طغرل ماسکو تو لوٹ آیا تھا لیکن اسے بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ تاجک نے ایسا آخر کیوں کیا؟ یہ تو بالکل کسی ہندی فلم کی کہانی بن گئی تھی جس میں مینیجر چال چل کر پورے کاروبار پر قبضہ کر لیتا ہے اور سیٹھ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو جاتا ہے۔ وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ کرے تو کیا کرے؟ بددیانت شخص سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے پھر طغرل جیسے روادار شخص کے لیے تو ویسے ہی بہت مشکل تھا۔ اس قسم کا ایک معمولی واقعہ پہلے بھی ایک بار ہو چکا تھا۔ مینیجر سرگئی کی ملازمت کے دو برس پورے ہوئے تھے۔ طغرل نے ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ سرگئی کے کام دوست ہونے کی تعریف کی تھی اور اسے پندرہ روز کی اضافی تنخواہ بھی دی تھی۔ چند روز بعد سہیل نے کہا تھا، "آپ سرگئی کی بلاوجہ تعریف کرتے ہیں۔ وہ بے ایمان ہے۔ روز اتنا بڑا تھیلا کندھے کے ساتھ لٹکا کر آتا ہے جو خالی ہوتا ہے لیکن جب وہ دفتر سے جاتا ہے تو اس کا تھیلا پھولا ہوا ہوتا ہے۔ طغرل نے کہا تھا کہ اس کا کوئی ثبوت دو تو بات بنے۔ اگلے روز سہیل نے طغرل سے کہا تھا آئیں ثبوت دیکھ لیں۔ ایک کمرے میں سرگئی کا تھیلا رکھا تھا جس میں پیکڈ ہائی نیک شرٹس ٹھنسی ہوئی تھیں۔ طغرل نے اس میں سے ایک پیک نکال کر اس کے تھیلے کے اوپر رکھ دہا تھا اور زپ پھر سے بند کرکے سہیل سے کہا تھا،"تم سرگئی سے کچھ نہ کہنا، دیکھتے ہیں اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے"۔ جاتے ہوئے اوپر دھرا پیک تھیلے میں واپس ڈال کر سرگئی بھرا ہوا تھیلا ساتھ لے کر چلتا بنا تھا۔ اگلے روز طغرل نے سہیل سے کہا تھا کہ آج بھی اگر وہ تھیلا بھر کر لے جانے لگے تو اس سے پوچھ لینا کہ کیا اس نے رسید بنا لی تھی۔ سہیل نے ایسا ہی کیا تھا اور سرگئی نے یہ کہہ کر کہ اوہ میں نے تو یونہی رکھ لی تھیں مگر اب میرا ارادہ بدل چکا ہے، شرٹس اپنے تھیلے سے نکال دی تھیں۔ دو روز بعدر اس نے خود ہی کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اظفر نے بتایا تھا کہ تاجک اپنے روسی مہمانوں کے ساتھ کراچی میں شاہراہ فیصل پر نرسری کے قریب کسی ہوٹل میں مقیم ہے۔ طغرل نے اظفر سے گلہ کیا تھا کہ اس نے تاجک کو یہ حرکتیں کرنے سے کیوں نہیں روکا تھا۔ اظفر کا موقف تھا کہ طغرل نے خود ہی اسے خالی کاغذوں اور بلینک چیکس پر دستخط کرکے دیے تھے تو وہ اسے کسی بھی حرکت سے بھلا کیسے روک سکتا تھا۔ مگر طغرل کا کہنا تھا کہ میری غیر موجودگی میں دفتر کی نگرانی پر اظفر ہی مامور تھا۔ اظفر نے یہ ذمہ داری خود لی تھی۔ اس بات کا اظفر برا منا گیا تھا۔ طغرل کو شک تھا کہ کسی نہ کسی حوالے سے اس سارے معاملے میں تاجک اور اظفر شریک تھے۔
عاصم کا دفتر بھی نرسری میں تھا۔ نزدیک ہی دو بہتر ہوٹل تھے۔ طغرل نے عاصم کو فون پر صورت حالات سے آگاہ کیا تھا۔ عاصم نے تاجک کو تلاش کروا لیا تھا لیکن اس نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی تھی کی روسی گاہکوں کو تو وہ اپنے کسی اور کام کے سلسلے میں ساتھ لایا تھا۔
طغرل نے مناسب جانا تھا کہ سب سے پہلے روسی پارٹی سے رجوع کیا جائے۔ اس نے نینا سے مشورہ کیا تھا۔ نینا نے مشورہ دیا تھا کہ کونیتسن، وہ شخص جو اظفر کے ساتھ گیا تھا اور جو طغرل سے کپڑا خریدتا تھا، کو ایک خط لکھا جائے کہ مینیجر تاجک نے دھوکہ دہی کی تھی چنانچہ طغرل کی کمپنی اس کے خلاف فوجداری مقدمہ کروا رہی ہے۔ ان کے لیے بہتر ہوگا کہ تاجک کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھیں۔ نینا نے ایک لیٹر ہاتھ سے لکھ دیا تھا۔ چند روز بعد جب کونیتسن اور اس کا ایک اور روسی ساتھی پاکستان سے لوٹ آئے تھے۔ طغرل جا کر کونیتسن سے ملا تھا اور نینا کے ہاتھ کا لکھا خط اس کے حوالے کر دیا تھا۔ کونیتسن کا کہنا تھا کہ تاجک انہیں طغرل کی کمپنی کے توسط سے لے گیا تھا تاکہ کام آگے بڑھایا جا سکے۔
نینا کا مشورہ مناسب نہیں تھا جس پر طغرل عمل درآمد کر بیٹھا تھا۔ ظاہر ہے تاجک بھی ماسکو لوٹ آیا تھا مگر اس کے گھر کے فون سے بالکل جواب نہیں دیا جا رہا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ، اس کی بیوی اور اس کی بیوی کا بیٹا سب گھر چھوڑ کر چلے گئے ہوں۔
ایسے میں اظفر اور شہرزاد ہی تھے جو طغرل کا غم کم کرنے میں مددگار تھے۔ کام ٹھپ ہو چکا تھا۔ مافیا باقاعدہ بھتہ وصول کر رہی تھی۔ تاجک کا پتہ نہیں چل پا رہا تھا۔ ایسے میں میر شہباز کام آیا تھا جس نے کسی طرح تاجک کو ڈھونڈ نکالا تھا اور کسی اور جگہ پر طغرل کی اس کے ساتھ ملاقات کروائی تھی۔ تاجک شاکی تھا کہ کونیتسن سے کیوں کہا تھا کہ طغرل اس کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کروا رہا ہے۔ طغرل کا جواب تھا کہ ایسے میں جب وہ اپنے طور پر پرچیز پارٹی پاکستان لے گیا۔ فارن ایکسچینج منتقل کیا اور دفتر لوٹا تک نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا تھا۔ تاجک نے یہ کہہ کر کہ کل دفتر آ کر ساری باتیں تفصیل کے ساتھ کرے گا، جان چھڑوا لی تھی۔
اگلے روز وہ دفتر آیا تھا ۔ ایک شخص جس کی کل تنخواہ ڈھائی سو ڈالر تھی، اس کے پاس الیکٹرونک فون بک تھی جو ان دنوں ڈیڑھ دو سو ڈالر کی ملتی تھی۔دھوپ کا برانڈڈ چشمہ تھا۔ بہترین کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی کارستانیوں کا جواب دیتا اس نے یہ کہہ کر طغرل کو خائف کر دیا تھا کہ اس نے کئی برس سے ویلیو ایڈڈ ٹیکس ادا نہیں کیا۔ اگر وہ چاہتا تو ٹیکسیشن والوں کو مطلع کرکے طغرل کو اندر کروا سکتا تھا۔ طغرل کو ایک تو روسی زبان نہیں اتی تھی دوسرے وہ روسی قوانین نہیں جانتا تھا چنانچہ ڈر گیا تھا۔ تاجک نے کہا تھا کہ چند روز تک وہ سارا حساب لکھ کر دے دے گا اور اگر پیسہ منتقل کیا تو کسی مقصد کے تحت کیا تھا جو وہ لوٹا دے گا۔ دو ہی طریقے ہو سکتے تھے کہ یا تو اس کے خلاف رپورٹ درج کروائی جاتی۔ پولیس کارروائی تب کرتی جب ثبوت اکٹھے کرلیتی۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ اس پر اعتبار کیا جاتا تاکہ جو مل سکتا تھا وہ مل جاتا، چنانچہ طغرل نے دوسرا طریقہ اختیار کرنا ہی بہتر جانا تھا۔
یہ آخری بڑی غلطی تھی جو طغرل سے سرزد ہوئی تھی۔ اس کے بعد تاجک ایسے غائب ہوا تھا جیسے اسے آسمان نگل گیا ہو یا زمین کھا گئی ہو۔ طغرل، شہرزاد اور اظفر کئی بار اس کے گھر گئے تھے لیکن کوئی دروازہ نہیں کھولتا تھا۔ ا کے گھر کا ٹیلی فون بند تھا۔ رات کو دفتر میں طغرل اکیلا ہوتا تھا کہ فون کی گھنٹی بجتی تھی ۔ ریسیور اٹھانے پر بھیانک چیخیں سنائی جاتی تھیں۔ ہیلو ہیلو کہنے پر کوئی جواب نہیں ملتا تھا مگر فورا" بعد پھر ہیبت ناک چیخیں اور ڈراؤنی آوازیں سنائی دینے لگتی تھیں۔
میر شہباز پاکستان گیا ہوا تھا۔ تاجک کے آخری بار نمودار ہونے کے بعد شروع ہونے والے یہ ڈراؤنے فون بیس پچیس روز بعد یک لخت بند ہو گئے تھے۔ میر شہباز جب ایک ماہ بعد لوٹا تھا تو اس کے ساتھ رابطہ ہوا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ تاجک اپنی بیوی بچے کے ہمراہ امریکہ چلا گیا تھا۔
طغرل کے ناگفتہ بہ حالات کو دیکھ کر نینا نے کہا تھا کہ وہ راتیں اس کے ہاں گذارا کرے اس لیے کہ مافیا کا بھتہ چکانے کے پیسے نہیں تھے، ایسا نہ ہو کہ وہ رات کو دفتر میں پٹرول بم سے آگ ہی لگا دیں۔ دوسری جانب شہر زاد کی فیس ادا نہیں ہو پا رہی تھی۔ طغرل نے اس سے کہا تھا کہ وہ کام شروع کر دے مگر وہ ڈٹ گیا تھا کہ وہ کام کرنے کے لیے ماسکو نہیں آیا تھا۔ ایک پاکستانی شخص جس نے طغرل سے بہت سا مال لیا ہوا تھا کبھی کبھار بڑی مشکل سے دو سو، تین سو ڈالر دے دیتا تھا جس سے طغرل اپنی گذر بسر بھی کرتا تھا اور شہر زاد کو بھی کھانے پینے کے لیے کچھ دے دیتا تھا۔ شہرزاد اکتا گیا تھا اور دل جلانے والی باتیں کرنے لگا تھا۔ ویسے بھی اس کی تعلیم پر توجہ نہیں تھی۔ طغرل نے کہیں سے کر کرا کر اسے ٹکٹ لے کر دیا تھا، یوں وہ پڑھائی وڑھائی چھوڑ گھر لوٹ گیا تھا۔
ایک گاڑی تاجک ہتھیا چکا تھا۔ طغرل نے دوسری گاڑی اونے پونے بیچی تھی اور مناسب جانا تھا کہ الماآتا جا کر رؤف تاتار سے عدالت کے ذریعے رقم وصول کرنے کی کوشش کی جائے۔ طغرل نے اظفر کے منجھلے بھائی کے ذمے لگایا تھا کہ وہ دفتر میں رہا کرے۔ کسی کے بیل بجانے پر دروازہ نہ کھولے اور خود ایک بار پھر بذریعہ ریل گاڑی ایمان کے ہاں جا پہنچا تھا۔ رؤف بھی تاجک کی مانند ملنے سے انکاری تھا بلکہ اس کی بیوی ہی فون اٹھاتی تھی اور کہہ دیتی تھی کہ وہ شہر میں نہیں۔
جب مقدمے کے بارے میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ مطلوبہ رقم کا دس فیصد جمع کروانا پڑتا تھا تب عدالت مقدمے کی کارروائی شروع کرتی تھی۔ اگر ساڑھے پانچ ہزار ڈالر ہوتے جو مطلوبہ رقم کا دس فیصد بنتا تھا تو طغرل الماآتا آتا ہی کیوں، ماسکو میں رہ کر جو مال موجود تھا اس کو اونے پونے بیچنے کی کوشش کرتا۔ تاہم الماآتا میں وہ ماسکو والی پریشانیاں نہیں تھیں۔ ایمان کے ساتھ وقت اچھا کٹ رہا تھا۔
ایک روز اظفر کے منجھلے بھائی نے فون کیا تھا کہ مافیا دروازے توڑنے کو ہے۔ اب وہ دفتر میں نہیں رہ سکتا۔ بتائیں وہ کیا کرے؟ طغرل نے کہا تھا کہ جس پاکستانی شخص نے پہلے مال اٹھایا ہوا تھا۔ اسے بلا کر کہو کہ سارا مال اٹھا لے۔ جب مال نکال لیں تو تم دفتر کو تالا لگا کر نکل جانا۔
رؤف کے معاملے سے مایوس ہو کر اور ماسکو میں موجود سب کچھ لٹا کر طغرل الماآتا سے ہی پاکستان چلا گیا تھا۔ وہ لاہور کے نزدیک چوہدری ماہم کے ہاں مہمان تھا۔ ایک روز انہیں لاہور جانا تھا۔ ماہم کی کمر میں درد تھا اس نے طغرل سے گاڑی چلانے کو کہا تھا۔ جب لاہور کے نزدیک پہنچے تو ماہم نے کہا تھا،" یار وہ مناہل کا فون آیا تھا آج اسے لاہور پہنچنا تھا، تمہارے خیال میں وہ کہاں آ سکتی ہے؟" طغرل سمجھ گیا تھا کہ ماہم مناہل کے ساتھ اس کا سلسلہ جنبانی کرانا چاہتا ہے مگر اسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے بے دلی سے کہا تھا،" مجھے کیا پتہ چوہدری۔ اس کے ماں باپ یہیں کہیں لاہور میں رہتے ہیں آجکل۔ ان کے ہاں ہی آئی ہوگی"۔ مینار پاکستان سے آگے لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے سامنے ایک لیبارٹری کے قریب ماہم نے طغرل سے گاڑی روکنے کو کہا تھا۔ طغرل جانتا تھا کہ یہ لیبارٹری ماہم کی ایک شناسا خاتون کی تھی۔ ماہم نے طغرل سے کہا تھا آؤ چلو۔ اس نے انکار کر دیا تھا کہ وہ بھلا کیوں جائے، تمہیں ہی مناہل کی تلاش ہے تو خود جاؤ۔ خیر ماہم چلا گیا تھا لیکن ایک لمحے کے بعد لیبارٹری سے باہر نکل کر طغرل کو آنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ طغرل اپنی سیٹ پر جما رہا تھا۔ ماہم خود ہی چل کر آیا تھا اور ڈرائیور سیٹ کے شیشے کے قریب آ کر کہا تھا، "اوہ یار، شی ہیز گاٹ اے کڈ"۔ طغرل کو ماہم کے استعجاب پر بے اختیار ہنسی آ گئی تھی اور اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا،" پھر میں کیا کروں بھائی؟"۔ ماہم بہت جز بز لگتا تھا۔ اس نے کہا تھا، کم از کم ماہین سے تو مل لو۔ طغرل اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے گاڑی سے اتر کر لیبارٹری کے اندر چلا گیا تھا۔ مناہل نے ایک کالی سی کمزور بچی تھامی ہوئی تھی جو غالبا" ماہ ڈیڑھ ماہ کی تھی۔
طغرل نے ماہین کو پیار کیا تھا۔مناہل نے طغرل کو سلام کیا تھا اور کھانے والی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ طغرل نے سلام کو جواب دے دیا تھا۔ ماہم نے مناہل سے کہا تھا چلو تمہیں کھانا کھلاتے ہیں۔ وہ سب گاڑی میں سوار ہو گئے تھے۔ مناہل طنز کے تیز چلا رہی تھی۔ طغرل خاموش تھا۔ ماہم بات کو مذاق میں ٹالنے کی کوشش کیے جا رہا تھا۔ انہوں نے گلبرگ میں ایک ٹیک اوے چائنیز سے کھانا لے کر گاڑی میں ہی کھایا تھا۔ پھر ماہم نے کہا تھا اب کہاں چلیں یار؟ طغرل نے کہا تھا کہ ایک ہی جگہ جا سکتے ہیں ، نفیسہ کے ہاں۔ ماہم نے کہا تھا چلو۔ مناہل کی بچی بہت رو رہی تھی۔ اسے دودھ چاہیے تھا۔ ایک جگہ ماہم نے گاڑی رکوائی تھی اور خود نکل کر بچی کے لیے دودھ لینے چلا گیا تھا۔ اب مناہل براہ راست طغرل کو ضیق کر رہی تھی۔ طغرل کے لیے اس کا رویہ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ جونہی ماہم سپر سٹور سے لوٹا، طغرل چیختے ہوئے گاڑی سے نکلا تھا، " خود ہی چلاؤ گاڑی، تم کیا میری بے عزتی کروا رہے ہو اس عورت سے"۔ بیچارہ ماہم کبھی مناہل کو سمجھاتا کبھی طغرل کو پچکارتا۔ طغرل بھی کیا کرتا، ماہم بھی دوست تھا اور نفیسہ بھی دوست چنانچہ پھر گاڑی چلانے لگا تھا۔ جب نفیسہ کے گھر میں داخل ہوئے تو نفیسہ مناہل کی بانہوں میں بچی کو دیکھتے ہی بولی تھی "اوئے یہ تو کس کے پلے کو لٹکا کر آ گئی ہے؟" اب دونوں سہیلیوں میں ٹھن گئی تھی مگر دو منٹ بعد ہی نفیسہ بچی کو گود میں لیے اس کو پیار کر رہی تھی۔
اب نفیسہ اور ماہم کی وہی تکرار شروع ہو گئی تھی کہ یار طغرل اپنے بچوں کی خاطر مناہل سے صلح کر لو۔ ہمارے کہنے پر یہ اپنے شوہر سے طلاق لے لے گی۔ تم اس کے ساتھ پھر سے نکاح کر لو۔ طغرل ایک بار نہ کہہ دیتا تو سو دفعہ نہ ہوتی تھی اور ایک دفعہ ہاں کہنا تو بھی پکی۔ وہ مسلسل انکار کر رہا تھا مگر اس کے دونوں دوست بھی دھن کے پکے تھے۔ طغرل سگریٹ پینے کے لیے پورچ میں آ گیا تھا۔ چاند نکلا ہوا تھا۔ چنبیلی مہکی ہوئی تھی مگر طغرل کا دل مضطرب تھا۔ وہ سگریٹ پی رہا تھا اور آنکھیں نم تھیں۔ اس نے دوبارہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی کہا تھا،"یار تم لوگ کہو تو میں گردن نیچے رکھ دیتا ہوں، چھری چلا دو۔ اف بھی کر جاؤں تو کہنا تف ہے لیکن جو بات تم کہہ رہے ہو یہ مجھ سے آئندہ مت کہنا"۔ وہ طغرل کو جانتے تھے چنانچہ چپ ہو گئے تھے۔ ماہم اور طغرل مناہل اور اس کی بچیوں کو اس کے والد کے گھر ڈراپ کر آئے تھے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1390268554332584
“