دہشت گردی اور زرد صحافت کا گٹھ جوڑ
ضرب عضب اور ردالفساد جیسی بڑی جارحانہ فوجی کارروائیوں کے بعد بھی پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ جی ہاں دہشت گردی روایتی جنگ کی بجائے چھاپہ مار جنگ کی طرح ہوتی ہے جس میں وار عموما" غیر متوقع ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک غیر متوقع وار انتہائی طویل وقفے کے بعد روس پر بھی ہوا۔
3 اپریل 2017 کو روس کے دوسرے بڑے شہر اور ثقافتی تہذیبی مرکز سینٹ پیٹرزبرگ جسے سات سے زائد عشروں تک لینن گراد کہا جاتا رہا تھا، کی زیر زمین ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں بم پھٹا۔ 14 افراد ہلاک اور 47 زخمی ہوئے۔
4 اپریل کے ایک پاکستانی اخبار میں شہ سرخی کا پہلا حصہ یوں تھا،" تاریخی شہر سینٹ پیٹرز برگ کا زیر زمین ٹرین سسٹم کھنڈر میں تبدیل، سیکیورٹی دھری رہ گئی، ہر طرف تباہی" ۔ ۔ ۔ ۔ یہ یکسر جھوٹ اور مبالغہ آرائی پر مبنی سرخی تھی۔ ایسی سرخیاں لگانے والے صحافی اور مدیر ایک طرح سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کی معاونت کرنے والوں اور دہشت گردی کے جواز پیش کرنے والوں کو خوش کرتے ہیں۔ عام لوگوں کو خوفزدہ کرتے ہیں اور عام لوگوں کی ہمت توڑنے کے ذمہ دار بنتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ جس نے بھی یہ سرخی جمائی اس نے کبھی سینٹ پیٹرز برگ دیکھا ہی نہیں ہوگا۔ خاص طور پر وہاں کے زیر زمین ریلوے سے قطعی شناسا نہیں ہوگا۔ دنیا بھر بشمول ماسکو اور روس کے دیگر شہروں میں موجود زیر زمین ریلوے سے اس شہر کا زیر زمین ریلوے نظام یکسر مختلف ہے۔
میں جب پہلی بار تب کے لینن گراد کے پہلے میترو سٹیشن میں اترا تھا تو خاصا حیران ہوا تھا۔ کیونکہ وہاں ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کا مخصوص شور نہیں تھا۔ عام طور پر آپ ماسکو سمیت دنیا میں کہیں بھی زیر زمین سٹیشن پر پہنچتے ہیں تو آپ کو ریل گاڑیاں آتی جاتی دکھائی دیتی ہیں ظاہر ہے ان کا شور بھی ہوتا ہے لیکن سینٹ پیٹرز برگ کے سٹیشنوں میں ایسا نہیں ہے۔ دونوں اطراف کی محرابوں میں ایسے جیسے دیواریں ہوں۔ آپ محرابوں کے دو جوانب کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گاڑی آنے کی ہلکی سی آواز آتی ہے اور محراب کے اندر کی دیوار "کھل جا سم سم" کی مانند کھل جاتی ہیں۔ اندر گاڑی کھڑی ہوتی ہے۔ گاڑی کے دروازے کھلتے ہیں، ساتوں محرابوں بیچ۔ مسافر نکلتے ہیں، آپ سوار ہو جاتے ہیں۔ دروازہ بند ہوتا ہے۔ گاڑی چل دیتی ہے۔ ساتھ ہی محرابوں میں دیواریں چنی جاتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ سینٹ پیٹرز برگ کی زیر زمین ریلوے دریائے نیوا کی پانچوں انگلیوں کے نیچے ہے۔ یاد رہے سینٹ پیٹرز برگ دلدل کو خشک کرکے اس پر بسایا گیا شہر ہے۔ دریا کے نیچے نمی زیادہ ہونے سے بچنے کی خاطر یہاں کا زیر زمین ریلوے سسٹم دہری حفاظتی چادر رکھتا ہے۔ بم دھماکے کے سبب ریل کے لیے بنی سرنگ کی دیواروں سے شاید ایک چھلتر بھی نہیں اترا ہوگا جبکہ ہمارے صحافی دوست نے "زیر زمین ٹرین سسٹم" کو ہی کھنڈر میں تبدیل کر ڈالا۔ حیف ہے ایسے انداز صحافت پر۔
انسانی جانیں ضائع ہوئیں، کئی لوگ زخمی ہوئے۔ اس کا گہرا تاسف ہے مگر بڑے پیمانے پر کوئی تباہی نہیں ہوئی۔ ریل گاڑی کا ڈرائیور الیکساندر کسی ٹی وہ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے لجا رہا تھا۔ بہر حال اس شخص نے جس نے دھماکہ سننے اور دھوئیں کی بو محسوس کرنے کے بعد گاڑی کو سرنگ میں روک لینے کی بجائے چشم زدن میں گاڑی کو اگلے سٹیشن تک لے جانے کا فیصلہ کیا تھا کہا کہ" میں نے بہادری کا کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ میں نے تو اپنا کام کیا ہے۔ دھماکہ ہوا تھا جس کا مطلب تھا آگ بھڑک اٹھی ہوگی۔ روک لیتا تو کون مدد کرتا۔ کیا میں اکیلا ڈرائیور؟ ہدایات کے مطابق کام کیا تو بہت سے زخمیوں کو بروقت طبی امداد مل پائی"۔ جس سٹیشن پر گاڑی آ کر کے رکی تھی اس کی انچارج فربہ مگر حسین عورت نینا شمائلووا نے کہا کہ مسافروں اور ہم سب نے زخمیوں کی مدد کرنا شروع کر دی تھی۔ پانچ منٹ بعد نجات دہندگان پہنچ گئے تھے۔ سچی بات ہے میں بہتے ہوئے خون، مرے ہوئے اور زخمی لوگوں کو دیکھ کر تب نہیں روئی تھی۔ ہاں البتہ اب آنکھوں میں آنسو ہیں"۔ کیا یہ عام اور بہادر لوگ اس صحافی سے اچھے نہیں ہیں جو دہشت گردوں کی بجائے عام پرامن لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ایک اور بھی ہیرو تھا پولیس انسپکٹر البرت جس نے اس سٹیشن پر جہان سے دہشت گرد داخل ہوا تھا اور خودساختہ بم رکھ کر راہداری عبور کرکے دوسرے سٹیشن پر گاڑی میں جا سوار ہوا تھا، ایک اور بم پڑا دیکھ کر ماہرین کو بلایا تاکہ اسے ناکارہ کر دیں۔
اب آتے ہیں مبینہ دہشت گرد کی جانب۔ نام لیا جا رہا ہے کرغزستان سے ہجرت کرکے روس کی شہریت حاصل کرنے والے اکبر جون (جان) جلیلوو کا۔ ابھی تک اس شبہے کی وجہ سی سی ٹی وی فوٹیج ہے جس میں اس کے پاس بیگ ہوتا ہے پھر نہیں ہوتا۔ بیک پیک باقی رہتا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اس کا جسم پیٹ سے پھٹا اور گردن علیحدہ ہو گئی جس کا ماہرین نے یہ مطلب لیا کہ اس نے بم یا تو بیک پیک میں رکھا ہوا تھا یا شکم کی سطح پر ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا یہی وجہ تھی کہ اس کے ارد گرد لوگوں کے بھی پیٹ متاثر ہوئے۔ تاہم ابھی تک کسی بھی عینی شاہد نے یہ نہیں کہا کہ بم پھٹنے سے پہلے اس نے "اللہ اکبر" کہا ہو ( دہشت گرد ایسا کرتے ہیں )۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بم ریموٹ سے کسی اور نے پھاڑ ڈالا ہو۔ دھماکہ خیز مواد کی مقدار بھی خاصی کم بتائی گئی ہے یعنی 200 سے 300 گرام۔ اتنے لوگوں کے مرنے اور ڈبے کا بند دروازہ پھٹ جانے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بند جگہ پر دھماکہ سے زیادہ شدید خلاء پیدا ہوتا ہے۔
البتہ شام سے لوٹتے ہوئے پکڑے جانے والے کچھ جنگجووں نے یہ ضرور بتایا ہے کہ روس میں ایک خود کش دہشت گرد عورت سمیت پانچ خود کش بھیجے گئے ہیں۔ اس کو بنیاد بنا کر کرغیز قومیت کے روسی شہری جلیلوو پر گہرا شک کیا جا رہا ہے۔
اس دہشت گردی کی وجہ شام کی جنگ میں روس کا ملوث ہونا ہو سکتی ہے کیونکہ داعش روس کی دشمن ہو چکی ہے تاہم ابھی تک کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ روس دہشت گردی سے پہلے بھی متاثر ہوا ہے لیکن ردعمل میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا۔ پوری تحقیق کے بعد ذمہ داروں کو اگلے جہان پہنچا کر دم لیتا ہے۔
جی ہاں سیکیورٹی سسٹم میں کہیں خلاء تھا تو بم اندر پہنچ گیا مگر اس روز ماسکو کی میترو میں کوئی خوف نہیں تھا بلکہ میں تو گھنٹوں میترو میں رہا تھا۔ مجھے پیٹرز میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی کا کوئی علم نہیں تھا۔ نہ سیکیورٹی میں اضافہ ہوا تھا، نہ کوئی غیر معمولی بات دیکھنے میں ائی تھی۔ مجھے دہشت گردی سے متعلق کہیں سات بجے شام معلوم ہوا تھا۔ اس کے برعکس ہمارے پاکستانی صحافی کو اگلے روز بھی کھنڈر دکھائی دیے اور بڑے پیمانے پر ہوئی تباہی بھی۔ ایسے لوگوںکے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“