاز سورج کے مدار میں بھیجا گیا ، تو وہاں ایک اور آفتاب پہلے سے روشن تھا .. علم و فنون کا آفتاب کہ اس کی شہرت افق بلکہ آفتاب کی چمک تک تھی .
ہارمونیم ، بنسری،رباب،ستار،دف اس کی شناسایی سب سے تھی . جب روح نغمہ سرایی میں مصروف تھی ، سازندے رقص میں تھے ، وہ نغموں سے نئے انسان کو جنم دے رہی تھی .
دستر خوان سجا . انواع و اقسام قسم کے کھانے سج گئے . کھانوں سے زیادہ دلچسپی مکالموں میں تھی .. پہلے پھلوں کا ذکر آیا تو آموں کے نام گنوائے گئے .بھورا، سندھڑی، کالا سندھڑی، بنیگن پھلی، دوسہری، الفانسو، ثمر، بہشت، طوطا ہری، سبز، انور رٹول، چونسہ، دل آرام، سرولی، ثریا، پونی، حبشی سرولی، لنگڑا، دوسی ولین، کلکٹر، سورانیکا، بادام، نیلم، بھرگڑی، سفید الماس، زہرہ، شا سندر، سیاہ مائل، زعفران، جبل پوری، دیسی آم میں پتاشہ، لڈو، گلاب جامن، سفید گولا، سبز گولا اور سندوری –پھر ادب آ گیا .
شیکسپئر ..بائرن .. موپاسان ..برنارڈ شا ..
ملکہ عالیہ نے لقمہ لیا . سب پرانے ٹھہرے .
.ادب ، آرٹ، تہذیب، لباس، رقص ، موسیقی اور فنون ِلطیفہ کا ذکر ہوا . فارسی کے اثرات سے ہندوستان کی تہذیب و تمدن اور ثقافت پر جو اثرات نمایاں ہوئے ، شہزادی بیٹی
کی دلچسپی ان کہانیوں میں تھی . قلعوں،محلوں اور میناروں کے درودیوار اور نقاشی پر گفتگو چل پڑی . پھر تصوف ،مذہب ،معاشرت اور اخلاق نے جلوہ دکھایا امیر خسرو اور ہندوستان کے حوالے سے کچھ باتیں ہوئیں . اجنتا ،تاج محل اور دیوانِ غالب سامنے آ گئے ..
بادشاہ ، ملکہ اور شہزادی ..اس خاندان پر قربان جائے ، کہ نقاشی ، مصوری ، تصوف سے ادب تک معیاری گفتگو کا وہ انداز کہ ایسے ماحول سے نگینے ہی پیدا ہوتے ہیں . ملکہ عالیہ بھی ایک نگینہ تھیں ..
بادشاہ ، سجاد حیدر یلدرم ، ترکی زبان اور ترکوں سے محبت کرنے والے ۔ بغداد کے برطانوی قونصل خانہ میں ترکی ترجمان کی ضرورت ہوئی تو وہاں چلے گئے۔ بغداد سے تبدیل ہو کر قسطنطنیہ کے برطانوی سفارت خانے میں چلے گئے پہلی جنگ عظیم چھڑنے سے پہلے وہ امیر کابل کے نائب سیاسی ایجنٹ ہو کر ہندوستان واپس چلے آئے۔ ساری دنیا کی سیر . ملکہ بھی بڑے گھر کی . نام نذر زہرا بیگم تھا . ۱۹۰۵ء میں تیرہ برس کی عمر سے ان کی تحریریں شائع ہونی شروع ہو گئی تھیں۔ ۱۹۰۹ء میں جب سید ممتاز علی نے لاہور سے بچوں کا رسالہ ’’پھول‘‘ جاری کیا تو نذر زہرا بیگم کو جو بنت نذر الباقر کے نام سے لکھتی تھیں ، پھول کی ادارت سونپی .
نذر سجاد حیدر کے مطابق انہوں نےاپنی والدہ کے انتقال کے وقت نو عمری کے زمانے میں ، ۱۹۰۸ء سے ’’تہذیب نسواں ‘‘ میں لکھنی شروع کی تھی۔ ایک عرصے تک باقاعدہ لکھتی رہیں یہ سلسلہ سجاد حیدر یلدرم کے ملازمت سے سبک دوش ہو کر لکھنؤ میں جا بسنے تک چلتا رہا۔
رمضان کا مہینہ اور نذر سجاد ہارمونیم تلاش کر رہی ہیں . اعتراض ہو سکتا ہے مگر ان کا تعلق ایلیٹ کلاس سے تھا . ایک ایسے کلاس سے جہاں مذھب کا دخل بہت زیادہ نہیں ہوتا . نذر سجاد نے ماڈرن طبیت پایی تھی . موسیقی میں ، مصوری میں دلچسپی تھی . اور یہی رنگ عینی آپا کو بھی وراثت میں ملے . نذر سجاد کی آپ بیتی سے یہ رنگ دیکھئے ..
’’ بیگم رضا اللہ صاحبہ کے ہاں رمضان بہت ہی پر لطف گزر رہا تھا افطاری تو میں کھاتی نہیں تھی بس روزہ کھول کر دو انڈے اور د و پیالیاں چائے بہن پلا دیتی تھیں۔ ہر قسم کی موسیقی سے مجھے بھی لگاؤ تھا اور بہن مسز رضا اللہ کو بھی رمضان میں تو قرآن شریف، نماز تراویح کا زور تھا اور ہم دونوں کا جی چاہنے لگا کہ تھوڑا سا ہارمونیم اور ستار بھی سنا جائے تو روزہ کا پورا مزہ آئے گا ہم دونوں تنہا تھے کیا اچھا لگتا دو ایک اور شریک چاہئے تھیں۔ اب کس کو رمضان میں گانے بجانے کی دعوت دی جائے۔ ایک غیر شادی شدہ سہیلی وہاں موجود تھیں دل چاہتا تھا کہ اور کوئی ہو نہ ہو وہ ضرور موجود ہوں۔ خدا معاف کرے ہم دونوں نے یہ تجویز کی کہ آج ستائیسویں شب ہے یہ ساری رات جاگ کر عبادت میں گزارنی چاہیے۔ میں نے بہن سے کہا کہ اول شب نماز وغیرہ سے فراغت پا کر پچھلی رات میں ہم اپنا رنگ جمائیں خدا معاف کرے گا۔ چنانچہ میں نے اپنی سہیلی انجمن آرا بیگم کو رقعہ لکھا۔ پیاری بہن آپ کو معلوم ہے کہ آج ستائیسویں شب ہے آج تمام رات عبادت میں گزاریں گے آپ اپنے والد سے پوچھ کر آ جائیں ایک بجے عبادت کا یہ سلسلہ ختم ہوا تو میں نے چپکے سے اُٹھ کر وہیں جانماز پر انجمن آرا کے پاس ایک چھوٹا سا ہارمونیم رکھ دیا۔ وہ ہنستے ہنستے لوٹ گئیں اور کہنے لگیں خدا خوب جانتا ہے۔ آپ نے مجھے بُلایا تو اسی لئے تھا۔ خدا کے بہلانے کو تھوڑی دیر کے لئے جا نماز پر چڑھا دیا۔اب ہم تینوں وہاں سے ڈرائنگ روما گئے اور وہاں فرش پر بیٹھ کر ساڑھے چار بجے تک خوب ہارمونیم پیٹا گیا اور ستاربجایا گیا۔ کھانے کے کمرے سے سحری کے انتظام میں برتنوں کے کھٹکنے اور نوکروں کی آوازیں آنے لگیں۔ گھڑی دیکھتے ہیں تو ساڑھے چار بج چکے تھے۔ یہ شیطانی دھندا ختم کیا اور سحری کے لئے اُٹھے اس کے بعدصبح کی نماز کا وقت آ گیا غرضیکہ اس رات ایک منٹ کیلئے نہ لیٹی نہ سوئے۔
— آپ بیتی
ایسی بیشتر مثالوں سے گزرتے ہوئے نیم روشن آنکھیں وجد کی کیفیت میں اسے دیکھ رہی ہیں ، جو اپنی شرطوں پر زندگی گزارنے کی قائل تھی .
نذر سجاد حیدر نے منشی پریم چند سے بھی پہلے لکھنا شروع کر دیا تھا . عورتوں میں افسانوی ادب کی ابتدا میں پہلا نام ان کا ہی آتا ہے . نذر سجاد حیدر کا پہال افسانہ ‘‘ مہذب گھر ’’ ہے جو کہ ماہنامہ ‘‘ عصمت’’ میں قسطوار ١٩٠٩ میں شایع ہوا .جو افسانے لکھے ان کے موضوعات حقوق نسواں اور آزادی کے تعلق سے ہوتے تھے . پڑھنا اور لکھنا ، ان کے بڑے شوق تھے . بیسیوں ناول اور افسانے لکھے .۔ ۔لیکن ان کے خطوط بھی کم دلچسپ نہیں ہوتے تھے . قمر زمانی کے نام یہ خط دیکھئے . یہ قمر زمانی بھی خوب تھیں . آگ اور شعلہ .کمسنی میں ہی لکھنے پڑھنے سے دوستی ہوئی . ادب و صحافت میں خاص مقام بنایا .–ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ایک کتاب ہے — قمر زمانی بیگم ( علامہ نیاز فتح پوری کی زندگی کا ایک گمشدہ ورق ). اس کتاب میں ایک عنوان ہے ..قمر زمانی اور مدیر نقاد کی داستان معاشقہ . یہ دلچسپ کتاب ہے . قمر زمانی کے معاشقے کی داستان اس قدر پر لطف ہے کہ میرے لئے یہ سوچا آسان ہو گیا کہ وہ زمانہ کیسا تھا .مذہبی انتہا پسندی کے باوجود کچھ گمشدہ ورق حیران کرنے والے بھی ہیں . یہاں میرا مقصد نذر سجاد کے ناولوں اور کہانیوں پر گفتگو نہیں بلکہ وہ چہرہ ہے ، جو تلاش کرنے پر عینی آپا کے ناولوں میں بھی مل جاتا ہے .گردش رنگ چمن یا چاندنی بیگم . یا پھر سوانحی ناول کار جہاں دراز ہے . کار جہاں دراز ہے کے تین حصّے ہیں .تیسرے حصّہ میں نذر سجاد کے کیی رنگ جھلک جاتے ہیں .
کار جہاں دراز بھی ایک شاہکار ہے کہ ایسے شاہکار اب سامنے نہیں این گے . خطوط ، افسانے ، مکالموں ، آپ بیٹی کو پڑھنے کے بعد ایک چلبلی ، شرارتی ، ایڈوانس ، نفیس ، سلیقہ شعار ، فنون لطیفہ سے جنوں کی حد تک عشق کرنے والی ملکہ کا چہرہ سامنے آتا ہے . وہ اپنے دور سے بہت آگے تھیں . ان کی فکر میں پختگی تھی . انکے افسانے معاشرتی موضوعات پر تھے مگر روایتوں کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے وہ آزادی نسواں کی قائل تھیں . قمر زمانی کا تذکرہ آیا تھا .ان کے نام یہ دو خط دیکھئے . اس سے بھی نذر سجاد کے تیور کا اندازہ ہوتا ہے .
23 اپریل ١٩١٧ء
پیاری جائنٹ ایڈیٹر صاحبہ نقاد
اب تک تو نقاد کے ناپید ہو جانے کا بے حد افسوس تھا، لیکن آج دو سال بعد قمر زمانی کے ہاتھوں دوبارہ زندگی پائے ہوئے دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ نہ صرف اس امر کی کہ پیارا نقاد زندہ ہوگیا، بلکہ اس کی کہ اب کے وہ ایک روح پرور جان بخش چھوٹے چھوٹے نازک ہاتھوں میں پیدا ہوا اور پرورش پائے گا۔ اسی نقاد نے ہم سے آپ کا تعارف کر دیا، ورنہ اب تک ’’قمر‘‘ بے مثال کی روشنی سے دنیا محروم تھی۔
خود ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہمارے فرقے میں بھی ایک چمکتا ہوا تارہ پوشیدہ ہے، جس کی شعاعیں نقاد کے ذریعہ اب عالم کو منور کریں گی۔
لیکن بھئی میں تو آپ کے گول مول تعارف سے کچھ مطمئن نہیں ہوں۔ لیجئے اب بھلا مجھے کیا پردہ۔ گو آپ سے نہیں، لیکن ہم میاں بیوی کے شاہ دلگیر صاحب سے پرانے مراسم ہیں۔ پس آئیے اور زیادہ نہیں تو مرے برقعہ میں میرے نقاب ہی کے اندر قمر کا چہرہ کر دیجئے، تاکہ اور کوئی نہ دیکھے اور میں دیکھ لوں۔ اچھی طرح پہچان لوں اور رونمائی میں جو کچھ آپ طلب کریں، نقاد کے لئے دے دوں۔ کہو منظور ہے۔ بھئی ہم سے پوشیدہ نہ رہو۔ بے نقاب ہوکر میرے نقاب میں آؤ۔
ہم سے پردہ نہ کرو قمر درخشاں ہوکر
آؤ مل جاؤ گلے اب تو مہربان ہوکر
کیا یہ مناسب ہے کہ ایڈیٹر نقاد پر حد درجہ مہربانی کہ انہیں دنیا سے بے نیاز کر دیا اور ہم سے یہ بے پروائی، کج ادائی و بے مروتی کہ قمر ہو کر بدلی کی آڑ چاہتی ہو۔ نہیں نہیں، یہ نہ ہوگا۔ اس کے جواب میں مفصل حالات کا خط لکھیں کہ آپ آگرہ میں کب سے قیام پذیر ہیں اور اس سے قبل کسی اور زنانہ اخبار وغیرہ میں بھی اس نام سے کچھ لکھتی رہی ہیں یا نہیں۔
یہ نام تو پہلے بھی نظر سے گزرا ہے، لیکن معلوم نہیں کہ وہ آپ ہی تھیں یا کوئی اور۔ امید ہے کہ اس کا جواب ’شاہ دلگیر صاحب‘ شافی لکھوائیں گے، تاکہ پھر مجھے کسی اور سوال کی ضرورت نہ رہے۔ میں آج کل بیمار ہوں۔ آپ کا نقاد خود پڑھ بھی نہ سکی۔ سجاد صاحب سے پڑھواکر سنا اور اب لیٹے لیٹے اپنی بہن سے خط لکھوا کر بھیجتی ہوں۔ جواب ذرا جلدی دینا۔ والسلام
خاکسار
نذر سجاد حیدر
اس کی بیتابیاں ، اس کا جنوں ، اس کے خطوط مجھے ان وادیوں میں لے جاتے ہیں ، جہاں ایک ساحرہ نے خوبصورت مستقبل کا خواب دیکھا تھا . میری تلاش عینی آپا کے ناولوں میں مکمل ہوئی . کار جہاں دراز ہے ، کف گل فروش ,چاندنی بیگم ، گردش رنگ چمن ..مجھے کیی مقام پر احساس ہوا ، کہ یہ عکس نذر سجاد ہے . بیٹی میں یہ تیور ، وراثت میں آئے . نذر سجاد انٹی ساری خوبیوں کی مالک تھیں کہ شمار کرنا بھی آسان نہیں .
نجمہ ،اختر النسا بیگم نذر سجاد کے جو بھی ناول ہیں ، اس وقت کے معاشرہ کو دیکھتے ہوئے لکھے گئے . نذر کے لئے اس معاشرے سے سمجھوتا کرنا ممکن ہی نہیں تھا . چلبلی ، تیز طرار نذر نے اصلاح معاشرہ کو موضوع بنایا دھار تیز رہی . عورتوں کی طرف سے خوب سوال کیے جاتے. اختر النسا بیگم سے دو مختصر اقتباس دیکھئے .
قابل غور بات یہ ہے کہ ان لڑکوں کی اس جگہ اپنی مرضی بھی ہے یا نہیں؟کہیں
ایسا ہی نہ ہوکہ''ماں باپ کا کیا سر پر دھرا''کے لحاظ سے لڑکے خاموش ہوں.
—–
''افسوس مجھے اتنا بھی معلوم نہیں۔کہ میں آج جن لوگوں کے سپرد کی گئی ہوں۔وہ لوگ کون
ہیں۔کہاں کے ہیں؟کیسے ہیں؟جس کے ساتھ میری زندگی بسر ہو گی۔اس کی عادات۔مزاج،
اخالق۔تعلیم۔عمر۔خیاالت۔نام تک بھی تو مجھے نہیں معلوم…'
عورت کا ایک ہی تصور تھا ، جس کے ہاتھ لگ جاتی، اُسی کی ملکیت ہو جاتی۔ صدیوں میں سانس لیتی عورت نے جب اپنی آزادی کے آسمان کی تمنا کی، تو ایک جنگ اُسے مذہب سے بھی لڑنی پڑی۔ نذر کی کہانیوں اور ناولوں میں کیی مقام پر لگتا ہے کہ ان کے نشانے پر مذھب ہے .مگر بیشتر مقامات پر انکا ہدف اصلاح ہے .
—''مسز وقار: نتھ کے لیے جو انھوں نے پوچھا تھا۔کہ کیا کروں؟چند احباب کہتے ہیں کہ تمھیں تیار
کرانی ہو گی۔میں نے لکھ دیا ہے کہ اس واہیات نشان بے عزتی و کنیز کی کی ہمیں بالکل ضرورت
نہیں۔ہمارے یہاں ناک میں سوراخ کرانے کا بالکل دستور نہیں'
اس زمانے میں عورت کے نام پر اتنی ساری پابندیاں اُس کی تقدیر میں لکھ دی گئی تھیں، جنہیں آج کے مہذب ترین دور میں بھی عورت نبھائے جانے کے لئے مجبور ہے۔ معاشرے کی حیثیت کیسی تلوار جیسی ہے، جو عورت کے سر پر صدیوں سے لٹک رہی ہے۔ عورت اس تلوار کے خلاف جاتی ہے، تو وہ سرکش، باغی تو کبھی بے حیا اور طوائف بھی ٹھہرا دی جاتی ہے۔ مسلسل ظلم، کئی کئی بیویوں کا رواج، آزادی سے کچھ قبل تک بیوی کی موجودگی میں ’داشتہ‘ رکھنے اور کوٹھوں پر جانے کا رواج، اس بارے میں اپنی مردانگی کی جھوٹی دلیلیں، شہزادوں، نوابوں اور مہاراجاﺅں کے ہزاروں لاکھوں قصوں میں عورت نام کی چڑیا سچ مچ کھیتی، بن گئی تھی___ مرد عورت کی ’زمین‘ پر ہل چلاسکتا تھا، رولر چلا سکتا تھا۔ زمین کو چاہے تو ذرخیز اور چاہے تو بنجر بناسکتا تھا___ وہ مرد کی ’کھیتی‘ تھی اس لئے اُسے بولنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ مرد اُس کا کوئی بھی استعمال کرسکتا تھا. نذر کو یہ معاشرہ پسند نہیں تھا . اس دور بھی اتنا لکھنا بھی کوئی مذاق نہیں تھا . مولانا رومی کی ایک حکایت کے مطابق ، انسان شہزادے کی مثل ہے اور دنیا عیار بوڑھی جادوگرنی عورت کی مثل ہے۔ یعنی صدیوں میں عورت کا یہی تصور تھا ، اور نذر سجاد اس تصور کا افسانے اور ناولوں کے ذریعہ رفو کرنے کا کام کیا کرتی تھیں .
مولانا رومی نے ایک دن ایک عورت کو دیکھا جو ایک تاجر سے کچھ سامان لے رہی تھی .۔ سودا خریدنے کے بعد اس عورت نے جب رقم ادا کرنی چاہی تو تاجر نے کہا،“معاملات عشق میں حساب کہاں سے آ گیا ؟ مولانا پر غشی کا دورہ پڑا .خیال آیا کہ خدا سے عشق کے باوجود معاملات میں وہ تاجر سے کمزور ہیں . نذر کا عشق معاشرہ تھا اور وہ معاشرہ کی تہوں میں داخل ہو کر قوی اور مضبوط عشق کی بنیاد سے ایک ایسا معاشرہ تیار کرنا چاہتی تھیں جہاں عورت کو اپنے حساب سے جینے کی آزادی ہو .
خیال و خواب سے آگے بھی ایک زمانہ ہے .. کچھ حسین مجسمے پیچھے چھوٹ گئے ہیں مگر معاشرے کی تراش خراش میں ان کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ..
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...