روزے کے ذریعہ انسان کی نفسیات کو اعتدال پر لاکر اسے شریعت کے تقاضے پورا کرنے کے لائق بنایا تھا، اب اس نے جب اس طریقے پر بیس دن گزار دیے اور گویا روحانی دور کا ایک نصاب پورا ہوگیا تو اب خداے پاک نے یہ چاہا کہ میرا بندہ میرے سوا تمام مخلوقات سے غیر ضروری میل جول ترک کرکے میرے ہی در پر آپڑے اور میرے سوا اس کو کسی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ ہو،
روزے میں محبوب بیوی کو صرف دن دن کیلئے چھڑایا تھا جب بندہ اس میں پورا اترا تو اب دن و رات اس سے الگ کرکے اس کی تمام تنہائیاں اپنے لئے مخصوص کرلیں اور فرمادیا کہ کھانا پینا۔ لیٹنا، سونا سب ہمارے ہی درپر کرو اور ہماری یاد جو دنیا کے دھندوں میں لگ کر کرتے تھے اب وہ سب سے الگ تھلگ ہمارے ہی عبادت خانہ میں ہوا کریگی، تاکہ دنیا کے گندے ماحول سے یکسو ہوکر دل و دماغ میں ہماری محبت خوب رچ بس جائے تو تمہارے دل کی دنیا میں اب صرف ایک اللہ کی حکومت رہے،
معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ کسی کے در پر جاپڑے کہ جب تک میری درخواست قبول نہ ہو جائے ہٹنے کا نہیں،
نکل جاے دم تیرے قدموں کے نیچے
یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے،
اگر حقیقتاً یہی حال ہو تو سخت سے سخت دل والا بھی پسیجتا ہے، اور اللہ تعالی کی کریم ذات تو بخشش کیلئے بہانہ ڈھونڈتی ہے، بلکہ بے بہانہ رحمت فرماتے ہیں، اسی لئے جب کوئی شخص اللہ کے دروازے پر دنیا سے منقطع ہوکر جا پڑے تو اس کو نوازے جانے پر کیا تامل ہوسکتا ہے،
★اعتکاف کا ثواب★
اگر خالص اللہ کو راضی کرنے کیلئے اعتکاف کیا جائے تو بہت اور عظیم الشان عبادت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے، امام زہری فرماتے ہیں کہ۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے کام کبھی کرتے تھے اور کبھی چھوڑ دیتے تھے لیکن جب سے مدینہ منورہ تشریف لائے اخیر زندگی تک کبھی اعتکاف نہیں چھوڑا،
۔۔ اعتکاف کرنے والے کے متعلق آپ کا ارشاد ہے۔۔
اعتکاف کرنے والا گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کیلئے بھی اتنی ہی نیکیاں لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کیلئے لکھی جاتی ہے، ،،،
ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا،،،،
رمضان کے آخری دس دنوں کا ثواب دو حج اور دو عمروں کے برابر ہے،۔۔
قدر کرنے والوں کی ضرورت ہے اگر کسی کام میں دنیا کا اتنا نفع تو کیا اس کا دسواں حصہ بھی ہم کو نظر آتا تو ہم خون پسینہ ایک کرکے کسی نہ کسی طرح اسے حاصل کرتے لیکن دین کے کاموں کی ہمارے دلوں میں کوئی قدر نہیں اس لئے بڑے سے بڑا نفع بھی سن کر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی،
ایک لمبی حدیث کا خلاصہ ہے کہ جو شخص اللہ کیلئے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جہنم کو اس سے زمین و آسمان کے فاصلے سے تین گنا دور کردیتے ہیں یعنی جہنم سے اس کا گویا واسطہ ہی نہیں باقی رہتا، لیکن ہم میں سے کتنے ہونگے جن کے دلوں میں یہ تمام فائدے اور اجر و ثواب سن اعتکاف کا شوق پیدا ہوا ہو، اور وہ اس کیلئے تیار ہوں، کم سے کم ثواب حاصل کرنے کا ایک بہت آسان طریقہ یہ ہے کہ پانچوں وقت جب نماز کیلئے مسجد میں داخل ہوں تو اعتکاف کی نیت کرلیا کریں جب تک مسجد میں رہیں گے بالکل خاموش بھی بیٹھے رہیں تب بھی اعتکاف کا ثواب ملتا رہیگا، اور اگر قرآن شریف یا تسبیحات وغیرہ بھی پڑھتے رہیں تو اس کا ثواب الگ ملیگا،
★ اعتکاف کی حکمتیں اور فائدے★
اعتکاف میں حکم شرعی ہونے کی وجہ سے جس قدر فائدے اور حکمتیں ہوں کم ہیں یہاں مختصرا چند حکمتیں لکھے جاتے ہیں،
(١) اگر صرف یوں کہ دیا جائے کہ ایک ایسی جگہ پر دس دن گزارو جہاں پرندہ پر نہ مار سکے تو ظاہر ہے تنہائی و یکسوئی زیادہ ملتی لیکن کیا فائدہ ایسی تنہائی سے کہ انسان بجائے انسان کے وحشی جانور بن جائے اور بری صحبتوں سے بچنے کیلئے اچھی صحبتوں سے بھی محروم ہو جائے، اس لئے خدا نے اعتکاف کیلئے مسجد کو مقرر کیا کیونکہ غلط قسم کے لوگ مسجد میں آئیں گے نہیں، ہمیشہ نمازی پرہیزگار اور تہجد گزار لوگوں سے ہی سابقہ پڑیگا جن کی صحبت مفید اور کارآمد بھی ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایسی مسجد کا حکم دیا جہاں پانچوں وقت نماز ہوتی ہو کیونکہ اگر ایسی ویران مسجد میں اعتکاف کیا جاتا جہاں آدمی کا دور دور نشان نہ ہو تو فائدہ سے زیادہ نقصان ہوگا، نہ جماعت سے نماز ملیگی نہ اچھی صحبت نصیب ہوگی،
(٢) اعتکاف میں انسان کو یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے اور دل دنیا کی فکروں سے خالی ہو جاتا ہے، انسان کی توجہ کو خدا سے ہٹانے والی چیزیں چاہیے وہ انسان کے اپنے اندر ہوں یا باہر جب انسان تنہائی میں رہیگا تو آہستہ آہستہ سب ختم ہو جائیں گے اور دل پوری طرح دنیا کے خیالات سے فارغ ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور اس میں عبادتوں کے انوار و برکات حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائیگی،
(٣) لوگوں کے ملنے جلنے اور کاروبار کی مشغولیات میں جو انسان سے چھوٹے موٹے گناہ ہو جاتے ہیں اعتکاف میں ان سے حفاظت رہتی ہے،
(٤) خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے۔۔ جو مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے میں دوڑ کر اسے اپنا لیتا ہوں، "" اور اعتکاف کرنے والا تو اپنا گھر در چھوڑ کر صرف قریب ہی نہیں بلکہ خدا کے در پر آکر پڑ جاتا ہے۔ اب انداہ لگایا چاے کہ خدا ے پاک کتنا قریب ہوگا اور اس پر کتنا زیادہ مہربان ہوگا،
(٥) شریف لوگ اپنے گھر پر آئے ہوئے مہمان کی عزت اور خاطر تواضع کیا کرتے ہیں تو کریموں کا کریم اور داتاؤں کا داتا اپنے گھر پر آئے ہوئے مہمان کی کیا کچھ نہ اکرام کریگا ،
(٦) شیطان انسان کا قدیمی دشمن ہے لیکن جب انسان خدا کے گھر میں ہے تو گویا مضبوط قلعے میں ہے شیطان اب اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا،
(٧) فرشتے ہر وقت خدا کی عبادت اور اس کی یاد میں رہتے ہیں مؤمن بندہ بھی اعتکاف میں بیٹھ کر ہر وقت خدا کی یاد میں ہے اور فرشتوں سے مشابہت پیدا کررہا ہے اور فرشتے چونکہ اللہ کے قریب ہیں اس لئے یہ بندہ بھی اللہ کا قرب حاصل کررہا ہے،
(٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔۔ جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے اسے نماز ہی کا ثواب ملتا ہے اعتکاف میں یہ ثواب بھی حاصل ہوتا ہے،
(٩) اعتکاف میں جب تک آدمی رہتا ہے اسے عبادت کا ثواب ملتا رہتا ہے خواہ وہ خاموش بیٹھا رہے یا سوتا رہے،
(١٠) اعتکاف کرنے والا ہر منٹ عبادت میں ہے تو شب قدر حاصل کرنے کا بھی اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کیونکہ جب بھی شب قدر آئے گی یہ بہت حال عبادت میں ہوگا،
( رمضان کیا ہے ص ١٤٦) / بحوالہ مشکوۃ شریف ج١ ٦٨/
★اعتکاف کی سب سے افضل جگہ★
سب سے افضل وہ اعتکاف ہے جو مسجد حرام یعنی مکہ مکرمہ میں کیا جائے اس کے بعد مسجد نبوی کا مقام ہے۔ پھر مسجد بیت المقدس اور اس کے بعد اس جامع مسجد کا درجہ ہے جسمیں جماعت کا انتظام ہو، اگر جامع مسجد میں جماعت کا انتظام نہ ہو تو محلے کی مسجد بہتر ہے اس کے بعد وہ مسجد ہے جسمیں زیادہ جماعت ہوتی ہو، / علم الفقہ حصہ سوم ص ٤٦(
★ رسول اللہ ص کا اعتکاف★
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کریمہ یہ تھی کہ رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے۔ جہاں رمضان کا اخیر عشرہ آتا تو آپ کیلئے مسجد مقدس میں ایک جگہ مخصوص کردی جاتی اور وہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کوئی پردہ یا چٹائی ڈآل دیا جاتا یا کوئی چھوٹا سا خیمہ نصب کیا جاتا اور بیسویں تاریخ کی فجر کی نماز پڑھ کر آپ وہاں چلے جاتے اور عید کا چاند دیکھ کر وہاں سے باہر تشریف لاتے تھے اس درمیان وہیں کھانا پینا فرماتے اور وہیں سوتے آپ کی ازواج مطہرات میں سے جس کو آپ کی زیارت مقصود ہوتی وہیں چلی جاتیں اور تھوڑی دیر بیٹھ کر چلی آتیں بغیر کسی شدید ضرورت کے آپ وہاں سے باہر تشریف نہ لاتے، ایک مرتبہ آپ کو سر صاف کرانا مقصود تھا اور اما عائشہ صدیقہ رض ایام سے تھیں تو آپ نے سر مبارک کھڑکی سے باہر کردیا اور اماں عائشہ صدیقہ رض نے مل کر صاف کردیا، ( علم الفقہ حصہ سوم ص ٤٥)
★ اجرت دیکر اعتکاف کرانا کیسا ہے★
سوال کچھ دیکر اعتکاف کرانا کیسا ہے؟
جواب۔۔ اجرت دیکر اعتکاف کرانا جائز نہیں کیونکہ عبادات کیلئے اجرت دینا لینا دونوں نا جائز ہیں،، ہاں اگر بغیر اجرت ٹہراے اعتکاف کرایا اور اعتکاف کراکے اجرت دینا وہاں معروف بھی نہ ہو تو کچھ پیش کرنا جائز ہے، ( فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص ٥١٢)
★ کیا اعتکاف ہر محلے میں سنت علی الکفایہ ہے★
سوال،، رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں اعتکاف سنت علی الکفایہ کا یہ مطلب ہے کہ صرف ایک مسجد میں اعتکاف کرنے سے پورے شہر والوں کی طرف سے سنت ادا ہو جائے گی یا ایک محلہ والوں کی طرف سے ادا ہوگی یا یہ کہ ہر مسجد میں اعتکاف ضروری ہے؟
جواب۔۔ اس کے متعلق کوئی صریح جزیہ نہیں ملا البتہ شامی میں اعتکاف کی سنت کو اقامت تراویح کی نظیر بتایا ہے اور تراویح کے باب میں تین قول نقل فرماکر اس کو ترجیح دی ہے کہ ہر محلے مسجد میں اقامت تراویح سے سنت کفایہ ادا ہو جائے گی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعتکاف کا بھی یہی حکم ہے، ۔۔ ( احسن الفتاوی ج ٤٤ ص ٤٩٩)
★ عشرہ سے کم اعتکاف کرنے والے کا حکم★
سوال۔۔ اگر کوئی شخص ضعف جسمانی کی وجہ سے پورے عشرہ اخیرہ کا اعتکاف نہ کرسکے اور تین یا پانچ دن کے بعد یعنی اکیس اور تیس کا اعتکاف کرے تو سنت کا کچھ اجر ملیگا یا غیر رمضان کے اعتکاف کی طرح محض نفل سمجھا جائے گا؟
جواب۔۔ اعتکاف مسنون عشرہ اخیرہ کی قید کے ساتھ سنت ہے اور جب یہ قید نہیں ہوئی تو سنت نہ ہوگا اور نہ جزو سنت ہوگا صرف نفل ہوگا، ( امداد الفتاوی جدید ترتیب ج ٢ ص١٤٥)
★ اکیسویں شب میں اعتکاف میں بیٹھے تو کیا حکم ہے★
سوال۔۔ جو شخص اکیسویں شب کو سحری کھاکر صبح صادق سے تھوڑی دیر پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہو اس کا اعتکاف صحیح ہوگا یا نہیں؟
جواب۔۔ سنت یہ ہے کہ بیسیوں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مسجد میں داخل ہو جاے لیکن اگر اس کے بعد کسی وقت میں بھی نیت کرکے مسجد میں داخل ہو جاے تب بھی صحیح ہے، لیکن عشرہ کامل کی فضیلت اس صورت میں حاصل نہ ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ کامل ( رمضان کے اخیر کے دس دن) کا اعتکاف کیا ہے جو کہ بیسویں تاریخ کی شام ہی سے پورا ہو سکتا ہے، (( فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص ١٧٧)
★ بیسویں شب کے بعد اعتکاف میں بیٹھے تو کیا حکم ہے؟
سوال۔۔ اگر معتکف۔ اعتکاف میں بیسویں تاریخ کو رات کا کچھ حصہ گزر جانے کے بعد داخل ہو تو کیا عشرہ اخیرہ کی سنت ادا ہوگی؟
جواب۔۔
اس صورت میں عشرہ اخیرہ کا اعتکاف پورا نہ ہوگا اور سنت پوری ادا نہ ہوئی، ( فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص ٥٠٦)
★ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں تو کیا اعتکاف مسنون ہوگا★
سوال۔۔ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنے کا خیال ہے لیکن روزہ رکھنے کی سکت نہیں تو بغیر روزہ رکھے اعتکاف صحیح ہے یا نہیں؟
جواب۔۔۔ مسنون اعتکاف کیلئے روزہ شرط ہے لہذا روزہ کے بغیر اعتکاف نفلی ہے مسنون اعتکاف نہیں، ( فتاویٰ رحیمیہ ج٣ ص ١١٠)
★ نابالغ بچے کا اعتکاف کرنا کیسا ہے★
سوال۔۔ نابالغ بچہ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب۔۔۔ نابالغ لڑکا اگر سمجھدار ہو، نماز کو سمجھتا ہو اور صحیح طریقے سے پڑھتا ہو تو اعتکاف ہو سکتا ہے نفل اعتکاف ہوگا مسنون نہ ہوگا، اگر نا سمجھ ہے تو نہیں بیٹھ سکتا،۔ ( فتاویٰ رحیمیہ ج٥ ص ٢٠٢)