مجھے اپنے بیٹے کے پاس سویڈن آئے ایک ہفتہ ہو چلا تھا۔۔۔۔۔ میں نے سنا تھا کہ یہ ملک صف اول کے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے جہاں انسانی حقوق کی صورتحال بہترین ہے ۔ واقعی ایساہی تھا۔۔۔۔۔ میرے پوتے نے مجھے بتایا کہ اس کے دوست کا بھائی پیدا ھوا ھے مگر وہ اس کا ہاف برادر ھے۔ ہاف برادر۔۔۔۔؟ یہ اصطلاح میرے لیے نئی تھی۔بہو سے وضاحت چاہی تو اس نے بتایا کہ جن بچوں کے باپ الگ الگ اور ماں ایک ہی ہو یا ماں الگ اور باپ ایک ہو وہ ہاف برادر یا ہاف سسٹر کہلاتے ہیں۔چونکہ یہاں مرد عورت کی یکجائی میں شرع کو کم ہی دخل انداز ہونے دیا جاتا ھے لہٰذا یہ ایک عام سی بات سمجھی جاتی ھے۔ ہم جیسے پینڈولوگوں کے لیے، جو انسانی حقوق کے حوالے سے بد ترین صورتحال رکھنے والے ملک کے باسی ہیں، یہ صورتحال مضحکہ خیز تھی۔
سویڈن کے مردوزن اپنی مرضی کی زندگی گزارتے تھے اور کوئی انکی زندگی میں دخل نہ دیتا تھا۔ میرے کمرے کی بالکونی سے سامنے والی لین کے عقب میں ایک بلند عمارت پر شوخ رنگوں کی پٹیوں پر مشتمل پرچم بڑے طنطنے سے لہرا کر گویا اعلان کرتا تھا کہ یہاں ہر ایک کی مرضی کا احترام کیا جاتا ہے۔عورت عورت کے ساتھ رہے یا مرد مرد کے ساتھ ۔۔۔ کسی کو کیا ؟ ۔۔۔۔۔۔ یہاں ٹریفک حادثات نہ ہونے کے برابر تھے۔طبقاتی فرق بہت کم تھا۔نابالغ بچے، بوڑھے اور معذور لوگ ریاست کی زمہ داری تھے۔چودہ سو سال قبل گزر جانے والےعمر بن خطاب کی فراست سے ایک کرن جو ان لوگوں نے لی تھی اس نے ماحول کو جگمگا دیا تھا۔قانون کا احترام خشوع وخضوع سے کی گئی عبادت کی طرح تھا۔ یہ لوگ خدائی ضابطوں سے آزاد تھےمگر اپنے بنائے قانون کی پوری پابندی کرتے تھے
۔۔۔۔ اور میں جہاں سے آئی تھی وہاں عورتیں اکثر پٹتی تھیں۔ان پٹنے والیوں میں میں شامل نہ تھی۔۔۔نہ ہی میری بہو نہ بھابیاں نہ بہنیں نہ بیٹیاں اور نہ ہی پڑوسنیں ِ ہم سب اپنے اپنے شوہروں ،باپوں بھایئوں اور بیٹوں کی کمائی کھاتی تھیں اور فرصت کےاوقات میں ان کی چغلیاں کرتی تھیں۔ کچھ ایسی تھیں جو شوقیہ کماتی بھی تھیں مگر صرف اس لیے کہ مہنگے برانڈ کے کپڑے ، کاسمیٹکس اور جیولری خرید سکیں یا اعلیٰ رستورانوں کو رونق بخش سکیں۔
البتہ میری ملازمہ فیضاں عرف پھیژاں اکثر نشئی اورنکھٹو شوہر کے ہاتھوں پِٹا کرتی۔ آئے دن چھٹی کرتی اور اگلے دن آکربازوٗں، کندھوں اور کمر پر پڑے نیل دکھا کر کہا کرتی۔'' باجی جی ! بڑا مر جانا اے۔۔ رات کو بچوں کو ڈانٹ ڈانٹ کر جلدی سونے کا کہ رہا تھا۔ میں اسکی نیت سمجھ گئی اورغصے سے کہا کہ مجھ سے کوئی امید نہ رکھے، میں نےصبح کام پر جانا ہوتاہے تاکہ اسکا اور اسکے پِلوں کےپیٹ کا دوزخ بھر سکوں۔۔تو اس بےغیرت نے چمٹا دے مارا میری کمر پر۔۔۔۔۔ ''یہ کہ کر وہ دھواں دار رونے لگتی۔ اسکی باقی گفتگو ناقابل اشاعت ہوتی تھی۔ اگروہ میرا جسم میری مرضی کا پلے کارڈ اٹھا کر عورت مارچ میں جا شامل ھوتی تو میں اسکو سو فیصد حق بجانب جانتی۔
یہاں سویڈن میں میرے بیٹے کا گھر مالمو کے مضافاتی علاقے میں تھا۔یہ ایک کشادہ ولا تھاجس کے ایک کمرے کی بالکونی کا رخ چند گز کی دوری پر واقع گالف کورس کی جانب تھا۔گالف کورس کے آخری سرے پر گھنے پیڑوں کے جنگل میں جب شام کا قرمزی سورج اترتا تو یہ ایک دلکش نظارہ ہوتا۔گالف سٹک اٹھائے چاک چوبند بوڑھے سڑک پر رواں دواں نظر آتےاور مجھے لان میں کھڑا دیکھ کر سویڈش انداز میں''ہئے ہئے'' کہ کر وش کرتے۔ اکثر لوگوں نے اپنے گھر کے لان میں انیکسی بنائی ہوئی تھیں جو گالفرز کو سیزن کے لیے کرائے پر دے دی جاتیں۔ لیکن تمام انیکسیز میں گالفرز ہی رہائش پزیر نہ تھے،سامنے والے گھرکی اینکسی میں رہنے والی میتھلڈا ایک ھسپتال میں مڈوائف تھی ۔ عمر پنتیس کے قریب ہو گی۔آتے جاتے نظر ملتی تو ھم دونوں ایک دوسرے سے گونگی مسکراھٹ کا تبادلہ کر لیا کرتیں۔میرے دن کا اکثرحصہ تنہا گزرتا تھا ۔ بیٹا اور بہو بچوں کو سکول اور ڈے کیئر چھوڑتے ھوئے دفتر چلے جاتےاور شام پانچ بجے اکٹھے ھی واپس لوٹتے۔میں پانچ بجے سے کچھ پہلے اوپری منزل پر واقع اپنے کمرے کی کھڑکی کھول کر کھڑٰ ی ہو جاتی اورسڑک کے موڑ پر نظریں جمائے رکھتی ۔ درختوں پرچڑھتی اترتی موٹی لمبی دم والی گلہریاں،لال سیبوں سے لدے درخت، پرندوں کی آوازیں اورٹھنڈی ہوا کے جھونکےمنتظر لمحوں کی بوریت کم کرنے میں معاون ہوتے۔جونہی میرے بیٹے کی گاڑی اندرونی سڑک پر مڑتی، میں لپک کر نیچے آجاتی۔
ایسے ہی منتظر لمحوں کے سکون میں اس دن کسی عورت کے چیخنے اور مرد کے تیز تیز بولنے کی آواز نے چھناکا سا کر دیا۔سامنے والے گھرکی انیکسی سے ایک مرد پتلون کی بیلٹ کا بکل لگاتے ھوئے تیزی سے باہر کی جانب لپک رھا تھااور پیچھے میتھلڈا ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے آئی اور اسکا بازو پکڑ کر کھینچنے لگی۔ مرد نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑا کر غصے سے کچھ کہاتیزی سے نکلتا چلا گیا۔میتھلڈا جو جھٹکے سے لڑکھڑائی تھی،سنبھلی اورپھر اسکے پیچھے لپک پڑی۔ مرد نے اسکوبالوں سے پکڑا اور زوردارتھپڑ رسید کیا۔دونوں کبھی لڑکھڑاتے اور کبھی ایک دوسرے سے مار پیٹ کرنے لگتے۔ شاید انہوں نے کچھ زیادہ ہی پی رکھی تھی۔لڑتے جھگڑتےوہ سڑک کے آخری سرے تک پہنچ گئے تھے۔مرد نے میتھلڈا کو زوردار دھکا دیا تو وہ سڑک پر آ رھی۔ اٹھ کر دونوں ہاتھوں سے چِھلے ہوئے گھٹنوں کو مَسلا اور چِلّاتے ہوئے پھر بھاگ پڑی۔عین اسی وقت میں نے اپنے بیٹے کی گاڑی کو دیکھ لیا اورنیچے اتر آئی۔میرے بچے گاڑی سے نکل رہے تھے اور غالباّ اس تماشے سے بھی آگاہ تھے جو میں دیکھ چکی تھی۔ میرا تجسس انتہا کو چھو رہا تھا ۔ جلدی سے سب کو گلے لگا کر خیر مقدمی کلمات کہےاور لاؤنج میں داخل ہوتےہی سوال داغ دیا’ یہ میتھلڈا بےچاری کو کیوں مار رہا تھا؟
اماں چھوڑیں آپ ان باتوں کو۔۔۔۔! میرا بیٹا مجھ سے نظر چر ا گیا۔ دوست ہے اسکا ۔۔ ہو گیا ہو گا کسی بات پر جھگڑا۔۔
مگر یہ کیا بات ہوئی۔۔۔ اس بے رحمی سے مار پیٹ؟ پولیس کچھ نہ کہے گی اس آدمی کو؟
پولیس دونوں کو لے جائے گی اور نشہ اترنے پر چھوڑ دے گی۔۔ مار پیٹ دونوں نے برابر سے کی ہےلہٰذا دونوں سے برابری کا سلوک ہو گا۔وہ کوئی میاں بیوی تو نہیں کہ خصوصی حقوق رکھتے ہوں۔۔۔
مگر میتھلڈٓا چیختے ہوئے کہ کیا رہی تھی؟ میں نےپھر پوچھا تو میرے بیٹے نے رخ موڑ کر ٹی وی کا ریموٹ اٹھا لیا اور لاپروائی سے چینل بدلتے ہوۓ بولا"جلدی تیّار ہو جائیں امّاں ! اوریسنڈ ویوپوائنٹ پر غروبِ آفتاب کا منظر دیکھنے نہیں جانا کیا؟ّ" اس کا انداز صاف طور پرمجھے بہلانے والا تھا۔
اچانک میرے ذہن میں کے پردے پرجھگڑے کا ابتدائی منظر جھپک سا گیا ۔
"لو بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔۔ میں بھی کتنی احمق ہوں۔۔۔۔ "میں خجالت سے سوچنے لگی۔