مثل برگ آوارہ
( اڑتے پتے کی طرح)
طغرل تو تھا ہی عاشق مزاج،مستزاد یہ کہ اسے رفعت کی دیدہ دلیری سے شہ مل گئی تھی۔ اس نے زیادہ صبر نہیں کیا تھا۔ ایک دو روز کے بعد وہ رفعت کے گھر چلا گیا تھا۔ رفعت اپنے باپ کی موجودگی میں کھل کر بات نہیں کر رہی تھی مگر اس کی نگاہوں سے بھرپور تعلق کا اظہار ہو رہا تھا۔ اس کا باپ بیٹی کی نگاہیں نہیں دیکھ رہا تھا یا شاید اس کی نظروں کا مطلب اس طرح سمجھنے سے قاصر تھا جس طرح طغرل سمجھ رہا تھا، اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ طغرل عمر میں اس کے باپ سے بھی سات آٹھ برس بڑا تھا۔
طغرل نے مناسب موقع پاتے ہی کہا تھا، شاید بچے کہیں باہر نہیں جاتے اگر اعتراض نہ ہو تو وہ انہیں گھما لائے۔ طغرل کا وقار رفعت کے باپ کے وقار کی نسبت افضل تھا پھر وہ خود ان کے گھر چل کر آیا تھا اور اپنے منہ سے پیشکش کر رہا تھا چنانچہ اس بیچارے کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ چند منٹ میں رفعت، نذہت اور سب سے چھوٹی بہن کے ساتھ تیار ہو کر آ گئی تھی۔ طغرل تینوں لڑکیوں کو لے کر باہر نکل گیا تھا۔
شہر کے مرکز میں پہنچ کر وہ چاروں گھومتے رہے تھے۔ طغرل کبھی رفعت کا ہاتھ پکڑ لیتا تھا۔ وہ بھی گرمجوش کا مظاہرہ کرتی تھی۔ وہ سب ایک بنچ پر بیٹھ گئے تھے۔ طغرل رفعت کے پہلو کے ساتھ تقریبا" چپکا ہوا تھا، وہ مزید چپک رہی تھی۔ پھر وہ انہیں لے کر میکڈونلڈ چلا گیا تھا۔ دونوں چھوٹی بہنوں کو اوپر والی منزل پر نشستوں پر بٹھا کر طغرل رفعت کو ساتھ لے کر کچھ لینے کاونٹر کی طرف جانے کے لیے زینہ اترا تھا۔ سیڑھیاں اترتے ہی طغرل نے کہا تھا،"رفعت میں تمہیں چوم لوں؟"۔ اس نے شرمیلی مسکان کے ساتھ کہا تھا،"ہائے سب کے سامنے "۔ "تو کیا ہوا؟" کہتے ہوئے طغرل نے اسے بانہوں میں بھر کر اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تھے۔ رفعت نے تھوڑا سا کسمسا کر کہا تھا، " ہونٹوں پر نہیں" کھلے ہونٹوں میں طغرل کی زبان داخل ہو چکی تھی اور یوں دونوں چند لمحوں کے لیے دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو چکے تھے۔
اب دونوں بے تکلفی بڑھ گئی تھی۔ رفعت کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ طغرل کے دفتر میں اکیلی پہنچے۔ طغرل کی سعی ہوتی تھی کہ وہ تعلق کا جتنا رس نچوڑ سکتا ہے نچوڑ لے۔ طغرل کے ہاتھ مسلسل بہکتے تھے اور رفعت مزید چمٹتی جاتی تھی۔
رفعت ہر روز کچھ نہ کچھ مزیدار طغرل کے لنچ کے واسطے بنا کر لاتی تھی۔ خود کم کھاتی تھی، اپنی مسکراتی ہوئی اداس آنکھوں کے ساتھ طغرل کو تکے جاتی تھی۔ یہ سب مخفی نہیں رہ سکتا تھا۔ بنگالن ٹیچر اب طغرل سے زیادہ واسطہ نہیں رکھتی تھی۔ نذہت الگ جلنے لگی تھی۔ ایک روز طغرل نے اسے شفقت سے کہا تھا،" موٹی"۔ نذہت بولی تھی " میں موٹی نہیں ہوں"۔ "اچھا" طغرل نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا تھا۔ "چاہیں تو ہاتھ لگا کر دیکھ لیں" نذہت بولی تھی۔ "کہاں؟" طغرل نے پوچھا تھا۔ "جہاں مرضی لگا کر دیکھ لیں"۔ طغرل نے سوچا تھا کہ ایک کی بجائے یہ تو دو ہو گئیں لیکن ساتھ ہی سوچا تھا کہ نذہت قانونا" نابالغ ہے مگر دماغ میں کہیں تھا کہ ہاتھ لگانے میں کیا ہرج ہے اور پھر موقع پا کر ہاتھ لگا لیا تھا ساتھ ہی ہوسناک لہجے میں کہا تھا،" تھوڑی سی تو ہو زیادہ نہیں"۔
طغرل نے ہاتھ لگانے کی بات ہذف کرتے ہوئے نذہت اور اپنی باقی گفتگو رفعت کے گوش گذار کر دی تھی۔ رفعت نے بتایا تھا کہ نذہت اس سے جلتی ہے اور ہر اس چیز پر ہاتھ صاف کرنا چاہتی ہے جو اس کے خیال میں رفعت کو ملنے والی ہو یا رفعت جس چیز کی چاہ کر رہی ہو۔ پھر اس نے مترنم ہنسی ہنستے ہوئے کہا تھا،" کوئی بات نہیں، نذہت کے مزے بھی لیں" یہ کہہ کر وہ کلاس لینے چلی گئی تھی۔
طغرل کو دو بہنوں کا تجربہ ملک جارجیا کے شہر ذوگدیدی میں ہو چکا تھا جب طغرل کی پرانی اور بہت ہی اچھی دوست مایا کی بڑی بہن نے طغرل کے ساتھ دست درازی کی تھی۔ طغرل کچھ بولا تو نہیں تھا مگر اس کی حرکت سے متعلق مایا کو آگاہ کر دیا تھا۔ مایا نے بھی وہی بات کہی تھی جو رفعت نے نذہت سے متعلق کی تھی۔ رفعت کی اجازت کے باوجود طغرل نذہت سے متعلق بے حد محتاط ہو گیا تھا۔
رفعت کے باپ کی اجازت تو مل ہی چکی تھی اس لیے طغرل رفعت کو مختلف جگہوں پر اپنے ساتھ لے جانے لگا تھا۔ البتہ نذہت اس کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ نچلے درمیانے طبقے کے لوگ اپنی بیٹیوں کو بہت آزادی نہیں دے سکتے مگر یہ لڑکیاں کم میسر آزادی سے بھی اگر چاہیں تو یکسر آزادی سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور اگر نہ چاہیں تو کوئی کسی کو کچھ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ روس کی ایک عوامی کہاوت ہے "اگر کتیا نہ چاہے تو کتا کیا کر سکتا ہے"۔ رفعت بہت سے اعمال پر رضامند تھی چنانچہ ایسی محافل اور مقامات پر طغرل سگریٹ پینے کا بہانہ کرکے نذہت کو جہاں بیٹھی ہو بیٹھا چھوڑ کر "آؤ رفعت گپ شپ لگاتے ہیں" کہتےہوئے اپنے ساتھ زینے یا کسی نسبتا" تنہا جگہ پر لے جا کر ہونٹوں اور ہاتھوں کی اینٹھن دور کر لیا کرتا تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“