سب راستے نیویارک سے نکلتے تھے۔ عظمت عباس رضوی نے فون پر طغرل کو اس ٹاؤن کا نام بتا دیا تھا جہاں وہ مقیم تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہاں پہنچنے کے لیے مرکزی سٹیشن سے فلاں شہر کے لیے چلنے والی مقامی گاڑی لے اور بتائے ہوئے سٹیشن پر اتر کر فون بوتھ سے اسے فون کر لے تو وہ دس منٹ بعد اسے لینے پہنچ جائے گا۔ طغرل نے رضوی کی ہدایات پر عمل کیا تھا۔ دن کے تقریبا" دو بجے اس سٹیشن پر اترا تھا جس پر اترنے کو رضوی نے کہا تھا۔ فون کیا تھا تو رضوی دس منٹ سے پہلے ہی پہنچ گیا تھا۔ چھوٹے قد اور انتہائی پر مزاح طبیعت کا حامل ڈاکٹر رضوی گاڑی سے اتر کر طغرل کے گلے لگا تھا، قد میں تو ظاہر ہے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہونی تھی البتہ اب اس کے چہرے پر خشخشی داڑھی تھی جس سے اس کے گال پر پرانے پھوڑے کے زخم کا نشان چھپ گیا تھا، مزید یہ کہ رضوی اب یکسر سنجیدہ ہو گیا تھا۔ طغرل کو اپنے ساتھ جی سی لاہور میں پڑھنے والا وہ کھلنڈرا لڑکا یاد آ رہا تھا، جو جی سی کی مین عمارت کی سڑک کے اس پار، پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے عقب میں واقع جی سی کلاس رومز کے آخر میں واقع سائیکالوجی کی بڑی جماعتوں کی لڑکیوں کو شیشوں میں سے تاڑنے کی خاطر طغرل کو زبردستی کھینچ کر ساتھ لے جایا کرتا تھا۔ شیشوں میں سے جھانکتے ہوئے رضوی کو بعض اوقات کوئی لڑکی دیکھ کر کہہ دیا کرتی تھی،"جاؤ بیٹا جاؤ، ابھی تم کم عمر ہو" رضوی قہقہہ لگا کر ہنس دیا کرتا تھا اور طغرل اس پر برس پڑتا تھا،" کروا دی نہ بے عزتی" جس پر رضوی ہنستے ہوئے جواب دیا کرتا تھا، "توجہ تو حاصل کر ہی لی ناں"۔
جی سی کے بعد رضوی میڈیکل کالج میں داخل ہو گیا تھا جبکہ طغرل کو کسی اور شہر میں منتقل ہو کر تعلیم جاری رکھنی پڑی تھی۔ سال میں کبھی ایک بار جب وہ لاہور آتا تھا تو رضوی کے کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ رضوی کے شب و روز اسی طرح ہوتے تھے۔ پڑھائی کم کرنا اور ہنسوڑ پن پر کمر کسے رکھنا۔
رضوی نے گاڑی اپنے پرائیویٹ کلینک پر جا کر کے روکی تھی۔ کلینک کے اندر کئی کمرے تھے اور گوریوں پر مشتمل عملہ۔ طغرل نے خوش ہو کر کہا تھا،"بڑے ڈاکٹر بن گئے یو یار"۔ "بس ایسے ہی ہے، جنہوں نے جان مار کر پڑھا وہ پاکستان میں خوار ہو رہے ہیں اور میرے جیسے جنہوں نے ایسے سمجھو جیسے ڈاکٹری کے امتحان پرائیویٹ پاس کیے تھے ان کا تکہ لگ گیا"۔ پرائیویٹ بی اے، ایم اے کرنا تو سنا تھا مگر یہ ایم بی بی ایس پرائیویٹ کرنے کی بات سن کر طغرل بہت محظوظ ہوا تھا کیونکہ یہ پرائیویٹ کی ہی نہیں جا سکتی۔ اس کی وضاحت رضوی نے یہ کہہ کر کی تھی کہ "چندا میرے ہم پڑھتے ہی کہاں تھے۔ کلاس کا منہ شاید ہی کبھی دیکھا کرتے تھے تو پرائیویٹ ہی ہوئی ناں چلو جزوی طور پر پرائیویٹ کہہ لو"۔ طغرل نے اس سے اپنے دل کی دھڑکنوں کے بے ترتیب ہونے کی شکایت کی تھی تو رضوی نے کہا تھا کہ کل تمہارا سارا چیک اپ ہو جائے گا، اگر چاہو گے تو میں تمہارے مقعد میں انگلی گھسیڑ کر تمہارا "پراسٹیٹ" بھی چیک کر دوں گا۔ "بکواس بند کرو" طغرل نے کہا تھا جس پر رضوی پہلی بار ویسے ہنسا تھا جیسے پچیس برس پہلے ہنسا کرتا تھا۔
شام کو وہ رضوی کے گھر پہنچے تھے۔ رضوی نے اپنے میڈیکل کالج کے ساتھ ملحق ہسپتال کی ایک نرس کے ساتھ عشق کر کے شادی کی تھی۔ اب ان کے دو بڑے بچے یعنی بیٹا اور بیٹی تھے اور ایک کوئی پانچ برس کا بیٹا۔ رضوی کوشش کرکے ہنستا تھا کیونکہ اب سنجیدگی اس کے ساتھ چمٹ کر رہ گئی تھی۔ شاید یہ اس کے پیشے کا تقاضا تھا یا کچھ اور جو اس نے بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ رضوی کا بیٹا پاکستانی بچوں کی طرح فرمانبردار تھا مگر بیٹی پر امریکی معاشرت کا کچھ اثر تھا اس لیے تنک مزاج تھی۔
رات کو سونے کی خاطر طغرل کو جو کمرہ دیا گیا تھا، اس میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی جس سے استفادہ کرتے ہوئے طغرل خاصی دیر بعد سویا تھا۔ صبح رضوی نے آ کر جگایا تھا اور کہا تھا کہ تیار ہو جاؤ۔ ہم اکٹھے کلینک جائیں گے۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ گھر سے نکلے تھے۔ گاڑی کو سڑک پر ڈالنے کے بعد رضوی نے کہا تھا، "سب سے پہلے تو تمہاری چوٹی کٹوانی ہے، تمہارے بال بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں"۔ "کیوں بھئی؟ طغرل نے احتجاج کیا تھا مگر رضوی مصر تھا کہ نہیں اچھے نہیں لگ رہے اور اسے ڈریسر کی دکان پر لے گیا تھا۔ دس منٹ بعد فارغ ہو کر وہ کلینک پہنچے تھے۔ رضوی مریض دیکھنے میں مصروف ہو گیا تھا اور طغرل ایک اور کمرے میں بیٹھ کر رسالے وغیرہ دیکھتا رہا تھا۔ کچھ وقت گذرنے کے بعد ایک طویل قامت سیاہ فام قبول صورت خاتون اس کمرے میں داخل ہوئی تھی جس میں طغرل بیٹھا تھا۔ اس نے اپنا تعارف کروایا تھا کہ وہ سونولجسٹ تھی اور ڈاکٹر رضوی کی ہدایت پر طغرل کی ایکو کارڈیو گرافی کرنا چاہتی تھی۔ طغرل اس کے ساتھ چلا گیا تھا۔ اسے طغرل کے وہ جوتے بہت پسند آئے تھے جو اس نے سینٹ پیٹرزبرگ کی راہداری میں واقع ایک کیوسک سے خریدے تھے۔ خاتون نے جوتوں کی کئی بار تعریف کی تھی۔ کارڈیوگرافی کرتے ہوئے وہ کاؤچ پر طغرل کے ساتھ لگ کر کے بیٹھ گئی تھی۔ اس خاتون کا جسم اسقدر گرم تھا جیسے اسے بخار چڑھا ہو مگر حقیقت میں اسے کوئی تپ نہیں تھا، تپ وصل ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔ اس نے رپورٹ دی تھی کہ سب درست ہے۔
ایک رات مزید گذارنے کے بعد طغرل نے رضوی سے اجازت لی تھی۔ رضوی اسے سٹیشن پر لے جا کر نیویارک کی گاڑی میں سوار کرا آیا تھا۔ رضوی ڈاکٹر ناصر چیمہ اور ڈاکٹر قدیر مہر کو نہیں جانتا تھا لیکن طغرل کے استفسار پر اس نے مشورہ دیا تھا کہ گرے ہاؤنڈ بس پر سوار ہو کر پہلے اپنے دوست قدیر مہر سے مل آئے اور واپسی پر ناصر چیمہ سے مل لے، اس طرح اس کا ٹور زیادہ سہل رہے گا۔
طغرل نیویارک سے واپنجرز فال واپس نہیں گیا تھا بلکہ نیویارک شہر میں ہی چوہدری اقبال کے ہاں اپنے ماسکو سے آئے ہوئے دوست کے ساتھ رہنے چلا گیا تھا۔ صبح کو وہ گرے ہاؤںڈ کے اڈے پر پہنچا تھا۔ دن کے ساڑھے دس بجے تھے۔ جس بس کی اسے ٹکٹ مل سکی تھی اسے بارہ بج کر دس منٹ پر روانہ ہونا تھا۔ طغرل وقت گذاری کی خاطر نیویارک کے مرکز میں بے مقصد گھومتا رہا تھا پھر بارہ بجے سے پہلے اڈے پر پہنچ کر بس میں سوار ہو گیا تھا۔
جہاں اسے جانا تھا وہاں تک کا سفر آٹھ گھںٹے کا تھا۔ یہ قصبہ کینیڈا کی سرحد سے کوئی پچیس میل ادھر واقع تھا۔ بس کا ڈرائیور سیاہ فام تھا اور بس کی عقبی نشستوں پر بہت سے طالبعلم لڑکے لڑکیاں بیٹھے شورو غل برپا کیے ہوئے تھے۔ ان میں ایک ہندوستان نژاد طالبہ نے تو جیسے کھلی جنسی گفتگو پر عبور حاصل کیا ہوا تھا۔ ایک سفید فام طالبعلم نے اس پر تارک وطن ہونے کا فقرہ کسا تھا جس کے بعد اس لڑکی کا شکوے پر مبنی غل کانوں کے پردے پھاڑنے لگا تھا۔ بالآخر ڈرائیور کو مائیک پر طلباء سے آوازیں مدھم کرنے کو کہنا پڑا تھا کیونکہ باقی مسافروں کا سکون غارت ہو رہا تھا۔ بس راستے میں کہیں بھی نہیں رکی تھی ماسوائے اس تعلیمی درسگاہ کے دروازے پر جہاں طلباء اور طالبات سے باقی مسافروں کی جان چھوٹنی تھی۔ اندھیرا چھانے لگا تھا۔ جب متعلقہ شہر کے نزدیک پہنچے تو برفباری شروع ہو گئی تھی۔ مسافر ایک ایک کرکے شہر میں مختلف مقامات پر اترتے چلے گئے تھے۔ بس ایک پٹرول پمپ کے پاس جا کر رکی تھی۔ اس وقت اس بس میں طغرل کے علاوہ ایک بوڑھی عورت اور دو بچے باقی بچے تھے وہ بھی اتر گئے تھے۔ ساتھ ہی ڈرائیور بھی اتر گیا تھا۔ طغرل نشست پر بیٹھا گھبرایا ہوا تھا کہ وہ ہی بچ رہا ہے، بس نہ جانے کب منزل مقصود پر پہنچے گی۔ اتنے میں مسافروں کے راستے کی جانب سے ڈرائیور بس میں چڑھا تھا اور اپنی گمبھیر آواز میں گویا ہوا تھا، "سر گیٹ ڈاؤن پلیز، دس از دی لاسٹ سٹاپ"۔ طغرل ہکا بکا ہو کر باہر نکل آیا تھا۔ تب تک بڑھیا اور دو بچے بھی جا چکے تھے۔ ڈرائیور بھی سامنے کے کیبن میں جا گھسا تھا۔ شکر ہے کہ فون بوتھ موجود تھا اور طغرل نے از راہ احتیاط سکے بھی رکھے ہوئے تھے۔ ایک سکہ ڈالنے کے بعد قدیر مہر کے گھر کا فون ملا تھا، کسی مرد نے ہیلو کہا تھا اور کال ڈراپ ہو گئی تھی۔ دوسری کال پر اس جانب سے بولنے والے نے کہا تھا،"ڈاکٹر صاحب تو ہسپتال گئے ہوئے ہیں۔ میں ان کا بھائی منیر ہوں۔ پریشان مت ہوں، کچھ کرتے ہیں۔ آپ انتظار کریں"۔
اگرچہ طغرل نے اوور کوٹ پہنا ہوا تھا لیکن برف باری کے بعد اس علاقے کی سردی سے نہیں بچا پا رہا تھا۔ ٹوپی نہیں تھی۔ عجیب شہر تھا جیسے جن پھر گیا ہو۔ اگرچہ رات کے آٹھ سے کچھ زیادہ وقت ہوا تھا۔ اردگرد کوئی کیفے پب وغیرہ کھلا دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ پناہ لی جا سکتی۔ کوئی بیس منٹ گذرنے کے بعد ایک گاڑی جسے ایک خاتون چلا رہی تھی طغرل کے نزدیک آ کر رکی تھی۔ اس کے عقبی دروازے سے ایک گنجا ہوتا ہوا مرد نکلا تھا جو ڈاکٹر قدیر مہر کا چھوٹا بھائی تھا۔ تعارف ہوتے ہی طغرل لپک کر گاڑی میں جا بیٹھا تھا۔ گاڑی خاصی گرم تھی، طغرل کو سکون مل گیا تھا۔ گاڑی قدیر مہر کی اہلیہ چلا کر لائی تھیں۔ منیر نے بتایا تھا کہ "بھابی گاڑی کم ہی چلاتی ہیں۔ اس جگہ کا انہیں علم نہیں تھا پھر موسم بھی خراب تھا، سڑک پر پھسلن بہت ہے زیادہ ہے چنانچہ مجھے ان کا ساتھ دینا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب راؤنڈ پر تھے۔ بچوں کو ہم اکیلا چھوڑ کر آئے ہیں"۔ طغرل کو شرمندگی ہوئی تھی اور اس نے معذرت کی تھی جس پر بیگم قدیر مہر نے کہا تھا،"معذرت کس بات کی بھائی، آپ مہمان ہیں، ایسا ہو جایا کرتا ہے"۔ ابھی ڈاکٹر قدیر مہر کے گھر میں داخل ہو کر بیٹھے ہی تھے کہ وہ خود تشریف لے آئے تھے۔ وہ طغرل سے بڑے تپاک سے ملے تھے اور گلہ کیا تھا،"یار تم نے کہا تھا کہ کل پہنچو گے لیکن آنے کی ٹائمنگ کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔ مجھے کیا پتہ تھا اس لیے ہسپتال کی کال پر چلا گیا۔ تمہاری آمد کا علم ہوتا تو کال ڈائیورٹ کرا دیتا، آئی ایم سوری یار"۔ طغرل کو یاد آ رہا تھا کہ وہ اپنے ہم نظریہ دوست ظہیر چوہدری کے ہاں گیا تھا، اس کا سلوک کیا تھا جبکہ ڈاکٹر قدیر مہر باقاعدہ جمیعت میں ہوا کرتا تھا یعنی نظریاتی طور پر طغرل کا شدید مخالف البتہ تھا طغرل کا دوست۔ ڈاکٹر نے اپنے چھوٹے بھائی سے کھانا لگوانے کو کہا تھا۔ طغرل سگریٹ پینا چاہتا تھا اس لیے سگریٹ منہ میں اڑس کی پورچ میں نکلنے کی خاطر دروازے کی جانب بڑھا تھا جس پر ڈاکٹر موصوف نے کہا تھا، "یار مجھے سگریٹ سے نفرت ہے" پھر ہنستے ہوئے کہا تھا " لیکن سگریٹ کے دھوئیں کی بو اتنی بری نہیں لگتی۔ باہر سردی ہے، یہیں بیٹھ کر پی لو"۔ جب کھانے بیٹھے تو ڈاکٹر قدیر نے طغرل سے کہا تھا،"اب آئے ہو تو ایک ہفتے سے پہلے جانے کا نام نہ لینا"۔ " اور ایک ہفتے کے بعد ۔ ۔ ۔" طغرل نے ہنس کر پوچھا تھا۔ "بھائی مثال کے طور پر کہہ رہا تھا یعنی کم سے کم، ویسے تمہارا جتنا جی چاپے رہو، تمہارا اپنا گھر ہے"۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1421159371243502
“