جولائی زیادہ گرم
حسن نواز نے کہا ہے کہ دوسرے ملکوں میں تو پہلے الزام لگائے جاتے ہیں پھر تحقیقات ہوتی ہیں، یہاں الٹ ہو رہا ہے۔ برخوردار الزام تو کب کا لگ چکا، پانامہ لیکس بذات خود الزام ہی تو تھیں۔ تفتیش تفتیش ہوا کرتی ہے۔ لگتا ہے حسن نواز پاکستان کے معمولات بھول چکے ہیں جہاں پولیس کی تحویل میں آ جانے والا ہاتھی بھی تین روز کے بعد ہلکان ہوا ہوا کہہ رہا ہوتا ہے،" میں ہرن ہوں، میں ہرن ہو، قسم لے لو میں ہرن ہوں"۔ یہ تو اچھا ہوا کہ برخوردار آپ لوگ جے آئی ٹی کے زیر تفتیش آئے ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک ہو تفتیش کے طریقے دو ہی ہیں، نفسیاتی عوامل سے کھیل کر یا جسمانی تشدد برت کر کے۔ غیر متمدن ملکوں میں کام کو سہل کیے جانے کی خاطر تشدد استعمال کیا جاتا ہے جسے عرف عام میں "تھرڈ ڈگری" کہتے ہیں۔ مگر متمدن ملکوں میں تفتیش کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ بھی پرسکون نہیں ہوتا۔ پہلی بات تو یہ کہ ثبوت پیشتر سے اکٹھے کر لیے جاتے ہیں۔ جب ملزم کے سامنے مربوط ثبوت رکھے جاتے ہیں تو اس سے اعتراف جرم کروانے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ یا پھر "گڈ اینڈ بیڈ کاپ" یعنی اچھے اور برے پولیس والے کا ڈرامہ کھیلا جاتا ہے جس میں تفتیش کرنے والا ایک اہلکار ملزم کے سامنے اچھا بن کر کے اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرکے خود کو اس کا ہمدرد باور کراتا ہے جس کے برعکس دوسرا تفتیش کار بے حد سخت بن کر دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتا ہے۔ بعض اوقات گڈ اور بیڈ کاپ اکٹھے تفتیش کرتے ہیں لیکن بالعموم علیحدہ علیحدہ۔ ظاہر ہے دھمکانے والا اتنا برا نہیں ہوتا اور دلاسہ دینے والا اتنا اچھا نہیں ہوتا۔ یہ سارے طریقے ملزم کو بوکھلانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ایسے میں بعض اوقات اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے کہ اسے پچھتانے کا موقع بھی نہیں مل پاتا اور اسے اعتراف کرتے ہی بنتی ہے۔
پر بعض اوقات ملزم گھاگ ہوتے ہیں جو بوکھلاتے نہیں ہیں۔ نہ دھمکیوں سے گھبراتے ہیں نہ دلاسہ دیے جانے کو درخور اعتناء خیال کرتے ہیں۔ ایسے مجرم نہ صرف گھاگ ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے جرم کا نشان بھی نہیں چھوڑتے۔ خاطر خواہ ثبوت نہ ہوں تو ان سے ان کا جرم نہیں منوایا جا سکتا۔ اور تو اور وہ جھوٹ سچ کو عیاں کرنے والی مشین کو بھی دھوکہ دے جاتے ہیں کیونکہ نہ ان کے دل کی دھڑکن متبدل ہوتی ہے، نہ ان کے فشار خون پر کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ کوئی ایسا بدلا ہوا جسمانی عامل ہوتا ہے جسے مشین پڑھ سکے۔ چنانچہ ایسے ملزم اکثر صاف بچ نکلتے ہیں ویسے ہی جیسے "تھرڈ ڈگری" تلے آئے کئی ملزم مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی مجرم ثابت کر دیے جاتے ہیں۔
"وہائٹ کالر کرائمز" تو ویسے بھی تکنیکی طور پر جرائم نہیں ہوتے بلکہ قانون شکنی کا عمل ہوتے ہیں۔ قانون سازی بذات خود ایک پیچیدہ امر ہے۔ قوانین میں سقم جان بوجھ کر بھی رکھے جاتے ہیں تاکہ جرم کرنے والوں کو شک کا فائدہ مل سکے۔ کسی کا کہنا ہے کہ قانون ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ انہیں توڑا جائے۔ یہ بات تو خیر مذاق میں کہی گئی ہوگی لیکن چونکہ معاملہ مالیاتی بدعنوانی کا ہے جو زیر نظر ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ایسے معاملات اس لیے زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ کھیل ہی منفعت پسندی اور منفعت پروری کا ہے۔ اس کھیل میں سرمایہ دار کے تمام تر گماشتے جن میں قانونی مشیر، آڈیٹرز، حساب کتاب کے ماہر اکاؤنٹنٹس، بذات خود قانون، اپنے ملک اور دوسرے ملکوں کی قانونی اعانت یعنی ایک پوری قطار ہے شامل ہوتی ہے۔ اب پاکستان میں کھنگالے جانے کی کوشش والا پانامہ کیس ہی لے لیتے ہیں۔ کیا حسین نواز وغیرہ کسی کو اتنے شاطر لگتے ہیں کہ وہ اپنے طور پر سب کچھ سوچ لیں۔ قیمتی فلیٹس خریدنے کا ضرور سوچا ہوگا لیکن اس سارے معاملے کو کس طرح قانونی بنایا جائے، یہ معاملے اوروں نے سلجھائے ہونگے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ معاملہ الجھا ہوا ہے لیکن الجھاؤ کوئی بھی نہیں ہے۔ اس کا آسان جواب وہ پرانا محاورہ ہے کہ پاجامہ سلوانے والا اجابت کے لیے جگہ ضرور رکھواتا ہے۔ آف شور کمپنیاں بنائے جانے کی قانونی اجازت ہے۔ برطانیہ جیسے ملک میں قانون شکنی کیا جانا ویسے بھی کارے دارد ہے۔ یہ فلیٹس لیے ایک عرصہ بیت چکا ہے۔ ویسے لندن میں صرف ان کے ہی نہیں بلکہ پرویز مشرف، الطاف حسین، رحمٰن ملک، آصف زرداری اور پتہ نہیں کن کن کے کتنے کتنے مہنگے فلیٹس اور گھر ہیں۔ یوں معاملہ الجھا ہوا ہرگز نہیں ہے۔
الجھاؤ سیاسی ہے۔ یہ کہنا قیاس ہوگا کہ کس سیاسی رہنما کے پیچھے کون ہے اور کون اس سب کیے جانے سے مستفید ہونے کا آرزو مند ہے البتہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وزیراعظم کی شکل میں ایک سیاستدان کے ساتھ پھر سے نوزائیدہ سات سالہ سیاسی نظام پورے کا پورا اکھاڑے جانے کی سازش لگ رہی ہے۔ دلچسپ مگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ حزب اختلاف بھی اس مبینہ قوت کے ہاتھ مضبوط کرتی دکھائی دیتی ہے جس کے ہاتھوں نہ کبھی کوئی محفوظ رہا اور نہ اس عمل کو سرانجام پہنچائے جانے کے بعد رہ پائے گا۔ یہ لوگ بغض معاویہ میں حب علی سے اغماض برتنے کی غلطی کر رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پھندا ایک کے لیے نہیں کسا جا رہا لیکن سب اپنے اپنے مبنی بر قیاس یا اللہ جانے مبنی بر "ڈیل" مفاد کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔
دس جولائی کو جے آئی ٹی رپورٹ پیش کر دے گی، شاید مدت بڑھا دی جائے۔ عدالت عالیہ نے اپنے سر سے بلا اتاری تھی کہ ہزاروں صفحات کون پڑھے جن میں سے بیشتر عدالت عالیہ کے ایک منصف ہی کے مطابق ایسے تھے جن میں پکوڑے رکھ کر دیے جا سکتے ہیں۔ جے آئی ٹی نے ملزمان یا متعلقہ افراد سے کہا کہ صفائی میں دستاویزات لے آئیں۔ کہاں بات تھی فلیٹس خریدے جانے، آف شور کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ منتقل کیے جانے کی اور کہاں پوری کھکھیڑ شروع کیے جانے کی بنا ڈال دی گئی ہے۔
رپورٹ کا مطالعہ کرکے عدالت عالیہ کیا اور کب فیصلہ سنائے گی، اس کے بارے میں تو قیاس آرائی بھی نہیں کرنی چاہیے تاہم جولائی گرم جا رہا ہے، بارش کی دعا کی جا سکتی ہے، ویسے تو ملک کے موسموں کے مالک کوئی اور ہیں، نعوذباللہ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“